پاکستان کرونیکل نوجوان نسل کے لئے ایک تحفہ

عقیل عباس جعفری چپکے چپکے کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے۔ اور پھر جب اس کی کوئی نئی کاوش سامنے آتی ہے تو سب کو پتہ چل جاتا ہے کہ عقیل عباس جعفری کس پروجیکٹ پر کام کررہا تھا۔ عقیل عباس کی نئی تحقیقی کتاب ’پاکستان کرونیکل‘ ایک ایسی تحقیقی کاوش ہے جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ انہوں نے اپنے محدود وسائل میں ایک بڑا تحقیقی کام کیا ہے۔ وہ مستقل مزاجی اور لگن سے کام کرتے ہیں۔ اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں۔ تحقیق و تحریر میں مبتلا رہنے والوں کو بھی یہ بات ایک مرتبہ چونکا دے گی کہ کسی نے تن تنہا پاکستان کی 70 برسوں کی سیاسی، ثقافتی، سماجی اور معاشی تاریخ کو ایک دستاویزی صورت دی ہے۔ تقریباً گیارہ سو صفحات پر مشتمل بڑے سائز کی اس کتاب کو اس قدر دقتِ نظری کے ساتھ مرتب کیا گیا ہے کہ گمان گزرتا ہے کہ شاید کسی بڑے حکومتی ادارے نے، بڑی ٹیم کے ساتھ، ایک معرکہ سرانجام دیا ہے۔ اس کتاب کے شروع میں پیرس کی مشہور شاہراہ شانزے لیزے کا 1901ء کا ایک منظر ہے۔ بلیک اینڈ وائٹ فوٹو گرافی کی اس شاہکار تصویر میں پورے یورپی معاشرے کو اپنی تمام تر تفاصیل کے ساتھ محفوظ کیا گیا تھا۔ کتاب کے اختتام پر 1990ء کے شانزلے لیزے کی تصویر ہے۔ ان دو تصویروں کے درمیان ایک ہمہ گیر انقلاب کی داستان رقم ہے جو خصوصاً ادارت کا ایک کارنامہ ہے۔ چند طویل مضامین کے علاوہ، جو عموماً سگمنڈ فرائیڈ، آئن سٹائن جیسے لوگوں پر لکھے گئے، بیشتر مواد بہت مہارت سے کم از کم الفاظ میں لکھا گیا اور اسے نادر و نایاب تصاویر سے مزین کیا گیا۔ مہاتما گاندھی اور قائد اعظم محمد علی جناح پر بھی مضامین تحریر کیے گئے۔ ہندوستان کی آزادی، فسادات جیسے واقعات بھی اس میں شامل ہوئے اور سوویت روس کے خلاف جہاد افغانستان میں پاکستان کے فرنٹ لائن سٹیٹ کے کردار پر بھی بات ہوئی۔ انتہائی دیدہ زیب کاغذ پر چھاپی گئی اس کتاب کے تمام صفحات رنگین ہیں۔ رنگوں نے اور رنگوں کے امتزاج نے مدیروں اور ناشروں کی بہت مدد بھی کی۔

عقیل عباس جعفری کا کہنا ہے کہ علم دشمن معاشرے میں علم دوستی کا مہنگا اور خطرناک شوق پالنے والوں کو اپنے ذاتی تجربوں کی روشنی میں فوراً سمجھ آ جاتی ہے کہ جن مراحل کو اجمالاً بیان کر دیا گیا ہے، جن رویوں کا اشارتاً ذکر کیا گیا ہے، وہ کس قدر جان لیوا ہوں گے۔ پاکستان میں ایک محقق کی لگن، عزت نفس اور قوت ارادی کو بہت کڑے امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ عقیل عباس جعفری نے 1990ء میں پاکستان ٹیلی ویژن کی معلوماتی سیریز ”سات دن“ سے اپنے تحقیقی سفر کا آغاز کیا تھا۔ موجودہ کتاب کی ایک اہم خصوصیت نادر تصاویر ہیں۔ عطیہ فیضی کی تصویر اور ان کی والدہ امیر النساء کے چہرے سے کم ہی لوگ آشنا تھے ۔ اس کتاب میں پاکستان کی اردو، پنجابی، گجراتی اور سرائیکی فلموں کے نادر اشتہارات شائع کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ تصاویر بھی شائع کی گئی ہیں جو ہماری اجتماعی سیاسی یادداشت کا حصہ ہیں۔

اس قدر ضخیم کتاب پڑھتے ہوئے اگر بوجھل پن کا احساس نہیں ہوتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے کسی نوعیت کی ذاتی رائے زنی اور تعصب سے الگ رکھا گیا ہے۔ چونکہ جعفری صاحب بنیادی طور پر ایک شاعر ہیں لہٰذا یہ غالب طور پر پاکستان کی ثقافتی، علمی، ادبی تاریخ بن گئی ہے۔ سیاسی زندگی کے تمام تر اہم اور کم اہم واقعات بیان کرنے کے باوجود اس کا ثقافتی پہلو غالب رکھنا ادارت کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ تمام تر اہم اخبارات و جرائد کے اجرا، بندش یا خاتمہ کی تفصیل موجود ہے۔ اہم ادبی، علمی شخصیات کے مختصر لیکن مربوط پروفائل دیے گئے ہیں، تمام تر سرکاری اور غیر سرکاری ایوارڈ (آدم جی، نگار ایوارڈ وغیرہ) کی تفاصیل موجود ہیں اور بیشتر اہم کتابوں کے سرورق دیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں آپ کو پاکستان کی فلم انڈسٹری، شاعری، ڈرامہ، ٹیلی ویژن، ریڈیو پاکستان وغیرہ کا پورا سفر نظر آئے گا۔ یہ کتاب پڑھتے ہوئے پہلا تعجب یہی ہوتا ہے کہ ایک شخص نے تن تنہا یہ کام کیسے سرانجام دے دیا، لیکن کچھ دیر کے بعد احساس ہوتا ہے کہ اردو علم و ادب کی تاریخ میں عقیل عباس جعفری ایک تازہ اضافہ ہے، ورنہ اس نوعیت کے اہلِ جنوں ہمارے ہاں ہمیشہ سے رہے ہیں۔ بہت سے نام ذہن میں آتے ہیں۔ سبط حسن اور علی عباس جلالپوری جیسے محقق جنہوں نے تن تنہا اپنے زمانے کے فکری مزاج کو ڈھالنے میں ایک لازوال کردار ادا کیا۔ انصاری جیسا مترجم جو ناقابل یقین کام کر گیا۔ ڈاکٹر احمد حسن دانی، عین الحق فرید کوٹی، حسن عسکری، آصف خان، محمد طفیل اور سید قاسم محمود جیسے ان تھک لکھاری جو اپنی لگن میں بڑا علمی سرمایہ چھوڑ گئے۔ کے کے عزیز کے بارے میں کیا کہیے؟ زاہد چوہدری، ڈاکٹر مبارک علی، ڈاکٹر اقبال احمد، اختر احسن اور عزیز صدیقی اور ستار طاہر کو کن الفاظ میں یاد کیا جائے؟ شفقت تنویر مرزا، احمد سلیم اور ڈاکٹر مبارک علی ایسی ہی لگن کے ساتھ علمی اور تحقیقی کار ہائے نمایاں سرانجام دے رہے ہیں۔

عقیل عباس جعفری کی یہ کاوش اپنے وطن کے لیے، وطن سے محبت کرنے والی اور اس کے روشن اور تابناک مستقبل کا خواب دیکھنے والی نسل کے ایک تحفہ ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419061 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More