دہلی اور بہار الیکشن میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے جس
طریقے سے ایک دوسرے کے خلاف اشتہاربازی کی گئی اس سے عوام الناس میں جہاں
بے چینی پیدا ہوئی وہیں اخلاقی زوال کی شروعات بہت تیزی سے ہوئی تھی ۔اس کا
اندازہ ہر خاص و عام کو ہوا اور ہو رہا ہے ۔اشتہاربازی نے جہاں اپنے سیاسی
حریف کو نیچا دکھانے کی کوشش کی وہیں اخلاقی حدود کو بھی پا ر گئے تھے ۔اس
حدود کو پار کرنا ہی اخلاقی زوال کی نشانی تھی ۔اس کے علاوہ عوام میں یہ
تاثر جا رہا تھا کہ اس طرح کی غیر اخلاقی حرکات کو انجام دینے والی پارٹی
کے ہاتھ میں ہم اقتدار کیسے حوالے کر سکتے ہیں جو ووٹ کی خاطر اخلاقی حدود
کا پار کرنے کے ساتھ ساتھ کردار کشی کی انتہا تک پہنچ چکے ہیں ۔دہلی الیکشن
سے شروع ہو کر بہار تک یہ نفرت انگیز اشتہارات نے اپنے جلوے دکھائے اس سے
کوئی نہیں بچ پایا ،یہاں تک کہ عوام کا بھی کبھی کبھی مذاق اڑا دیا گیا ۔جس
سے عوام میں کافی بے چینی پائی جا رہی تھی وہیں ہندوستان کی سب سے مضبوط
الیکشن کمیشن بھی اس سے بے حد شرمندہ تھی ۔بار بار کسی پارٹی کو وجہ بتاؤ
نوٹس جاری کرنا بھی مشکل ہو رہا تھا ۔یہاں تک کے اشتہارات کے معاملے کورٹ
تک پہنچنے لگے ۔جس سے نجات پانے کے لئے الیکشن کمیشن راستہ تلاش رہی تھی
۔تب ہی بنگال اور آسام کا الیکشن آگیا اور ان دونوں ریاستوں میں بھی وہی
طریقہ اختیار کیا جانے لگا جو دہلی اور بہار میں اختیار کئے گئے تھے ۔جس سے
سبق حاصل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے سخت قانون بنانے کا انتباہ دیتے ہوئے
ضابطہ بنانے کی بات کہی اور ہوا بھی وہی کہ آج الیکشن کمیشن نے اسمبلی
انتخابات کے پیش نظر سیاسی جماعتوں کو اخباروں میں کسی طرح کا اشتہار دینے
سے قبل اس کی منظور ی لینے کو لازمی کر دیا ہے ۔کمیشن نے گزشتہ انتخابات
بالخصوص بہار کے انتخابات میں کچھ اشتہارات کو لے کر اٹھے تنازعہ کو دیکھتے
ہوئے یہ قدم اٹھایا ہے ۔اس طرح کے قابل اعتراض اشتہارات کے معاملہ میں
سیاسی پارٹیاں کمیشن سے شکایت کرنے لگی تھیں اور ان اشتہارات پر یہ پارٹیاں
آپس میں الزام تراشیوں اور صفائی بھی پیش کرنے لگی تھیں ۔کمیشن نے ان
واقعات سے بچنے کے لئے اشتہارات کے ڈائریکٹر دھیر یندر اوجھا کی طرف سے آج
جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں پرنٹ میڈیا میں متعدد مبہم اور جذبات
کو مشتعل کرنے والے اشتہارات کمیشن کی نوٹس میں آئے ہیں۔یہ اشتہارات پولنگ
کے آخری وقت میں ماحول کو خراب کرتے ہیں۔لہذا ایسے نفرت انگیز ،گمراہ کن
اور مشتعل کرنے والے اشتہارات کے ذریعہ نا خوشگوار واقعات کو دہرائے جانے
سے روکنے کیلئے ہر سیاسی جماعتیں اور امیدوار کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ
16اور 17اپریل کو ہونے والی پولنگ سے قبل اپنی متعلقہ ریاست میں میڈیا سر
ٹی فیکٹ اور نگرانی کمیٹی سے اپنے اشتہارات کی جانچ کرالیں اور ان سے اس
کیلئے سرٹی فیکٹ حاصل کر لیں ۔کمیشن نے یہ بھی کہا ہے کہ ریاست کے تمام
اخباروں کو بھی ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ 16اور 17اپریل کو صرف ایسے ہی
اشتہارات شائع کریں جنہیں کمیشن سے سرٹی فکٹ ملا ہو ۔کمیشن نے اس حکم کو
فوری طور پر نافذ کر دیا ہے اور تمام میڈیا مانیٹرنگ کمیٹیوں کو بھی اس کی
اطلاع دی گئی ہے۔کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں ،امیدواروں اور اخبارات تک اس
حکم کو پہنچانے کا بھی اعلان کیا گیا ۔لیکن اس اعلان سے موجودہ حالات کو
کنٹرول کرنے کیلئے جو لائحہ عمل اختیار کیا گیا وہ ٹھیک تو ہے لیکن اس سے
یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کا یہ حکم ہمیشہ رہے گا یا
پھر فوری طور پر اس الیکشن کو مد نظر رکھ کر یہ قدم اٹھائے گئے ہیں ۔لیکن
ایک بات ٹھیک ہے موجودہ حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے الیکشن کمیشن جو قدم
اٹھائے ہیں وہ قابل تعریف ہے اور اس سے کسی کی کردار کشی کو روکا جائے گا
۔ملک میں ایسے حالات پیدا نہ ہوں جو کسی کو کسی سے نفرت کرنے پر ابھارے
پارٹیوں کو اپنے اپنے ایجنڈے کے مطابق اشتہارات دینے کی ضرورت تھی لیکن
یہاں تو ایک دوسرے پر اپنی بھڑاس نکالنے کا کام کیا جا رہا تھا ۔اس لئے
الیکشن کمیشن نے وقت رہتے حکم جاری کر کے ہندوستان کی جمہوریت کو قوت عطا
کر دی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے رہتے کوئی ملک کے حالات
کو خراب کرنے کی کوشش نہیں کر سکتا ہے اور نہ کسی کو الو بنا کر ووٹ بینک
کی سیاست کر سکتا ہے ۔ہندوستان کا الیکشن کمیشن جس طرح پاور فل ہے وہ قابل
تعریف ہے ۔
|