رات بارش کے بعد موسم میں ہلکی سی خنکی باقی تھی۔ مٹی کی
سوندھی مہک اپنی زندگی کا پتہ دے رہی تھی۔ کبھی سڑک سے گزرتی کوئی گاڑی اس
پرسکون ماحول میں چند لمحوں کیلئے ارتعاش سا پیدا کر دیتی۔ وہ اپنی کھڑکی
سے لگی ایک ٹک آسمان کو تکے جا رہی تھی۔ یہ کیا راز تھا؟ اس رات میں آخر
کیا بات تھی؟ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
اب سے کچھ دیر پہلے اپنے نرم گرم بستر پر خواب شریں سے لطف لیتی روشانے کو
کسی دلفریب سیٹی نے جگایا تھا۔ رات کے ساڑھے تین بجے جب در و دیوار بھی
جاگنے سے انکار دیتے ہیں؛ ایسے میں وہ دلنشیں سیٹی نجانے تھی۔ وہ تو بس اک
آواز تھی، خواب خرگوش سے جگانے والی۔ اب اگر وہ بیدار تھی تو رات کے فسوں
میں گرفتار تھی۔ اس رات میں بس وہ تھی اور وہ سمیع و بصیر۔ وہ ہر بات ان سے
کرتی جاتی اور وہ ہر بات غور سے سنتے اور اسے تسلی دیتے جاتے۔ نہ جانے اتنی
باتوں میں کتنا وقت بیتا اسے کچھ خبر نہ ہوئی۔ دور کہیں سے ایک طلسم کشا کی
صدا نے اسکا سحر توڑا۔ اللہ اکبر ۔۔ اللہ اکبر ۔۔ روشانے خاموش آنسوؤں کو
پونچھتے ہوئی وضو کے لیے جاتی ہے۔ کیونکہ ابھی اسے اپنے بادشاہ کی سلطنت
میں اپنے نیند سے بیدار کیئے جانے پر، سجدہ شکر بھی تو کرنا تھا۔۔۔ |