کلیم الدین احمد کی تنقید نگاری
(Safdar Imam Qadri, India)
(’اردو تنقید پر ایک نظر‘ کے حوالے سے)
کلیم الدین احمد کی ناقدانہ حیثیت مابہ النزاع رہی ہے۔ ایک عالم اُنھیں
عظیم ناقد تسلیم کرتا ہے اور دوسرا طبقہ اُن کی ناقابلِ فراموش خدمات کا
مُنکر ہے۔ بعض لوگوں کا رویّہ بین بین ہے۔ ایسے عالم میں ایک عام قاری کی
مشکلات میں اضافہ ہونا فطری ہے۔ اس کے باوجود اس حقیقت سے اِنکار مشکل ہے
کہ کلیم الدین احمد کی ناقدانہ تحریریں شاعروں، ادیبوں، ناقدین اور عام
قارئین کی توجّہ کھینچنے میں کامیاب رہی ہیں۔ کلیم الدین احمد کی مختصر سے
مختصر تحریرنے اردو ادب میں کئی بار طوفان کھڑا کیا۔ حالیؔ کے علاوہ شاید
ہی کوئی دوسرا ناقداتنا Well-discussed ہو۔ کلیم الدین احمد کے خیالات سے
ہمارا اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اُن کے خلوص، ادب کو ایک مکمّل اکائی سمجھنے
کی خو‘ اور شرح وبسط کے ساتھ شعر وادب کے مشتملات کا انصاف پسندانہ جائزہ
ایسی صفات ہیں جن کا انکار ممکن نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اُردو تنقید کی
بزم میں کلیم الدین احمد کی شناخت انھی اوصاف کی وجہ سے ہے۔
کلیم الدین احمد کی کتاب ’اردو تنقید پر ایک نظر‘ کا شمار اردو کی اُن اہم
ترین کتابوں میں ہوتا ہے جس کے مشتملات پر ہزار ہزار بحثیں ہوئی ہیں۔ اردو
تنقید پر عمومی تبصرہ، تذکروں کے بارے میں کلیم الدین احمد کا تاثر یا
اُردو کے مشہور ناقدین کے ادبی مقام کے حوالے سے گفتگو ہو، اُردو کے علمی
حلقے میں ان تمام امور پر بھرپور بحث ہوئی اور کلیم الدین احمد کے ناقدانہ
فیصلے سے اتّفاق اور اختلاف کرنے والوں کی صفیں بھی تیار ہوتی رہیں۔ کسی
زبان میں شاید ایسی کم کتابیں لکھی جاتی ہیں جن کے ہر صفحے پر ایک تنازعہ
پیدا ہو اور اُسے سلجھا نے کے لیے ایک حلقہ سرگرم رہے۔ ان معنوں میں کلیم
الدین احمد خوش نصیب ناقدین میں شمار کیے جائیں گے۔ کیوں کہ اُن کی کتاب پر
اور اُن کے ادبی فیصلوں پر کافی غور وفکر کیا گیا۔ نتائج کے معاملے میں آج
بھی لوگوں کے درمیان خاصا اختلاف ہے لیکن حقیقت سے اِنکار کرنے کی گنجایش
نہیں کہ کلیم الدین احمد اردو کے عظیم ناقدین میں سے ایک ہیں اور اُن کی
کتاب ’اُردو تنقید پر ایک نظر‘ اردو تنقید کی چنندہ کتابوں میں سے ایک ہے۔
کلیم الدین احمد نے جب یہ کتاب لکھی، اس سے قبل وہ ’اردوشاعری پر ایک نظر‘
جیسی معرکہ آرا کتاب لکھ چکے تھے جس کے مباحث سے اچھے خاصے تنازعات قائم ہو
چکے تھے۔ اپنے والد کی نظموں کے مجموعے ’’گلِ نغمہ‘‘ کے پیشِ لفظ میں اردو
غزل کے تعلق سے وہ مشہور زمانہ فقرہ بھی اس وقت تک لکھ چکے تھے جس میں غزل
کو نیم وحشی صنفِ سخن کہا گیا تھا۔ ان کے پڑھنے والوں کو یہ معلوم ہوچکا
تھا کہ اُن کی تنقید میں شِدّت اور زور ہے، وہ رعایت سے کام نہیں لیتے اور
کسی بھی بڑے سے بڑے مصنّف کے بارے میں کسی ایسے جملے کو لکھنے سے نہیں
گھبراتے، جس سے مختلف طرح کی پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس پس منظر میں
’اُردو تنقید پر ایک نظر‘ کی اشاعت پہلی بار ۱۹۴۲ء میں عمل میں آئی ہے۔
کلیم الدین احمد نے اس کتاب کو ۱۹۵۷ء میں ترمیم و اضافہ کے ساتھ شائع کیا۔
پھر اپنی وفات سے فوراً پہلے اُنھوں نے اِس کتاب کا آخری ایڈیشن بھی تیار
کرلیا جس میں ترمیم و اضافے موجود ہیں۔ آج ہمارے پاس یہی ۱۹۸۳ء کی کتاب
موجود ہے جو ۴۸۰؍ صفحات پر مشتمل ہے اور آج اسے ہی گفتگو کا موضوع بنانا
ہے۔
’اُردو تنقید پر ایک نظر‘ کتاب کا خاکہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کا لکھنے
والے کی نگاہ میں اردو کی مکمل ادبی تاریخ ہے۔ اُردو تنقید کی تاریخ لکھتے
ہوئے کلیم الدین احمد نے قدیم تذکروں سے لے کر دورِ حاضر کے ممتاز نقّادشمس
الرحمان فاروقی تک کا دور شامل کیا ہے۔ اس دوران جو ادبی تحریکیں پیدا
ہوئیں اور اُن کے زیرِاثر جو ادب لکھا گیا، اِن تمام امور کو بھی اُنھوں نے
گفتگو کا موضوع بنایا ہے۔ ابتدا میں ایک مختصر تر پیشِ لفظ ہے جس میں تنقید
کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ بہ ظاہر یہ مکمل کتاب کا ڈھانچہ ہے۔ اس
ڈھانچے میں جو داخلی خامیاں ہوں گی اُنھیں کلیم الدین احمد نے جدید اشاعتوں
میں ترمیم و اضافے کے مرحلے میں دور کرلیا۔ اس طرح یہ کتاب ایک اَیسی شاہ
راہ ہے جس پر کلیم الدین احمد کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے جائیے، کہیں کوئی
رکاوٹ یا پریشانی نہیں پیدا ہوگی۔ اگر اُن کے خیالات سے آپ کو اتّفاق ہے تو
الگ لطف آئے گا لیکن آپ اُن کی باتوں سے متّفق نہیں ہیں، تب بھی اُن کے
اعتراض اور شدّت بیان سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ایک قاری کے طور پر
یہ لطف ’اردو تنقید پر ایک نظر‘ یا کلیم الدین احمد کی دوسری کتابوں کے
پڑھنے والے کو ہی میسَّر آسکتا ہے۔
کلیم الدین احمد نے تنقید کی گفتگو کرتے ہوئے سب سے پہلے تذکروں کی طرف
توجّہ کی ہے۔ وہ میرؔ، میرحسنؔ، مصحفیؔ، گردیزیؔ، شیفتہؔ، لالہ سری رام
جیسے تذکرہ نگاروں کے تذکروں پر اپنی گفتگو مرکوز رکھتے ہیں۔ اس سے یہ
اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کلیم الدین احمد تذکروں کی دنیا کے گہرے واقف
کار ہیں۔ وہ اِن کی خوبیاں اور خامیاں دونوں جانتے ہیں۔ تذکروں کی بھیڑ میں
وہ اچھے اور خراب تذکروں کی درجہ بندی بھی کرتے ہیں۔ تذکروں کو وہ تین
حصّوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ شاعر کی زندگی، شاعر کی شخصیت اور شاعر کے کلام
پر تنقید۔ اسی میں وہ چوتھی شق کا اضا فہ بھی کرتے ہیں جسے وہ نمونۂ کلام
مانتے ہیں۔ وہ مثالیں دے کر شاعر کی زندگی، شاعر کی شخصیت اور شاعرانہ
مرتبے کے تعین پر روشنی ڈالتے ہیں۔ تذکروں میں جہاں کہیں بھی تھوڑی بہت
روشنی ملتی ہے، کلیم الدین احمد اُس کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ تذکرہ نگاروں کی
کاہلی، شعرا کے حالات جمع کرنے میں محنت کرنے کے بجاے قناعت کرلینے کی
عادت، انشاپردازی کا موقع بہ موقع استعمال، ادبی سیاست کی آزمایش اور تنقید
کو صرف زبان اور محاورہ، عروض اور بیان تصور کرلینے کو کلیم الدین احمد
فضول بات مان لیتے ہیں۔ تذکروں میں جو اشعار کا خزینہ موجود ہے، اُسے انھوں
نے اہم مانا ہے لیکن یہ واضح کیا ہے کہ یہ انتخابِ کلام ہر اعتبار سے
نمایندہ نہیں لیکن اس کی اہمیت تاریخی ہے اور کئی بار گمنام شعرا کے بہترین
اشعار تذکروں کے صفحات پر مل جاتے ہیں۔
’’آبِ حیات‘‘ کو کلیم الدین احمد نے ’’نئے تذکرے‘‘ کے خانے میں رکھا ہے۔
’’آبِ حیات‘‘ کے علاوہ اُنھوں نے حکیم عبدالحیٔ کی ’’گلِ رعنا‘‘ اور
عبدالسلام ندوی کی ’’شعرالہند‘‘کو بھی گفتگو کے مرکز میں جگہ دی ہے۔ محمد
حسین آزاد کے تعلق سے اُن کی تنقید تفصیلی ہے اور بجا طور پر اُنھوں نے اس
کتاب کو جانچنے کے لیے خاصا وقت صرف کیا ہے۔ ’’آبِ حیات‘‘ کی انشا پردازی
اور غیر ضروری عبارت آرائی کی مذمّت کرتے ہوئے محمد حسین آزاد کی خامیوں پر
وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ آزاد کی ذہانت اور خوبیوں کے وہ قائل ہیں
لیکن تنقید کی بہترین کتاب کے طور پر ’’آبِ حیات‘‘ کو وہ مقام عطا کرنے کے
لیے تیار نہیں۔ رنگینیِ زبان کے باعث ’’آبِ حیات‘‘ نے کس طرح کے ادبی مسائل
پیدا کیے ہیں اور ایک ناقد کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرنے میں محمد حسین
آزاد کس طرح بھٹک گئے ہیں، اس پر کلیم الدین احمد نے واضح اور دوٹوک گفتگو
کی ہے۔ اس طرح قدیم تذکرے ہوں یا جدید، کلیم الدین احمد ہمیں دونوں کی حدود
سے واقف کراتے ہیں اور اردو تنقید کے طالب علم کو ایک نئے آسمان کی تلاش کے
لیے تذکروں سے الگ کسی دوسری دنیا میں جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
’اُردو تنقید پر ایک نظر‘ کا سب سے اہم حصّہ اردو کے اہم، قابلِ قدر اور
متنازعہ ناقدین کی خدمات کا جائزہ ہے۔ اس حصّے میں پرانے اور نئے دونوں
ناقدین شامل ہیں۔ حالیؔ، شبلیؔ، عبدالحقؔ، آلِ احمد سرور، اختر حسین راے
پوری، مجنوں گورکھ پوری، رشید احمد صدیقی، احتشام حسین، محمد حسن، شمس
الرحمان فارقی، عزیز احمد، سردار جعفری، فراق گورکھپوری اور محمد حسن عسکری
جیسے ناقدین کی خدمات پر کہیں مختصر اور بعض اوقات تفصیل سے گفتگو کی گئی
ہے۔ اس جائزے میں بالعموم اس مصنف کے احوال اور خدمات کا تجزیہ کرتے ہوئے
کلیم الدین احمد نے سخت گیر اصول اپنائے ہیں۔ قدرشناسی کا کام تویہاں ہو
جاتا ہے لیکن سخت گیری کی وجہ سے مسلّمات پر ضرب پڑتی ہے اور پڑھنے والے کو
ان حقائق پر یقین کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ کلیم الدین احمد نے اپنی کتاب
’’میری تنقید ایک بازدید‘ میں خود بھی لکھا ہے : ’’اردو تنقید کے جس حصّے
کا شدید ردِّعمل ہوا، وہ حالی سے متعلق ہے‘‘۔ اس مرحلے میں کلیم الدین احمد
کا مشہور جملہ ہر جگہ زیرِ بحث رہتا ہے، ملاحظہ کریں : ’خیالات ماخوذ،
واقفیت محدود، نظر سطحی، فہم و ادراک معمولی، غور و فکر ناکافی، تمیز ادنا،
دماغ و شخصیت اوسط، یہ تھی حالیؔ کی کُل کائنات‘۔ دشواری یہ ہوئی کہ کلیم
الدین احمد کے سخت گیر اور تنقیدی جملے تو لوگوں کے ذہن میں گونج پیدا کرتے
رہے لیکن کسی نے یہ غور ہی نہیں کیا کہ کلیم الدین احمد نے ۲۰؍ صفحات میں
حالیؔ کی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالنے اور مقدمۂ شعروشاعری کے مختلف
حصّوں سے درجنوں مثالیں دینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔ نتائج کی تندی
اور سخت گیری کو عام طور پر محسوس کیا گیا لیکن اُنھوں نے جس طرح حالیؔ کی
کتاب کا مرحلہ وار جائزہ لیا، اُس پر لوگوں کی نظر نہیں گئی۔ کلیم الدین
احمد کے انکاریہ جملوں سے ایک ایسی خفگی پیدا ہوئی جس نے حالیؔ کے سلسلے سے
اُن کے تعارفی جملوں پر بھی نظر نہ ٹھہرنے دی۔ اور یہ مان لیا گیا کہ کلیم
الدین احمد نے حالیؔ کا شدت کے ساتھ اِنکار کیا ہے اور وہ حالیؔ کی خدمات
کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے۔ حالاں کہ یہ سچائی نہیں ہے۔
حالیؔ کی کتاب ’مقدمۂ شعر وشاعری‘ کی اہمیت پر غور کرتے ہوئے کلیم الدین
احمد نے جو نتیجہ اخذ کیا، اُسے ابتداً یوں لکھا ہے : ’’حالیؔ نے سب سے
پہلے جزئیات سے قطع نظر کرکے بنیادی اُصول پر غور و فکر کیا۔ شعر و شاعری
کی ماہیت پر کچھ روشنی ڈالی اور مغربی خیالات سے استفادہ کیا۔ اپنے زمانہ،
اپنے ماحول، اپنے حدود میں حالیؔ نے جو کچھ کیا، وہ بہت تعریف کی بات ہے۔
وہ اردو تنقید کے بانی بھی ہیں اور اُردو کے بہترین نقّاد بھی‘‘۔ اسی اہمیت
اور اعتراف کے بعد کلیم الدین احمد نے حالیؔ کی کتاب کے حصّۂ اوّل میں جو
بنیادی باتیں موجود ہیں، اُن کے بارے میں اپنا تجزیہ پیش کیا ہے۔ کلیم
الدین احمد کا کہنا ہے کہ شعر وشاعری کی اہمیت کا صحیح اندازہ حالیؔ کو
نہیں ہے۔ اُن کا ماننا ہے کہ حالیؔ افلاطون کے ہم خیال ہیں اور شاعری کو
غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ شعر کی تاثیر پر بحث کرتے ہوئے حالیؔ یہ سمجھتے ہیں
کہ شعر کا مقصد جذبات کو بھڑکانا ہے۔ کلیم الدین احمد وضاحت کرتے ہیں کہ
شاعری کی اہمیت اس سے بہت زیادہ ہے۔ جذبات کی تہذیب و ترتیب کے علاوہ
روحانی تسکین کے لیے بھی شاعری کار گرہو سکتی ہے۔ حالیؔ کو اس کی خبر نہیں۔
کلیم الدین احمد کی شکایت بجا ہے کہ حالیؔشاعری کی اہمیت کے جدید تر نظریوں
سے ناواقف ہیں۔
اخلاق اور شاعری جیسے اہم موضوع پر حالیؔ کی باتوں کو پیش کرنے کے بعد کلیم
الدین احمد حالیؔ کی بحث کو ایک سادہ سی گفتگو مانتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے
کہ اِن باتوں میں کوئی نیاپن یا گہرائی نہیں ہے۔ حالیؔ کے نظریۂ اخلاق کو
کلیم الدین احمد بے حد محدود مانتے ہیں اور شاعری کے تعلق سے اس کا جائزہ
لیتے ہوئے خود حالیؔ کے ایک قطعے کو مثال بنا کر اخلاق اور شاعری میں
اعتدال اور توازن کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ شعر کی ماہیت کے تعلق سے حالیؔ کی
جو بحث ہے، اُس میں میکالے کاقول حالیؔ نے نقل کیا ہے۔ کلیم الدین احمد
پہلا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ میکالے کی نقّاد کے بہ طور کوئی حیثیت نہیں اور
نقّالی کو شاعری سمجھنا بھول ہے۔ کلیم الدین احمد نے ٹھیک یاد دلایا ہے کہ
میکالے نے یہ بات ارسطو سے اخذکر کے اپنے ذاتی تصوّر کے طور پر پیش کردیا
ہے۔ کلیم الدین احمد نے اس قول کی تردید کی ہے اور حالیؔ کے ساتھ ساتھ
میکالے کو بھی شاعری کی اہمیت سے پورے طور پر واقف نہیں ہونے کی بات واضح
کردی ہے۔
حالیؔ نے شاعری کے لیے جن تین شرطوں کی بات رکھی ہے، اُن میں حالیؔ کے
مشاہدات کا کلیم صاحب نے جائزہ لیا ہے۔ تخیُّل، کائنات کا مطالعہ اور
تفحُّصِ الفاظ کے سلسلے سے حالیؔ کا تجزیہ کلیم الدین احمد پیش کرتے ہیں
اور حالیؔ کے خیالات کی حدود کا ہمیں احساس کرا دیتے ہیں۔ حالیؔ نے اِن
باتوں کے لیے مغربی مصنّفین سے اخذ واستفادہ کیا ہے لیکن کلیم الدین احمد
کا کہنا ہے : ’’حالیؔ خیالات تو اخذ کرلیتے ہیں لیکن اُن پر کافی غور وفکر
نہیں کرتے، اُن کی جانچ پڑتال نہیں کرتے۔ وہ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ بعض
باتوں میں تضاد ہے‘‘۔ حالیؔ نے ’الفاظ اور شاعری‘ میں اُن کے استعمال پر
تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ لیکن کلیم الدین احمد کا یہ اعتراض ہے کہ حالیؔ اِن
کی ناگزیریت کو نہیں سمجھتے۔ اسی لیے وہ شاعر ہونے کے باوجود اِن مباحث میں
ایک تماشائی بنے رہتے ہیں۔ حالیؔ کی مثال پر کلیم الدین احمد نے پھبتی کسی
ہے : ’’شاعری کو مستری سمجھنا بھی اسی بے خبری کی خبر دیتا ہے، الفاظ اور
معنی کی بحث میں بھی حالیؔ کے خیالات کو وہ ناکافی اور بعض اوقات لاعلمی پر
محمول قرار دیتے ہیں۔ تفصیلی گفتگو کے بعد وہ واضح کرتے ہیں کہ شاعری کی جن
شرطوں کے بارے میں حالیؔ نے بحث کی، اُن کی داخلی پیچیدگیوں سے وہ واقف
نہیں ہیں اور اِن امور کی سطحی تاویل پیش کر کے وہ اپنا ناقدانہ فریضہ ادا
کردیتے ہیں۔
کلیم الدین احمد نے حالیؔ کے اس مشہور جملے ’’شعر کی خوبی یہ ہے کہ سادہ
ہو، جو ش سے بھرا ہوا ہو اور اصلیت پر مبنی ہو۔‘‘ کا بھی وضاحت کے ساتھ
جائزہ لیا ہے۔ یہ قول مِلٹن کا ہے اور ترجمے میں حالیؔ سے جو غلطی ہوئی ہے،
اُس کی بھی اُنھوں نے نشان دہی کی ہے۔ پھر حالیؔ کی ایک ایک تعریف کا
علاحدہ علاحدہ جائزہ لیا ہے۔ حالیؔ نے سادگی کی جو تعریف کی ہے اُس پر کلیم
الدین احمد کی تنقید یہ ہے : ’’سادگی یہ ٹھہری تو مِلٹن کی نظمیں شعر کے
زمرے سے خارج ہو جائیں گی اور شیکسپئر کی شاعری کا بیش تر حصّہ بھی۔ ’غالب
اور اقبال کے بیش تر اشعار کا شمار بھی اشعار میں نہ ہوگا۔‘‘ حالیؔ نے
نیچرل شاعری کی جو بحث کی ہے، اُس کے بھی مضمرات کا کلیم الدین احمد نے
جائزہ لیا ہے۔ حالیؔ کے فرمودات کی کمیوں کا کلیم الدین احمد نے وضاحت کے
ساتھ تجزیہ کیا ہے اور حالیؔ کی حدود کا احساس دِلایا ہے۔ مغرب سے استفادہ
کی کو ششوں کو سرا ہنے کے ساتھ ساتھ کلیم الدین احمد حالیؔ کی اپنی صلاحیت
اور مغرب سے اثر لینے کی حدودواضح کرنے سے غافل نہیں ہوتے۔
حالیؔ کی تنقیدی اہمیت کا جائزہ لینے کے بعد کلیم الدین احمد نے اُن کی نثر
کی تعریف کی ہے۔ سرسید کے اثر سے زبان کی سادگی کا جو ایک سلسلہ شروع ہوا
تھا، حالیؔ اُسی کی ایک کڑی ہیں۔ کلیم الدین احمد نے بجاطور پر حالیؔ کو
داد دی۔ : ’حالیؔ نے صاف اور سادہ طرز ایجاد کی لیکن اُس طرز میں بے رنگی
نہیں، پھسپھساپن نہیں۔ اس میں ایک ثقافت ہے، ایک جاذبیت ہے، ایک رنگینی بھی
ہے اور پھر یہ تنقیدی مسئلوں پر بحث کرنے کے لیے موزوں بھی ہے‘۔ اگر
سنجیدگی سے کلیم الدین احمد کی گفتگو پر غور کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ
حالیؔ کے ادبی نتائج پرانھوں نے اصولی اور عملی بحث کرنے کے بعد اپنی رائے
دی۔ مقدمۂ شعر وشاعری میں حالیؔ نے اکثر بنیادی خیالات مغرب کے چراغوں سے
جلائے تھے۔ اکثر مقامات پر حالیؔ مغرب کے اُن دانش وروں کا ذکر بھی کرتے
ہیں۔ حالیؔ کے مقابلے کلیم الدین احمد کے پاس نہ صرف اُن مغربی اطلاعات کے
بارے میں زیادہ گہرا علم ہے بلکہ اُن امور پر مغرب میں بھی جو گفتگو ہوئی،
کلیم الدین احمد اِسے ٹھیک ٹھیک سمجھتے ہیں۔ اسی لیے حالیؔ کی اہمیت تسلیم
کرنے کے باوجود اُن کے ادبی اصولوں پر وہ آمَنّاوصدّقنا نہیں کہہ سکتے۔
’’مقدمۂ شعر وشاعری‘‘ پر کلیم الدین احمد کے اعتراضات ۹۹؍ فیصدی اُنھیں
سوالوں پر ہیں جو مغرب سے متعلق ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ حالیؔ کا کمزور
علاقہ ہے اور کلیم الدین احمد کی سب سے بڑی مضبوطی، اِسی لیے کلیم الدین
احمد نے حالیؔ کی عزّت اور احترام کے اظہار کے باوجود اپنا مشہور معتر ضانہ
جملہ پورے طور پر ثابت کردیا ہے۔
’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ کو عام طور پر ترقی پسند ادب کے سخت گیر مُحاسبے
کی وجہ سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ترقی پسندی کے دورِ عروج میں ہی کلیم الدین
احمد نے اس تحریک سے متعلق اہم ناقدین کے ادبی نظریات اور ناقدانہ حیثیت پر
شدّت کے ساتھ اپنا تنقیدی وار کیا تھا کلیم الدین احمد نے ترقی پسند تحریک
کے اغراض ومقاصد اور ادبی نقطۂ نظر کا تقریباً ۴۰؍ صفحات میں جائزہ لیا ہے۔
تحریک کے زمانے میں جن ناقدین کو عروج حاصل ہوا، اُن میں اخترحسین راے
پوری، مجنوں گورکھ پوری احتشام حسین اور محمد حسن کی ادبی خدمات کا وضاحت
کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ اُسی عہد کے ایک اہم ناقد جنھیں لبرل (Liberal) ترقی
پسند کہا جا سکتا ہے، آلِ احمد سرور کی ناقدانہ حیثیت متعیّن کرنے میں بھی
کلیم الدین احمد نے اپنا اچھا خاصا زورِ قلم صرف کیا ہے۔ ترقی پسند تحریک
پر دو ناقدین عزیز احمد اور علی سردار جعفری کی کتابوں کا محاسبہ بھی اس
کتاب کا اہم حصّہ ہے۔ ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ کے اس حصّے میں جہاں مصنف
نے ترقی پسند نظریات اور ناقدین کو زیرِنگاہ رکھا ہے، اُس کی ادبی تاریخ
نویسی کے نقطۂ نظر سے خاص اہمیت ہے۔ اس لیے اس کتاب کے ناقدانہ جائزے کا
کام اُس وقت تک پورا نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ ترقی پسندی کے تعلق سے لکھے
گئے جزو کو بحث میں شامل نہیں کیا جاتا۔کلیم الدین احمد نے ترقی پسند ادبی
تحریک کے نظریاتی امور سے سب سے پہلے بحث کی ہے۔ ترقی پسند نظریات اور ادب
میں اُن کے نفاذ کو کلیم الدین احمد صحیح نہیں مانتے۔ ادب اور پروپیگنڈا،
ادب اور غیر ادب جیسے سوالوں کو اٹھاتے ہوئے کلیم الدین احمد نے ترقی پسند
نعروں کی حقیقت کا جائزہ لیا ہے۔ وہ ترقی پسند ادب کی دنیا کو محدود مانتے
ہیں اور کہتے ہیں کہ ترقی پسند چند الفاظ، خیالات اور بندھے ٹکے فقروں کے
دام میں گرفتار ہیں۔ زندگی کی حقیقتیں، تاریخی حقیقت، نامیاتی اور جدلیاتی
حقیقت، حسن اور افادہ، ماحول، سماج، ادب اور زندگی کا تعلق جیسے مجموعۂ
الفاظ تنقید کا فریضہ ادا نہیں کرسکتے۔ جو اہرلال نہرو، احمد علی، مولوی
عبدالحق، پروفیسرعبدالعلیم کے اِقتباسات کو سامنے رکھتے ہوئے کلیم الدین
احمد نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ترقی پسند ناقدین نے اپنے نظریات کو
اردو زبان میں نافذ کرنے کے عمل میں جو تحریریں پیش کی ہیں، اُن میں اکثر
تنقیدی اعتبار سے معمولی ہیں۔
کلیم الدین احمد نے ترقی پسند فلسفے پر بھی اپنے تنقیدی تاثرات رقم کیے
ہیں۔ اشتراکیت اور مارکسزم کو کلیم الدین احمد نے اپنے تجزیے کی بنیاد
بنایا۔ ادب کا روٹی سے کیا تعلق ہے اور کیا انسانی زندگی کی سب سے بڑی
ضرورت روٹی ہے؟ ان موضوعات پر کلیم الدین احمد نے خاصی توجہ دی ہے۔ یہ بحث
چند صفحات پر مشتمل ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ کلیم الدین احمد ایک ماہرِ
بشریات (Anthropologist) ہیں اور انسان کے جسم، دل اور دماغ کو کیا چاہیے
اور کیا نہیں چاہیے، ان پر بڑی عالمانہ گفتگو کرتے ہیں۔ یہیں کلچر، تہذیب
اور ادب کے رشتے سے بعض سوالوں کو کلیم صاحب نے قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان مباحث اور ترقی پسند ادیبوں کی دلیلوں سے کلیم الدین احمد نے یہ نتیجہ
اخذ کیا ہے کہ ترقی پسند نظریۂ تنقید میں یہ صلاحیت نہیں کہ اچھے اور بُرے
ادب کے بنیادی فرق کو سمجھ سکے۔ دانتے (Dante) کی ڈوائن کامیڈی (Divine
Comedy) کو مثال بنا تے ہوئے اُنھوں نے بجا طور پر یہ سوال قائم کیا ہے کہ
اس کتاب کو کسی عام ترقی پسند تحریر کے مساوی سمجھنا، نہ صرف ناقدانہ بے
انصافی ہے بلکہ ادب شناسی کے معاملے میں ایک بھول بھی ہے۔ اُن کا یہ پوچھنا
بجا ہے کہ ایک دانتے کی تحریر ہی نہیں اور بھی شہکار تخلیقات موجود ہیں
لیکن کیا صرف اُنھیں اس لیے راندۂ درگاہ قرار دے دیا جائے کیونکہ وہ سامنتی
اور سرمایہ دارانہ دور میں وجود میں آئیں۔ یہ سوال اصل میں روایت کے صحیح
تجزیے سے جڑا ہوا بھی ہے۔
کلیم الدین احمد نے مارکس اور لینن کے خیالات کی اہمیت اور خدمات کو تسلیم
کیا ہے لیکن اُن کا سوال ہے کہ ’’ یہ حضرات نہ تو ادیب تھے اور نہ نقّاد،
اس لیے اُن کی رائیں کسی تماشائی کی رایوں سے زیادہ اہم نہیں ہو سکتیں‘‘۔
یہاں کلیم الدین احمد ایک بنیادی نکتہ اٹھاتے ہیں۔ آخر کون سے اصول کِن
چیزوں پر نافذ کیے جا سکتے ہیں؟ اور نقّاد کا حق یا صلاحیت کن لوگوں کو
حاصل ہے؟ کیا سیاسیات کا علم رکھنے والوں کو اخلاقیات کی بنیادی بحث میں
کوئی رول انجام دینے کا استحقاق حاصل ہے یا ایک ادبی ناقد موسیقی کو سمجھنے
کے لیے بنیادیں طے کر سکتا ہے؟ اگر ایسے لوگ اِن امور پر گفتگو کر بھی لیں
تو کیا اس بحث کو پایۂ استناد حاصل ہونا چاہیے؟ جواب واضح ہے کہ نہیں۔
مارکس اور لینن سماج اور تاریخ کے جتنے بڑے عالم ہوں، سیاست کے بہترین
تجربہ کرنے والے لوگوں میں شمار کیے جائیں لیکن ادب کے بنیادی نکات اور
ضروری مسئلوں کو وہ جاننے والے ہرگزنہیں۔ کلیم الدین احمد بجاطور پر اُنھیں
’’تماشائی‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ترقی پسند نظریے پر گفتگو کا اختتام
کرتے ہوئے انھوں نے مشہور مفکّر برگساں (Bergson) کے ادب اور آرٹ سے متعلق
خیالات کو مختصراً ترجمہ کر کے پیش کردیا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے بہ قولِ
کلیم الدین احمد ’’کاش ترقی پسند نقّاد انھیں سمجھنے کی کوشش کریں۔‘‘
ترقّی پسند اصولوں پر تفصیل سے گفتگو کرنے کے بعد کلیم الدین احمد نے چند
ترقی پسند ناقدین کے نظر یات اور تنقیدی خدمات پر بھی غور و فکر سے کام لیا
ہے۔ اصولی بحث کے بعد یہ لازمی ہے کہ اطلاقی (applied) پہلوؤں پر بھی روشنی
ڈال دی جائے۔ ترقی پسند ناقدین میں سب سے پہلے اُنھوں نے اخترحسین راے پوری
کے سلسلے سے گفتگو شروع کی ہے۔ راے پوری کی مشہور کتاب ’’ادب اور انقلاب‘‘
میں جس تبلیغی انداز میں ہنگامہ پروری کے ساتھ شعر وادب کے بارے میں گفتگو
کی گئی ہے، کلیم الدین احمد نے اس کی سخت خبر لی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ
اختر حسین راے پوری عام مارکسی خیالات کی تعبیروتشریح سے ایک قدم آگے نہیں
بڑھتے۔ ادب کیا ہے؟ موضوع اور ہیئت کی اہمیت کتنی ہے؟ شاعر کا ماحول اور
اُس کی شخصیت کا رشتہ کیا ہے؟ان سب سوالوں کی گُتھّیوں کو راے پوری سلجھا
نہیں سکے۔ اسی لیے کلیم الدین احمد نے اُنھیں کوئی اہم ناقد نہیں تسلیم
کیا۔
کلیم صاحب نے مجنوں گورکھ پوری کو بھی ترقی پسند ناقد کے طور پر اپنی کتاب
میں شامل کیا ہے۔ مجنوں نے ادب کے ترقی پسندانہ نظریات کے تعلق سے جو
تحریریں پیش کی ہیں، کلیم الدین احمد نے انھیں کا جائزہ لیا ہے۔ مجنوں
دورانِ تنقید اردو کے ادیبوں سے مغربی ادب کے اہم لکھنے والوں کا جو موازنہ
کرتے ہیں، اُن کو کلیم الدین احمد لاعلمی سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ کولرج
اور چوسر کے تعلق سے کلیم الدین احمد نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ مجنوں کو ان
سے واقفیت ہی نہیں۔ مشہور مارکسی خیالات کو مجنوں جس طرح بار بار لکھتے
ہیں، کلیم الدین احمد اس سے بھی نالاں ہیں۔ مجنوں کے دو ۲ اقتباسات پیش
کرنے کے بعد کلیم الدین احمد نے دکھایا ہے کہ مجنوں گورکھ پوری مارکس کے
اقتصادی تصّورات کو کوئی آخری شَے نہیں مانتے اور اقتصاد یات کُل زندگی
نہیں بلکہ اُس کا صرف ایک عنصر ہے، جیسے خیالات یہ واضح کرتے ہیں کہ مجنوں
گورکھ پوری بنیادی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ لیکن مارکسی تصوّرات کے بے وجہ
دباو میں وہ اپنے ذہن سے پورے طور پر کام نہیں لیتے۔
ترقی پسند نقادوں میں کلیم الدین احمد نے احتشام حسین پر زیادہ سختی کے
ساتھ لکھا ہے۔ اُس زمانے میں ترقی پسند ادب کو سمجھنے اور اُس کی تعبیر کے
لیے احتشام حسین کی بڑی شہرت تھی۔ آج بھی احتشام حسین اشتراکی ناقدین میں
سرِ فہرست تسلیم کیے جاتے ہیں۔ کلیم الدین احمد نے اپنے جائزے میں سب سے
پہلے احتشام صاحب کے اُن خیالات کو پیش کیا ہے جو مارکسی تصورات سے متعلق
ہیں۔ کلیم صاحب یہ بتانا چاہتے ہیں کہ احتشام صاحب مارکس کے اصولوں سے
زیادہ آگے نہیں بڑھتے۔ ادب میں افادیت، اخلاقیات، شعرفہمی اور فنون کے تعلق
سے احتشام صاحب جب بھی گفتگو کرتے ہیں، بنیادی باتوں کے بجاے مشہور اشتراکی
خیالات کی تکرار پیش کرتے ہیں۔ کلیم الدین احمد نے مثالیں دے کر ثابت کرنے
کی کوشش کی ہے کہ انصاف پسندی کا دامن احتشام حسین اکثر چھوڑ دیتے ہیں۔
ترقی پسند ادیبوں کے جائزے میں وہ جانب داری سے کام لیتے ہیں۔ جسے کلیم
الدین احمد ناقدانہ روگردانی تصور کرتے ہیں۔ کلیم الدین احمد کو شکایت ہے
کہ اختشام حسین اصولِ تنقید پر زیادہ محنت نہیں کرتے۔ اُن کی خواہش ہے کہ
جس طرح وہ اشتراکیت کو ادبی تجزیے میں بنیاد سمجھتے ہیں، اُنھیں چاہیے تھا
کہ مارکسی ادبی اصولوں کی بھی ایک کتاب تیار کریں۔ کلیم الدین احمد احتشام
حسین کی شخصیت میں کسی بڑے اور عہد ساز ناقد کا جلوہ نہیں دیکھتے۔ اس لیے
’اردو تنقید پر ایک نظر‘ میں اُن کی تحریروں پر شدید ردِّعمل موجود ہے۔
ترقی پسند ناقدین میں محمد حسن کا حالاں کہ کلیم الدین احمد نے احتشام حسین
کے پیروؤں میں شمار کیا لیکن اُنھیں دوسرے ترقی پسند لکھنے والوں کے مقابلے
زیادہ متوازن تسلیم کیا ہے کلیم الدین احمد کے خیال میں محمد حسن نے ترقی
پسند تنقید کے یک رُخے پن کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ محمد
حسن کے یہاں مارکسی تنقید کا غرور نہیں۔ لیکن متن کو گہرائی سے سمجھنے کے
معاملے میں محمد حسن دوسرے ترقی پسندوں کی طرح ہی کوتاہی برتتے ہیں۔
ترقی پسند ادب کی تنقید کے تعلق سے ’اردو تنقید پر ایک نظر‘ کا ضمیمۂ دوم
بہت اہمیت رکھتا ہے جس میں ترقی پسند ادب عنوان کی دومشہور کتابوں کا جائزہ
لیا گیا ہے۔ عزیز احمد اور علی سردار جعفری کی ان کتابوں کا کلیم الدین
احمد نے بہترین ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔ عزیز احمد کی کتاب کی انھوں نے جُزوی
طور پر تعریف کی ہے۔ اُن کے خیال میں اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ
’’مارکسی باتوں کی وہ مہمل تکرار نہیں جو دوسری ترقی پسند تنقیدوں کی
خصوصیت ہے۔‘‘ عزیز احمد کے بارے میں اُن کی رائے ہے کہ’ وہ بندھے ٹکے فقرے
دہرانے پر قناعت نہیں کرتے اور ذہن کو مارکسی فلسفہ کے ہاتھ بیچ نہیں
دیتے‘۔ عزیز احمد کا یہ کہنا کہ ’روس کے انقلاب کے پہلے کا ادب اہم ہے‘ اس
پر کلیم الدین احمد خوش ہوتے ہیں اور عزیز احمد کو اِن لفظوں میں داد دیتے
ہیں۔ ’’یہ بصیرت ترقی پسندوں میں کم نظر آتی ہے۔‘‘ اقبال کے تعلق سے ترقی
پسند ناقدین کے معتر ضانہ رویّوں کے خلاف جس سوجھ بوجھ سے عزیز احمد نے
اپنی گفتگو کی ہے، کلیم الدین احمد اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں لیکن ہم عصر
ادیبوں اور شاعروں کے بارے میں عزیز احمد کی آرا سے کلیم الدین احمد اتفاق
نہیں کرتے۔ ڈی۔ایچ۔ لورنس اور فرائڈ کا عزیز احمد نے منٹو اور عصمت چغتائی
کی خدمات کے جائزے میں ذکرکیا ہے۔ کلیم الدین احمد کُھلے لفظوں میں کہتے
ہیں کہ عزیز احمد ان مغربی مصنّفین سے آگاہ نہیں۔ فیضؔ اور راشد کی شاعرانہ
کمزوری تو عزیز احمد سمجھ پاتے ہیں لیکن جوش، قاضی عبدالغفار، کرشن چندر،
مجاز اور مخدوم محی الدین کی غیرناقدانہ تعریف کرنے کے لیے کلیم الدین احمد
انھیں قابلِ مذمّت سمجھتے ہیں۔ حالاں کہ عزیز احمد پر گفتگو ختم کرتے ہوئے
اُنھوں نے ایک دِل فریب جملہ بھی نقش کیا ہے : ’’مارکسی تنقید کے ریگستان
میں یہ سبزہ زار سے کم نہیں۔‘‘
علی سردار جعفری کی کتاب ’ترقی پسند ادب‘ پر کلیم الدین احمد کا تبصرہ
زیادہ سخت ہے۔ سردار جعفری نے اس کتاب میں جو اصولی بحث کی ہے، اُسے کلیم
الدین احمد نے مختلف سیاسی اور سماجی مفکرین سے مستعار قرار دیا ہے۔ سردار
جعفری نے جسں سنسنی خیزی کو ادبی تنقید میں رواج دیا اور جانب دارانہ یا
منصوبہ بندی کے ساتھ کسی کی تعریف یا تنقید کو شعار بنایا، اُسے کلیم الدین
احمد نے سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا۔ کلیم الدین احمد کے ترقی پسند ادب
کے سلسلے سے خیالات کا ایک تتمہ ’اردو شاعری پر ایک نظر‘ کی دوسری جلد میں
دکھائی دیتا ہے جہاں وہ جوش، مجاز، سردارجعفری اور فیض کی ترقی پسند شاعری
کو موضوعِ بحث بناتے ہوئے ترقی پسندی کے بنیادی انسلاکات پر چوٹ کرتے ہیں۔
تنقید ہو یا شاعری، اکثر معاملات میں اُنھوں نے ترقی پسند ادبی تحریک کو
آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ کلیم الدین احمد کے ناقدین اکثر اس امرکو تحریک سے اُن
کی دشمنی سمجھتے ہیں۔ کلیم الدین احمد کے جہانِ تنقید کے واقف کار کے لیے
یہ بتانا مشکل نہیں کہ پسند اور ناپسند یا دوستی اور دشمنی کی سطحی بنیادوں
پر اُنھوں نے اپنی تنقید کی عمارت قائم نہیں کی تھی۔ اُردو شاعری پر ایک
نظر، اور اردو تنقید پر ایک نظر، کتابوں کی تحریر کا زمانہ ۱۹۳۹ء سے
۱۹۴۲ء ہے۔ اُس زمانے میں ترقی پسند تحریک ابھی ابتدائی دور میں تھی۔ کسی
نئی تحریک کے لیے سب سے مشکل اُس کا ابتدائی زمانہ ہوتا ہے جب اُس کے
موئدین جلدبازی میں ہوتے ہیں۔ اس لیے ادب فہمی کے اصول و ضوابط قائم کرنے
کے دوران میں انصاف کا خون کرنے سے بھی جھجکتے نہیں۔ ۱۹۳۶ء سے ۱۹۵۶ء تک
ترقی پسند تحریک کے ابتدائی بیس برسوں میں شدّتِ پسندی اور ادبی فتوے دینے
کا رجحان اس قدر عام تھا کہ اُس زمانے کے ناوابستہ ادیبوں اور شاعروں کی
قدر شناسی کا مسئلہ اُلجھ کر رہ گیا ۔ تحریک کے زور میں انصاف کی طرف کوئی
دیکھنے والا نہیں تھا۔ اس پس منظر میں کلیم الدین احمد کی تنقید ایک ادبی
مجاہدہ ہے۔ اگر اُنھوں نے اس قدر شدّتِ بیان کے ساتھ مفصّل تجزیوں کے ساتھ
ترقی پسند شعرو ادب کے سرخیلوں کا جائزہ نہ لیا ہوتا تو آج نہ جانے کیا
صورتِ حال ہوتی۔ کلیم الدین احمد نے پوری ترقی پسندی کو ایک ادبی توازن اور
اعتدال کے ساتھ کام کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ ترقی پسندی کی آندھی کو اگر کلیم
الدین احمد نے تنہا اپنی تنقیدوں سے رُخ موڑنے پر مجبور نہ کیا ہوتا تو آج
نہ جانے کتنی ادبی افرا تفری اب بھی قائم ہوتی۔
’اردو تنقید پر ایک نظر‘ کے جس ایک باب کی اپنے زمانے میں اور آج بھی بہت
شہرت رہی ہے، وہ آلِ احمد سرور سے متعلق باب ہے۔ بعد کی اشاعتوں میں ۱۶؍
صفحات کا مزید اضافہ کیا گیا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کلیم
الدین احمد سرور صاحب پر سب سے زیادہ تفصیل سے لکھ کر اُن کی اہمیت بھی
واضح کرنا چاہتے ہیں۔ کلیم الدین احمد نے سرور صاحب کے ’ابتدائیوں‘ سے
اقتباسات نقل کر کے اُنھیں کے الفاظ میں یہ بتا دینے کی کوشش کی ہے کہ آلِ
احمد سرور اپنے مضامین اور ریڈیائی تقاریر سے مطمئن نہیں۔ مفصّل کتاب نہیں
لکھنے کا بھی سرور صاحب کو دُکھ ہے۔ کلیم الدین احمد کو سرور صاحب کی اس
روِش سے سخت اختلاف ہے کہ وہ انگریزی اور اردو کے مصنفین کو اُن کا مرتبہ
دیکھے بغیر غیر ضروری طور پر اُن کا موازنہ یا ذکر کرتے ہیں۔ کلیم الدین
احمد نے یہ بتا نے کی کوشش کی ہے کہ سرور صاحب اس موازنے میں نہ اردو کے
اور نہ ہی انگریزی کے ادیبوں کے مقام کا خیال کرتے ہیں۔ اُنھوں نے ایلیٹ
اور ہڈسن کی مثال دے کر بتایا کہ دونوں کے تنقیدی مقام میں آسمان وزمین کا
فرق ہے لیکن سرور صاحب ایک ہی سانس میں دونوں کا نام لیتے چلتے ہیں۔
آلِ احمد سرور سے متعلق کلیم الدین احمد کی تنقید کا سب سے دِل چسپ پہلو وہ
گوشوارہ ہے جس میں اُنھوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سرور صاحب اپنی
تنقیدوں میں ’’ہاں اور نہیں‘‘ کا استعمال ایک ہی ساتھ کرتے ہیں۔ سرور صاحب
کے مضمون کے چند صفحات سے مثالیں چُن کر کلیم الدین احمد نے تین صفحات کا
ایک چارٹ ترتیب دے دیا ہے جہاں کسی مزید تجزیے کے بغیر ایک معمولی قاری بھی
آلِ احمد سرور کی تنقید کی بنیادی خامی کی طرف متوجہ ہو جا تا ہے۔ اس تجزیے
سے قبل سرور صاحب کی تنقید کے بارے میں عام طور پر خاصے اعلا خیالات موجود
تھے۔ وہ دور تھا جب آلِ احمد سرور کا طوطی بولتا تھا لیکن کلیم الدین احمد
کے اس تجزیے کا یہ اثر ہوا کہ سرور صاحب دیکھتے دیکھتے ہر ادبی بزم میں
نشانۂ نقد بننے لگے۔ آج اب یہ بات ایک بڑی سچائی ہے کہ سرور صاحب کی
تنقیدوں میں کچھ غیر فیصلہ کُن انداز اور کچھ انشاپردازی کے طفیل دونوں
ترازو کو برابر کرنے کا رجحان پیدا ہوا۔
کلیم الدین احمد نے آلِ احمد سرور کے اس اندازِ نقد کو بھی پسند نہیں کیا
جس میں شعر وادب کے ایک گہرے تجزیے کے بجاے سرسری جائزے کو کافی سمجھا
جائے۔ سرور صاحب کی تنقیدی بصیرت کا اقرار کرنے کے باوجود کلیم الدین احمد
یہ بآسانی ثابت کر دیتے ہیں کہ متن کا سنجیدہ اور گہرا مطالعہ سرور صاحب کی
پہلی پسند نہیں۔ ادب کے بنیادی سوالوں کو سرور صاحب جب چھیڑتے ہیں تو اُمید
یہ کی جانی چاہیے کہ وہ اِن امور سے پڑھنے والوں کے چودہ طبق روشن کردیں گے
لیکن آخرکار مایوسی ہاتھ لگتی ہے۔ سرور صاحب معمولی باتوں پر تفصیل سے اور
نہایت اہم اور پر اشاروں میں اپنی گفتگو ختم کر لیتے ہیں۔ کلیم الدین احمد
کی اس سخت تنقید کا سرور صاحب کی بعد کی تحریروں پر اثر بھی ہوا۔ اُن کی
مشہور انشا پردازی میں کمی آئی اور مفصّل مطالعات کی طرف بھی اُن کا جھکاو
بڑھا۔ خود آلِ احمد سرور نے کلیم الدین احمد کی تنقیدوں سے فیض حاصل کرنے
کی بات اپنی بعد کی تحریروں میں قبول کی۔ بعد میں سرور صاحب نے یک موضوعی
کتابوں کی طرف بھی توجّہ بڑھائی۔
’اردو تنقید پر ایک نظر‘ کے بعض ضمنی امور بھی ایسے ہیں جن کی اہمیت سے
انکار نہیں کیا جا سکتا۔تاثراتی تنقید کے تعلق سے محمد حسن عسکری اور فراق
گور کھ پوری کی تنقید نگاری، پیرویِ مغربی کے تحت عبدالرحمان بجنوری اور
محی الدین قادری زور اور شمس الرحمان فاروقی کی تنقیدوں پر بھی اس کتاب میں
روشنی ڈالی گئی ہے۔ اِن موضوعات پر لکھتے ہوئے کلیم الدین احمد نے اپنے
مخصوص اندازِ نظر کو سامنے رکھا ہے۔ وہ روایتی ناقدین جنھیں مغرب کی ذراسی
ہوا لگی ہے، اُن کی تحریروں کا جائزہ لیتے ہوئے کلیم الدین احمد نے ٹھیک
وہی رویّہ اپنایا ہے جیسا وہ حالی کے ساتھ کرتے ہیں۔کلیم الدین احمد کی
غایت یہ ہے کہ ناقدین میں پوری صلاحیت نہیں ہے تو کیوں مغرب کے چراغوں سے
غیر ضروری طور پر فیضان حاصل کرنے کے درپے ہیں۔ اُنھوں نے مثالوں سے دکھانے
کی کوشش کی ہے کہ کیسے یہ اصحاب مغربی اصولوں اور اصطلاحات کو یکسر نہیں
سمجھتے۔ اُن کی ایک صلاح یہ بھی ہے کہ اپنے روایتی انداز میں ہی اگر یہ
اصحاب چلتے تو زیادہ دور تک جا سکتے تھے۔
کلیم الدین احمد مغربی ناقدین اور دانش وروں کو غیرضروری طور پر اردو تنقید
میں پیش کیے جانے کے مخالف ہیں۔ سارے روایتی تنقید نگاروں سے وہ اس لیے بھی
نالاں ہیں کہ وہ مغرب کے اُن مصنّفین کا ذکر کردیتے ہیں جن کی ادبی اہمیت
کے بارے میں اُنھیں کچھ بھی پتا نہیں ہوتا۔ لیکن معاملہ جب جدید ناقدین کا
ہو، جنھیں مغربی نگار خانوں سے فیضان حاصل رہا ہے اور جو براہِ راست دنیا
جہان کے ادب سے واقفیت رکھتے ہیں، وہاں کلیم الدین احمد کا اندازِ نقد بدل
جاتا ہے۔ عبدالرحمان بجنوری، مجنوں گورکھ پوری، آلِ احمد سرور اور محمد حسن
عسکری کی ادبی خدمات پر بحث کرتے ہوئے مغرب کے ادیبوں اور شاعروں کی گفتگو
کو اس لیے لائقِ مذمّت تصوّر کرتے ہیں کیونکہ جن مغربی ادیبوں کا ذکر اِن
ناقدین نے کیا ہے، اُن میں سے اکثر غیر ضروری ہیں۔ موازنہ یا اثرات کے تعلق
سے کلیم الدین احمد ایک بنیادی سوال قائم کرتے ہیں کہ اردو اور مغرب کے
مصنّفین کا ذکر کرتے ہوئے کیا مقام و مرتبہ کا لحاظ نہیں رکھّا جانا چاہیے؟
وہ مثالیں دے کر مجنوں گورکھ پوری ، حسن عسکری، یاآلِ احمد سرور کی تحریروں
پر یہ طنز کرتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ مصنّفین اُن مغربی ادیبوں
کے مقام و مرتبہ سے پورے طور پر ناواقف ہیں۔
شمس الرحمان فاروقی کے تعلق سے جو باب کلیم الدین احمد نے اپنی کتاب میں
شامل کیا ہے، اُس میں سب سے پہلے جدیدیت کے اصولی نکات پر بحث کی گئی ہے۔
خاص طور پر وجودیت کی فطری بنیادوں کو کلیم الدین احمد نے پیش کرتے ہوئے
جدیدیت کے دائرۂ کار اور اُس کی حدود کا ذکر کردیا ہے۔ فاروقیؔ کے بارے میں
کلیم الدین احمد کا یہ کہنا ہے کہ اُنھوں نے ٹی۔ ایس۔ الیٹ، آئی۔ اے۔
رچرڈس، اوگڈن اور ایمپسن جیسے ناقدین سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ انھوں نے
اوگڈن کی کتاب ’’The Meaning of Meaning‘‘ اور ایمپسن کی مشہور کتاب
’’Seven Types of Ambiguity‘‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ
فاروقی صاحب انھیں کتابوں کے اندازِ نقد کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ ہوبہ ہو
نقل کرکے آگے بڑھ رہے ہیں۔ فاروقی کے تنقیدی طریقۂ کار پر آج سے دو دہائی
قبل کلیم الدین احمد نے جو اشارہ کیا، اسے آج سب لوگ مانتے ہیں۔ کلیم الدین
احمد نے جب فاروقی پر لکھا تھا اُس وقت وہ ممتاز میرؔ شناس نہیں ہوئے تھے
اور نہ ہی شعرِ شور انگیز کی کوئی جلد سامنے آئی تھی۔ لیکن میرؔ کے تعلق سے
فاروقی کے چند اشعار کے تجزیے کو بنیاد بناکر کلیم الدین احمد نے فاروقی کے
تشریحی طریقۂ کار پر اپنے تاثرات پیش کیے تھے۔ فاروقی کی شعر فہمی کے بعض
نامناسب زاویوں کو کلیم الدین احمد نے اسی زمانے میں اپنے مضمون میں واضح
کر دیا تھا۔ادب فہمی میں فاروقی تکنیکی نقطۂ نظر اپنا کر کس طرح شعر کے
بنیادی مفہوم سے بہت دور چلے جاتے ہیں، اس کا بھی کلیم الدین احمد نے اپنے
تجزیے میں بھرپور اشارہ کیا ہے۔ آج یہ بات بھی فاروقی کے تعلق سے عام طور
پر تسلیم کی جاتی ہے۔
کلیم الدین احمد کے ناقدین اُن پر مغرب پرستی کا کھُلا الزام عائد کرتے
ہیں۔ اُن کے پیشے (انگریزی ادب کی پروفیسری) اور اپنی کتابوں کے متن میں
بار بار مغربی شعرا اور ناقدین کے خیالات پیش کرنے کی وجہ سے اُن کے مغربی
فیضان حاصل کرنے میں کوئی کلام نہیں رہتا۔ اردو کی بعض روایتی اصناف پر جس
شدّت کے ساتھ انھوں نے اپنی باتیں رکھی ہیں، اُن سے بھی عام طور پر یہی
نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ کے علاوہ اردو کے
دوسرے شاعروں بالخصوص غالب، اقبال اور انیس کا جائزہ لیتے ہوئے وہ بار بار
کہتے ہیں کہ اِن شعرا کا عالمی ادب میں کوئی مقام نہیں۔ اسی بات سے بعض
اصحاب یہ نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ کلیم الدین احمد مشرقی ادب کو مغرب کے
مقابلے میں بالکل ہیچ اور معمولی گردانتے ہیں۔ اردو کے اہلِ قلم یہ جانتے
ہیں کہ کلیم الدین احمد انگریزی کے معروف نقّاد ایف۔آر۔لیوس کے شاگرد رہے
ہیں اور اُنھی کی نگرانی میں کیمبرج یونی ورسٹی میں ٹرائی پوس کیا تھا۔ اس
سے بھی ایک نزاکت یہ پیدا ہوئی ہے کہ کلیم الدین احمد کو مغرب کی جتنی بھی
تربیت ہو، مشرقی ادب کا کوئی باضابطہ سلسلہ اُن کے ہاں نہیں تھا۔
ہمارے لیے یہ سادگیِ نظر ہوگئی ہے کہ کلیم الدین احمد کو مغرب کے ادبی
ایوانوں میں قید ایک ادبی مجرم کی طرح سمجھتے ہیں۔ اُن کی انگریزی دانی
اپنی جگہ ہے لیکن یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ اردو زبان کے وہ رمز شناس نہیں۔
اور انھی مشرقی علوم کی کوئی تربیت ہی حاصل نہیں ہوئی۔ کلیم الدین احمد کے
والد عربی کے پروفیسر اور اُردو کے ایک تجربہ پسند شاعر تھے۔ اپنی خود نوشت
’’اپنی تلاش میں‘‘ کے صفحات پر کلیم الدین احمد نے وضاحت کی ہے کہ یونی
ورسٹی کی سطح پر اُنھوں نے عربی اور فارسی بھی پڑھی تھی۔ اگر وہ مشرقی ادب
کے جاننے والے نہیں ہوتے تو ’اردو زبان اور فنِ داستان گوئی‘‘ ، ’’دیوانِ
جہاں‘‘، ’’دوتذکرے‘‘ اور ’’گلزارِ ابراہیم‘‘ جیسی کتابیں آخر کیوں کر ترتیب
دی جاتیں۔’ اردو تنقید پر ایک نظر‘ کے علاوہ ’’شاعروں کی نوک جھونک‘‘ مضمون
میں وہ کیسے اردو کے قدیم تذکروں کا اس قدر شرح و بسط کے ساتھ جائزہ لیتے۔
’اردو شاعری پر ایک نظر‘ کی پہلی جلد کا بہ غور مطالعہ کریں تو اندازہ ہوگا
کہ کلیم الدین احمد اردو زبان کی روایتی خوبیوں کا کتنی باریکی سے ذکر کرتے
ہیں۔ پوری عاشقانہ شاعری کی تمام تر نزاکتوں کا کلیم الدین احمد نے جس طرح
اپنی تنقیدی گفتگو کے مرحلے میں استعمال کیا ہے، اُس کے بعد یہ سوچنا کفر
ہے کہ وہ اُردو کے روایتی ادبی سرماے کے واقف کار نہیں اور اُنھیں اردو کی
کوئی بنیادی تربیت حاصل نہیں ہوئی۔
کلیم الدین احمد کی شخصیت پر مغرب پرستی کا الزام اصل میں اردو کے بعض
نقّادوں کا ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ کلیم الدین احمد کے ساتھ بھی ہے
اور اُن کے ناقدین کے ساتھ بھی۔ یہ صحیح ہے کہ کلیم الدین احمد اپنے جائزے
میں انصاف کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اپنی بات پوری بے باکی کے
ساتھ رکھتے ہیں۔ اس مرحلے میں وہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچتے کہ اُن
کا ناقدانہ فیصلہ کہیں اُس زبان کے ایوانِ تنقید کو منہدم نہ کردے۔ غزل اور
تنقید کے بارے میں اُن کے تیکھے جملے زلزلہ ثابت ہوئے۔ اُسی طرح غالبؔ،
میرؔ، اقبالؔ اور انیسؔ کے بارے میں اُن کے چبھتے ہوئے جملے سخت گیری کا
نقطۂ عروج قرار دیے گئے۔ اُن کے ناقدین نے یہاں ایک بہانہ ڈھونڈ لیا کہ وہ
اردو کے روایتی ادبی سرمایے کو مغربی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے اردو کے
ادیب، شاعر اور اُن کی نگارشات اُنھیں معمولی لگتی ہیں۔اس تاویل میں یہ
سادگیِ نظر بھی شامل ہے کہ اگر مغربی عینک کی جگہ مشرقی عینک کا استعمال
ہوجائے تو یہ مصنّفین یا اصناف لائقِ اعتنا قرار پاتیں۔ کلیم الدین احمد کی
تنقید کی تفصیلات جانے بغیر ہی ایسی توجیہات پیش کی جاسکتی ہیں۔ اُنھوں نے
جس تفصیل سے بحث کرنے کے بعد اپنے نتائج اخذ کیے، اُس کے بعد ’مغربی ‘‘ اور
’’مشرقی‘‘ پیمانوں کی بنیاد بناکر اُنھیں قبول یا ردکرنا ’’کارِ طفلاں‘‘ سے
زیادہ کچھ نہیں۔ جس شخص کے نظامِ تنقید کی اصولی اور عملی بنیادیں ہوں،
اُسے اتنی آسانی سے ردکرنے کی بھول کرنا ہماری عمومی جذباتیت کے علاوہ کچھ
بھی نہیں۔ انصاف کی بات یہی ہے کہ کلیم الدین احمد مشرق اور مغرب دونوں
زبانوں کے ادب سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر اُن کا اپنی تنقید کے
دوران بھرپور استعمال بھی کرتے ہیں۔ نہ وہ مغرب سے مرعوب ہیں اور نہ مشرق
کے احسان مند۔ تنقیدنگار کا جو بنیادی فرض ہے، وہ اُسی پر کاربند رہتے ہیں
اور ایک قدرِ شناس کی حیثیت سے شعر وادب کا انصاف پسندانہ اور بے باکانہ
تجزیہ اُن کا بنیادی مقصد ہے۔ انھی وجوہات سے اُنھیں اُردو کا بڑا ناقد
تصور کیا جا تا ہے۔
کلیم الدین احمد کی تنقید کی اگر بنیادی خوبیوں پر غور کریں تو اس میں سے
پہلی اُن کی بے باکی ہے۔’ اُردو تنقید پر ایک نظر‘ کے حوالے سے اگر اس کا
تجزیہ کرنا مقصود ہو تو الطاف حسین حالی، آلِ احمد سرور اور احتشام حسین کی
تنقیدوں پر اُن کی رائے جان لینا کافی ہے۔ اس سے الگ اُن کی مشہور کتاب’
’اُردو شاعری پر ایک نظر‘‘، ’’اقبال ایک مطالعہ‘‘ اور’’میر انیس‘‘ کے
مشتملات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ کلیم الدین احمد اپنی کسی بات کو کہنے
کے لیے بالکل آزاد ہیں۔ ایک ناقد کی حیثیت سے یہ آزادی پورے طور پر شاید ہی
کسی دوسرے لکھنے والے نے آزمائی ہو۔ اس بے باکی کی سرحدمیں روایت اور دیگر
مسلّمات کے خلاف بھی خود کو کھڑا کرنا شامل ہے۔
کلیم الدین احمد کا اندازِ تنقید مرحلہ وار مطالعے کی بہترین مثال ہے۔ وہ
کبھی آسمان کی اور کبھی زمین کی کہنے کے عادی نہیں۔ اُنھوں نے اکثر یک
موضوعی کتابیں لکھیں جن کے مختلف ابواب موضوع کے سلسلے وار ارتقا کی تفصیل
بیان کرتے ہیں۔ کلیم الدین احمد چاہتے تو آلِ احمد سرور یا احتشام حسین کی
طرح سینکڑوں کی تعداد میں مختصر مضامین لکھ دیتے اور اُنھیں جِلد در جِلد
شائع کراتے رہتے۔ اصل میں کلیم الدین احمد کے ذہن میں موضوع کا ایک ایسا
تفصیلی خاکا ہوتا تھا جن کے الگ الگ اجزا میں رنگ بھرتے ہی وہ مکمل کتاب ہو
جاتی تھی۔ اس لیے ’’سخن ہاے گفتنی‘‘ کو چھوڑ کر اُن کے یہاں کوئی مجموعۂ
مضامین نہیں۔ جو کتاب مختصر ہے، اس میں بھی موضوعاتی تکمیلیت کا احساس ہوتا
ہے۔ اس سے پڑھنے والوں کے لیے مصنّف کے مزاج اور نقطۂ نظر کو سمجھنا آسان
ہوجاتا ہے۔
کلیم الدین احمد کی تنقید کی ایک بنیادی خوبی یہ ہے کہ وہ شعرو ادب کو
اولاً اصولیات کے ضمن میں رکھ کر دیکھنے کے عادی ہیں۔ وہ تنقید نگاروں سے
بار بار یہ جاننا چاہتے ہیں کہ تنقیدِ شعر کے اپنے پیمانے وہ پہلے واضح
کریں۔ ایسا نہیں کہ آدمی بدلنے کے ساتھ ہی وہ پیمانے بدل جائیں۔ ترقی پسند
ناقدین میں وہ اس خامی کو سب سے زیادہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اصولی
بنیادوں پر جب تک کوئی لکھنے والا کھڑا نہیں ہوجاتا، وہ عملی تنقید کے شعبے
میں قدم نہیں رکھتے ہیں۔ اس کا اُنھیں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ کسی شاعر یا
تنقید نگار کا جائزہ وہ مکمل طور پر لے سکتے ہیں۔ ’اردو تنقید پر ایک نظر‘
میں حالی سے متعلق تنقید کا حصّہ نہایت ہی مختصر ہے۔ لیکن کیا کوئی یہ کہہ
سکتا ہے کہ جن بنیادی باتوں کو کلیم الدین احمد نے ان چند صفحات میں دکھایا
ہے، وہ فروعی ہیں۔ ترقی پسند تحریک اور ناقدین کے ساتھ جو سفّا کا نہ سلوک
کلیم الدین احمد نے اس کتاب میں روا رکھّا ہے، وہ اس وجہ سے غیر انصاف
پسندانہ نہیں مانا جاسکتا کیوں کہ سب سے پہلے اور قدرے تفصیل کے ساتھ کلیم
الدین احمد نے ترقی پسندی کے اصول اور مبادیات، اغراض ومقاصد اور شعر وادب
میں ان کا اطلاق، مشہور مارکسی مفکرین کے خیالات یہاں تک کہ مارکس اور لینن
کے نظریوں کو بھی اُنھوں نے اپنے جائزے کا حصّہ بنالیا ہے۔ اس سے اُنھیں یہ
سہولت حاصل ہو جاتی ہے کہ عملی تنقید کی کسوٹی پر کسنے کے لیے قابلِ نفاذ
اور ضروری نکات اُن کی دسترس میں ہوتے ہیں۔ شمس الرحمان فاروقی پر گفتگو
کرتے ہوئے اُنھوں نے جدیدیت کے فلسفیانہ اور دانش ورانہ سرچشموں کا بھی
تنقیدی محاکمہ کرلیا۔
اصولیات سے گہرے تعلق کی وجہ سے یہ سمجھ لینا کہ کلیم الدین احمد ادب کے
اطلاقی معاملوں سے سرسری گزرجاتے ہیں، صحیح نہیں۔ اپنے معاصرین بالخصوص آلِ
احمد سروراور احتشام حسین کے مقابلے کلیم الدین احمد کی ادبی فضیلت کا ایک
بنیادی پتھّر اُن کی عملی تنقید ہے۔ احتشام صاحب یا سرور صاحب دونوں جہاں
اصولی گفتگو کرتے ہیں، وہاں عملی تنقید سے سرسری گزر جانے میں اُنھیں
دشواری نہیں ہوتی۔ کہیں عملی تنقید کا نمونہ ہے تو وہاں اصولوں پر بہ تفصیل
گفتگو نہیں۔ اس کے برعکس کلیم الدین احمد اردو کے ایسے تنہا ناقد ہیں جن کے
ہاں اصول اور عمل دونوں کا بہترین امتزاج ہے۔ ’اُردو تنقید پر ایک نظر‘ کی
مثال کو سامنے رکھیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ کس طرح اپنے موضوعات سے
نبرد آزما ہوتے ہیں۔ تذکرے ہوں یا حالیؔ، شبلیؔ کی تحریریں، ترقی پسند
نظریات ہوں یا اُن کے تعلق سے لکھے گئے مضامین، کلیم الدین احمد نے ہرجگہ
اصل تخلیق کے متعلّقہ اقتباسات کی پیش کش میں بخل سے کام نہیں لیا ہے۔ جہاں
ضروری ہوا، وہاں انگریزی اور دوسری یوروپی زبانوں کے صحیفوں کے اقتباسات
اور اُن کے ترجمے دینے سے بھی وہ گریز نہیں کرتے ہیں۔ ایک آلِ احمد سرور کی
تنقید نگاری پر کلیم الدین احمد نے چھوٹے بڑے سو ۱۰۰ سے زیادہ اقتباسات صرف
کیے ہیں۔یہ طریقہ تخلیق کار کو دورانِ تنقید اپنے دفاع کے لیے موقع فراہم
کرنا بھی ہے۔ کلیم الدین احمد نے جن لوگوں پر بھی لکھا، اُن کی تصانیف کے
نمایندہ حصّے کو مثال بنایا اور پوری ایمانداری سے یہ کوشش کی کہ اُنھیں
اقتباسات کے تجزیے سے جو تنقیدی نقطۂ نظر طے ہونا ہو، وہ ہوجائے۔ اسی لیے
کلیم الدین احمد کی تنقید ہمیں بر انگیختہ تو ضرور کرتی ہے لیکن ٹھنڈے دل
سے جب اُن مشتملات پر غور کیا جاتا ہے تو نتیجہ کلیم الدین احمد کی قدر
شناسی کے حق میں جاتا ہے۔
کلیم الدین احمد نے اپنی کتابوں کو ہر نئی اشاعت کو up-to-date کرنے کی
کوشش کی۔ یہ غور کرنے کا مقام ہے کہ پہلی بار ’اردو تنقید پر ایک نظر‘ شائع
ہوئی، اُس وقت شمس الرحمان فاروقی کی عمر محض ۶؍ برس تھی۔ لیکن ۱۹۸۳ء میں
کلیم الدین احمد نے جب آخری بار اس کتاب کو اشاعت کے لیے بھیجاتو شمس
الرحمان فاروقی پر ۴۱؍ صفحات کا تنقیدی جائزہ شامل تھا۔ سرورؔ صاحب پر بھی
بعد کی اشاعتوں میں مزید ۱۵؍ صفحات کا اضافہ ہوا۔ ترمیم و اضافے کی سب سے
مناسب مثال اُردو شاعری پر ایک نظر ہے جو اپنی اوّلین اشاعت میں ایک جِلد
تھی لیکن آخر آخر تک اُس کی دو جِلد یں ہوگئیں اور صفحات کا موازنہ کریں تو
کتاب تقریباً ڈھائی گنی بن گئی۔ ایک بڑے ناقد کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وقت کے
بدلنے کے ساتھ جو تبدیلیاں آ رہی ہیں، اُنھیں آپ اپنی تحریروں میں پھر سے
پرکھیں۔ یہ بھی فرض ہے کہ آپ نے جس پر لکھا، کیا اُس کے یہاں کوئی تبدیلی
ہوئی ۔ بعد کی تحریروں میں اگر کوئی قابلِ ذکر بات ہے تو اُسے بھی اپنی
تنقید میں شامل کیا جانا چاہیے۔ کلیم الدین احمد نے یہ کام بہت مستعدی سے
کیا۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے اپنی تمام تنقیدوں اور اُن پر لوگوں کی رایوں
کو بنیاد بنا کر اپنی طرف سے آخری ردّ عمل کے طور پر ’’میری تنقید : ایک
بازدید‘‘ میں جائزہ لیا۔ انھوں نے اپنی خودنوشت ’اپنی تلاش میں‘ کو تین
جلدوں میں مکمّل کیا۔ اس کے صفحات پر اپنی تنقید، دوسروں کے تاثرات اور پھر
اپنا دفاع جیسے موضوعات تفصیل سے حل ہو گئے ہیں۔
کلیم الدین احمد نے تنقید کی ایک بہترین زبان ایجاد کی۔ حالی پر گفتگو کرتے
ہوئے کلیم الدین احمد نے اُن کی سب سے بڑی خوبی حالی کی زبان کو مانا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ مقدمۂ شعروشاعری اگر تاریخی اعتبار سے زندہ رہے گی تو وہ
اسی زبان کی بدولت رہے گی۔ جب کلیم الدین احمد کی تنقیدی زبان پر ہم غور
کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حالیؔ کے یہاں غیر ضروری طور پر انگریزی
کے الفاظ موجود ہوتے تھے۔ کلیم الدین احمد نے اپنی انگریزی دانی کے باوجود
اسے اپنے اردو متن کا حصّہ نہیں بنایا۔ حالیؔ طویل جملے لکھتے تھے، کلیم
الدین احمد نے مختصر جملوں کا رواج ڈالا۔ حالیؔ کے ہاں عربی اور فارسی کے
مشکل الفاظ فطری طور پر چلے آتے تھے۔ جس سے اردو کے اصل مزاج کو دھکّا لگتا
تھا۔ کلیم الدین احمد نے بول چال کی عام زبان میں تنقید کے سارے عالمانہ
اور تکنیکی مباحث کو انجام دینے کی ایک ناقابلِ یقین کوشش کی۔ اس کوشش میں
اُن کی کامیابی ایک ایسا سنگِ میل ہے جسے اب تک کوئی تنقید نگار پار نہیں
کر سکا ہے۔ آج عام طور پر اہم تنقید لکھنے والوں کی زبان ٹھیک ویسی ہی ہے
جیسی کلیم الدین احمد نے اپنی کتابوں میں استعمال کی۔ شمس الرحمان فاروقی
کی زبان کا بنیادی ڈھانچا اور تجزیے کا اصل ہنر کلیم الدین احمد کے فیضان
کا ہی نتیجہ ہے۔
کلیم الدین احمد اردو کے ایوانِ نقد میں جب داخل ہوئے، اُس وقت جو ایک
زلزلہ پیدا ہوا وہ شاید کبھی ختم نہیں ہوا۔ ابتدائی پانچ برسوں میں انھوں
نے اُردو شاعری پر ایک نظر، اردو تنقید پر ایک نظر اور اردو زبان اور فنِّ
داستان گوئی لکھ لی تھی ان تمام کاموں کے انجام تک پہنچنے کے باوجود اُن کی
عمر محض ۳۵؍ سال تھی۔ یہ واقعتاً تعجب کی بات ہے کہ ایک ۳۵؍ سال کے نوجوان
کی کتابوں پر پوری اُردو آبادی بحث و تمحیص میں لگی ہوتی ہے اور اُس کے
سوالوں کے معقول جواب سامنے نہیں آرہے ہیں۔ایک طرح سے دیکھیں تو ایک نوجوان
مصنف کی حیثیت سے یہ کلیم الدین احمد کی خوش قسمتی تھی کیونکہ اردو کے ادبی
منچ کے مرکز میں اُن کا وجود ہر اعتبار سے تسلیم شدہ تھا۔ اگر ہزار لوگ اُن
کی مخالفت کرنے والے تھے تو ہزار اُن کی باتوں سے اتفاق بھی کرتے تھے۔ آج
کلیم الدین احمد کی موت کے ۳۰؍ برس پورے ہونے کو آئے لیکن اُن کے ناقدانہ
سوالوں پر آج بھی اُسی سرگرمی سے کبھی گرم اور کبھی نرم گفتگو ہوتی رہی ہے۔
آج کا لکھنے والا بھی چاہتا ہے کہ کلیم الدین احمد نے غزل کے بارے میں جو
کچھ کہا، کم از کم اُس کا وہ جواب دے سکے۔ اسی طرح اور دوسرے سیکڑوں امور
ہیں جن پر کلیم الدین احمد اور اردو کے قارئین کے بیچ گھماسان مچا رہتا ہے۔
ایک ناقد کی حیثیت سے اپنی جگہ کوزندہ جاوید بنانے کا کارنامہ حالیؔ کے بعد
شاید صرف کلیم الدین احمد کے حصّے میں آیا۔ حالیؔ کی ایک مختصر سی کتاب
اپنی لاکھ خوبیوں کے باوجود اردو تنقید کا ایسا سرمایہ نہیں جس پر اکتفا کر
لیا جا سکے۔ ہمیں کلیم الدین احمد کی شخصیت میں ایک ایسا بڑا ناقد دکھائی
دیتا ہے جس کی باتوں پر ہم بھروسہ کر سکتے ہیں اور جس کی خدمات کو عظمت اور
مثال کے مینار کے طور پر قبول کر سکتے ہیں۔ |
|