بنگال اور آسام میں پہلے مرحلے کی ووٹنگ میں زبردست ووٹنگ
کر کے رائے دہندگان حق نے رایخ رقم کرنے کے ساتھ ساتھ کسی خاموش انقلاب کی
آمد کا راستہ صاف کر دیا ہے ۔مغربی بنگال اور آسام میں اسمبلی انتخابات کے
پہلے مرحلے میں بھاری ووٹنگ درج کی گئی ۔جہاں شام پانچ بجے تک دونوں
ریاستوں میں بالترتیب ۸۰اور ۷۰ فیصد لوگوں نے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا
۔جس سے تبدیلی کے آثار نمایاں نظر آرہے ہیں ۔جہاں ایک طرف ملک میں فرقہ
پرستی کا زہر پھیل رہا ہے ،جہاں ملک کے سب سے دانشور طبقہ اپنے اپنے
ایواڈرس لوٹاکر اپنا احتجاج بلند کر رہے ہیں ،جہاں ملک میں رواداری اور عدم
رواداری پر زور دار بحث ہو رہی ہے ،اور اسی درمیان ملک کے کونے کونے میں
ناخوشگوار واقعہ بھی رونما ہو رہا ہے ۔جسے دیکھ اور سن کر تمام ہندوستانیوں
کے لئے کسی تشویش لاحق ہو گیا ہے ۔ایسے حالات میں لوگ کہیں تو کس کو کہیں
اور کیا کہیں ان کے پاس صرف اور صرف ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ ہتھیار
عقلمندی سے استعمال کی جائے تو ملک کی قسمت کا فیصلہ کر دے گی ۔اور اگر یہی
ہتھیار بغیر سوچے سمجھے استعمال کئے گئے محض جذبات اور چند وقتی فائدہ
کیلئے تو ملک اور خود انسان کی ذات کے لئے سبق آموز داستاں کی شکل میں ابھر
کر سیاست کی افق پر نظر آئے گا ۔سرکاری ذرائع نے کہا ہے کہ بھاری سیکورٹی
میں پولنگ کرائی گئی ۔دونوں ریاستوں میں کہیں سے تشدد یا نا خوشگوار واقعہ
کی کوئی خبر نہیں آئی ۔یہ بھی اپنے آپ میں ایک بڑے انقلاب کی آمد کا نقشہ
پیش کر رہا ہے ۔اس سے ثابت ہو تا ہے کہ عوام اب ایک جٹ ہو چکے ہیں ووٹ کا
استعمال انہوں نے بھائی چارے اور یکجہتی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے کیا ہے ۔اس
سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے دل آپس میں ملے ہوئے تھے اور ووٹنگ میں سو فیصد
لوگوں نے اپنے رائے حق کا استعمال کیا ہے چونہ بیس اور پچیس فیصد عوام تو
ملک سے باہر ہونگے ہی ۔اس سے یہ بھی ثات ہوتا ہے کہ یہ دونوں ریاستیں جہاں
نکسلی حملے کافی ہوتے رہتے ہیں لیکن انتخابات کے دوران دونوں ریاستوں میں
امن و آمان برقرار رہا اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی نکسلی نے
انتخاب کے بائکاٹ کا نعرہ نہیں دیا بلکہ ایسا لگ رہا ہے جیسے وہاں نکسل کا
کوئی وجود تھا ہی نہیں ،یہ بھی کسی انقلاب کی آمد کا اشارہ پیش کر رہا ہے
۔صبح سات بجے سے ہی ووٹروں کی کافی لمبی قطار دیکھی گئی اور یہ سلسلہ شام
تک جاری رہا ۔ایسا شاید ہی ہوتا تھا کہ ووٹ ڈالنے کیلئے عوام خود اتنے
زیادہ بیدار ہیں کہ انتظامیہ کو کافی محنت کرنی پڑی ۔ویسے تو یہ انتخاب محض
دو ریاستوں کا ہے لیکن اس کے اثرات دور تک مرکز کی دہلیز پر اثر نداز ہونے
والے ہیں ۔اگر بر سراقتدار جماعت کو کامیابی ملی تو پھر وہ ہندوستان میں وہ
سب کچھ ہوگا جس کا اشارہ گاہ بگاہے ہو رہا ہے ۔لیکن اگر نتائج اس کے برعکس
آیا تو مرکزی حکومت محض دکھاوے کہ رہ جائے گی چونکہ راجیہ سبھا سے ان کے
صفایا کے بعد وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے ہیں ۔اسی لئے بر سر اقتدار
جماعت کے لئے یہ دونوں انتخاب کرو یا مرو جیسی کیفیت کے ساتھ منسلک ہے ۔یوں
تو الیکشن ملک میں ہمیشہ ہوئے ہوتے رہے ہیں لیکن اب جو الیکشن ہو رہا ہے وہ
حق رائے سے زیادہ نظریاتی کی کشمکش کا نتیجہ ہے ۔آج ہندوستان کے کونے کونے
میں نظریاتی سرد جنگ چھڑ چکی ہے ۔کون اپنے ملک کو کس حد تک چاہتا ہے اور اس
کا اظہار وہ کس طرح کرتا ہے اس کے لئے مقابلہ جاری ہے ۔اس مقابلہ میں سیاسی
لیڈران کے ساتھ ساتھ مذہبی پیشوا سے لیکر تخت نشین حضرات تک شامل ہیں ۔جس
کے درمیان عوام پس رہی ہے ۔عوام کو سب سے زیادہ ملک میں مہنگائی سے جنگ
کرنی پڑ رہی ہے اپنے اپنے خواہشات کو کم سے کم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور
غریب طبقے کے تھالی سے دال اور سبزی غائب ہو چکے ہیں ۔عوام بھوک مری کا
شکار ہونے جا رہے ہیں اور ملک میں سیاست داں سے لیکر مذہبی پیشوا سب نظریات
کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں ۔کسی کو عوام کی فکر نہیں ہے ۔نوجوان طبقہ تڑپ
رہا ہے اس کے پاس نوکری نہیں ہے وہ بے روزگار ہے اس کی کوئی سننے والا نہیں
اس کے درد کا درماں کوئی نہیں ہے بلکہ سب کے سب بس نظریاتی جنگ میں مصروف
کار نظر آرہے ہیں ۔ایسے حالات میں عوام پریشان ہیں کہ وہ کرے تو کیا کرے
۔جس طرح دہلی میں عوام نے ایک نئی نویلی سیاسی پارٹی کو دہلی کی تاج حوالے
کر دی ہے اسی طرح ہر ریاست میں عوام اسی طرح تبدیلی کے خواہاں ہیں جس کو
محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اب بھی کوئی منظر عام پر آئے
اور کہیں میں مہنگائی کم کروں گا میں روزگار دونگا اسی کا عوام کو انتظار
ہے نا کہ کون کیا کھاتا ہے اور کیا نہیں کھاتا ہے ،کون کیا کہتا ہے اور اسے
کیا کہنا چاہئے وغیرہ کو ختم کر کے ملک کی فکر کریں اور عوام سے رشتہ مضبوط
کریں اسی میں ملک اور عوام کی بھلائی ہے ۔
|