دس برس بیت گئے۔ امریکا کا غصہ ختم نہیں
ہوا۔جانے وہ اس سانحے کا بدلہ لینے کے لیے اور کتنا خون بہائے گا۔’’ امن کے
لیے ‘‘ لاکھوں انسان آگ و بارود میں ڈال کر بھی اس کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔
گیارہ ستمبر 2001ء سے آج تک ایسے عالم سکتے میں ہے۔
انسانی خدائی کا دعویدار امریکا زخمی ریچھ کی طرح دھاڑ رہا ہے ۔ جدھر رخ
کرتا ہے دہشت و ہیبت پھیلاتا جارہا ہے ۔ ایسے میں ایک دنیا خوف زدہ ہے۔
چہروں پر سوال ہیں ‘کیا ہوگا کیا ہونے والا ہے ؟ کسی کو اس بات کی خبر نہیں
۔اس کے پیمانے اپنے ہیں ۔ ظلم اور جبر کے اس ماحول میں لا تعداد دانش مند
امریکی سمجھتے ہیں کہ ان کے حکمران دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں صرف
جھوٹ کا سہارا لیے ہوئے ہیں ‘محض امریکی مفادات کی خاطر دنیا کا سکون برباد
کر دیا گیا ہے۔امریکا نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا جب امریکا کو خفت کا
سامنا کرناپڑا تھا۔ وہ جانتے ہیں کہ امریکا بد مستی میں اقوام کو کچل رہا
ہے وہ اقوام جو اس سے بہت کمزور اور پسماندہ ہیں ۔ امریکا اور اس کے حواری
اپنے سے برابر والے یا اپنے سے طاقت ور سے کیوں ٹکر نہیں لیتے ۔ انہیں دنیا
میں صرف کمزور ممالک ہی تر نوالہ کیوں نظر آتے ہیں ۔ نائن الیون کی دسویں
برسی پر تین امریکی لطیفے یاد آئے ۔
دو امریکی شکاری گینڈے کا شکار کرنے جنوبی افریقہ گئے ۔ شکار کے لیے انہوں
نے چھوٹا جہاز کرائے پر لیا اور جنگل کی طرف روانہ ہو گئے ۔ بہت جدوجہد کے
بعد انہوں نے دو گینڈے شکار کیے اور جہاز پر لادنے لگے ۔ پائلٹ نے احتجاج
کیا اور کہا کہ تم نے تو ایک گینڈا لادنے کو کہا تھا۔ دو گینڈوں کا وزن
جہاز نہیں اٹھا سکے گا ۔ امریکن شکاریوں نے پائلٹ کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا
’’ تم فکر نہ کرو ابھی پچھلے برس ہم نے ایسا ہی ایک جہاز کرائے پر لیا تھا
اور اس میں دو گینڈے لائے تھے۔ اس پائلٹ نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔‘‘
پائلٹ بادل نخواستہ راضی ہو گیا ‘ لیکن چھوٹا سا جہاز دو گینڈوں اور تین
امریکیوں کا بوجھ نہ برداشت کر سکا اور چند لمحوں بعد زمین پر گر کر پاش
پاش ہوگیا‘تینوں سوار بے ہوش ہو گئے۔ تھوڑی دیر بعد ایک امریکی کو ہوش آیا
تو اس نے سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا اور اپنے ساتھی سے بولا:
’’ ہیری ! تمہیں یاد ہے پچھلے سال بھی ہم یہیں گرے تھے کیا عجیب اتفاق ہے
۔‘‘
اب دوسرا لطیفہ ملاحظہ فرمائیے۔
ایک شیر جنگل میں ٹہل رہا تھا کہ اسے ایک بندر ملا ۔ اس نے بندر کی گردن
دبوچی اوردھاڑ کر بولا ۔
’’بتاؤ! اس جنگل کا راجا کون ہے ؟‘‘
غریب بندر کانپتے ہوئے بولا ۔’’ حضور آپ۔‘‘
شیر نے اسے چھوڑ دیا ۔ ایک ہرن سامنے سے گزرا۔ شیر نے اس پر چھلانگ لگائی
اور اس کی گردن مروڑ کر پوچھا ’’ بولو اس جنگل کا راجا کون ہے؟‘‘
ہر گھگھیایا اور بولا ’’ حضور ! آپ راجا ہیں میں کیسے ہو سکتا ہوں۔‘‘
شیر نے اسے معاف کر دیا ۔ تھوڑی دور آگے گیا تو ایک بد مست ہاتھی سے پالا
پڑ گیا۔ شیر نے اس کی سونڈ پکڑی اور چیخ کر پوچھا۔’’ بولو! اس جنگل کا
بادشاہ کون ؟‘‘
ہاتھی نے شیر کو سونڈ میں جکڑ کر سر کے اوپر گھمایا اور پھر زور سے زمین پر
پٹخ دیااور چیخ کر بولا ’’یہاں کا راجا میں ہوں ۔‘‘
شیر ہڈیاں سہلاتا ہوا اٹھا اور بولا ۔’’ بھائی ! ناراض ہونے کی کیا ضرورت
تھی ؟ اگر آپ کو میرے سوال کا جواب نہیں آتا تو خاموش رہتے ۔خواہ مخواہ
ماحول خراب کرنے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘
اب تیسرا لطیفہ ۔
سیما نیڈس یونان کا ایک مشہور فلسفی شاعر تھا۔ ایک دن ایک پہلوان اس سے
اپنی بہادری کی تعریفیں کرنے لگا ۔ سیما نیڈس اس کی ان شوخیوں اور بڑھکوں
سے تنگ آ گیا تو اس نے یونانی پہلوان سے پوچھا۔
’’ تم اپنے سے طاقت ور کو پچھاڑتے ہویا برابر والے کو یا اپنے سے کمزور کو
؟‘‘
پہلوان نے سینہ تان کر جواب دیا۔’’ اپنے سے طاقت ور کو ۔‘‘
سیما نیڈس نے کہا ’’ یہ غلط ہے کیوں کہ تم جسے پچھاڑ لو وہ طاقت ور نہیں ہو
سکتا۔‘‘
پہلوان نے شرمندگی سے کہا۔’’ اپنے سے برابر والے کو ۔‘‘
’’ یہ بھی غلط ہے۔‘‘ سیمانیڈس بولا ۔
’’ اگر کشتی لڑنے والا تمہارے برابر کا ہو تو تم اسے کبھی نہیں پچھاڑ
سکتے۔تم دونوں برابر ہو جاؤ گے۔‘‘
پہلوان نے مجبور ہو کر کہا۔’’ میں اپنے سے کمزور کوپچھاڑتا ہوں ۔‘‘
سیما نیڈس زور سے ہنسا اور بولا ’’ یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے میرے دوست
اپنے سے کمزور کو تو ہر شخص پچھاڑ لیتا ہے۔‘‘
حیرت ہے امریکی یہ تین لطیفے پڑھتے اور دوسروں کو سناتے ہیں ‘ لیکن انہیں
خود ان کا مطلب سمجھ کیوں نہیں آتا۔ یادش بخیر! کالج کے زمانے میں ہمارے
ایک دوست تھے ‘ ہم سب ان کو غیر حاضر دماغی کی وجہ سے ’’ سردار ترنٹ سنگھ‘‘
کہتے تھے۔ ایک بارانہوں نے اس نام کی وجہ پوچھی تو ہم نے کہا حضور ! آپ کو
بالعموم بات اور بالخصوص لطیفہ دیر سے سمجھ میں آتا ہے ۔ انہوں نے اس کی
تردید کرتے ہوئے اصرار کیا کہ ہم انہیں کوئی لطیفہ سنائیں۔ تب ہم نے انہیں
ایک لطیفہ سنایا۔
ایک آدمی کسی دوست کو خط لکھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ دوسرا آدمی بیٹھا خط
پڑھتا جا رہا تھا۔ خط لکھنے والا اس حرکت سے بہت تنگ آ گیا تو اس نے دوست
کو خط میں لکھا کہ میں تمہیں خاص بات لکھنا چاہتا تھا ‘ لیکن ایک کمینہ
آدمی اس وقت میرے ساتھ بیٹھا ہوا خط پڑھ رہاہے۔ اس کے اس فقرے پر ساتھ
بیٹھا ہوا آدمی چیخ کر بولا ’’ بکواس کرتے ہو میں خط کب پڑھ رہاہوں۔‘‘
اس لطیفے پر بہت سارے لوگ ہنس پڑے لیکن سردار ترنٹ سنگھ کو کچھ سمجھ نہیں
آیا۔ وہ بغیر ہنسے وہاں سے اٹھ گئے۔ تین چار روز بعد جب وہ ہاسٹل کے لان
میں سرعام غسل کر رہے تھے‘ ہم قریب سے گزرے تو کھکھلا کر ہنس دیے ۔ کہنے
لگے قمر بھائی !آج لطیفہ سمجھ آ گیا ۔ ہم نے پوچھا فرمائیے کیا سمجھے ؟
بولے وہ جو ساتھ آدمی بیٹھا ہوا تھا وہ کسی خفیہ ادارے کا لگتا ہے …… کوئی
مخبر ہواہوگا جی ! اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔\ |