’’راناثنا اﷲ نے پاناما لیکس کوپاجامہ لیکس
قرار دیا ہے اورشیخ رشیدکہتے ہیں کہ اگریہ پاجامہ لیکس ہیں توحکومت کوبہت
جلد پیمپرکی ضرورت پڑے گی۔‘‘
’’پانامہ کا پاجامہ ڈرائی کلین ہونے جا رہا ہے، اب سب پتا چل جائے گا کہ کس
کس نے یہ پاجامہ پہنا تھا۔‘‘
’’ ڈرائی کلینرز کا کام کلین کرنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی داغ یا دھبہ لگ جائے
تو یہ ڈرائی کلینر سب داغ صاف کردیتے ہیں۔ ‘‘
’’ لیکن یہ پاجامہ ہے کس کا ، کس نے پہنا ہے یہ پاجامہ اور پھر کون لایا ہے
یہ پاجامہ ، کس نے پہنایا ہے یہ پاجامہ ؟ ان سب سوالوں کا جواب کون دے گا؟‘‘
’’ یہ سب شور ہے جو بہت جلد آف شور ہوجائے گا۔‘‘
’’لیکن یہ شور تو شروع ہی آف شور سے ہوا ہے اب اسے آف کرنا ممکن نہیں ہوگا۔‘‘
’’ تم بھی کتنے بھولے ہو، آج تک کوئی کرپشن یہاں ثابت ہوئی ہے جو یہ ہوگی۔
رائے ونڈ کے سرے محل سے لے کر سوئس اکاؤنٹس تک جتنے بھی کیس ہیں سب جھوٹے
ہیں۔ ‘‘
’’ اس کا مطلب ہے ہمارے ملک میں کرپشن نہیں ہوتی صرف اس کا شور ہوتا ہے۔‘‘
’’ اور شور بھی ایسا جس میں چور بھی مچاتا ہے شور اور پتا ہی نہیں چلتا کہ
چور کون ہے ؟‘‘
’’ اگر سب شریف ہیں تو پھر بدمعاش کون ہے؟‘‘
’’جس کے پاس معاش نہیں ۔ ‘‘
’’ اور جس کے پاس معاش ہے وہ ’زرداری‘بنا ہوا ہے۔‘‘
’’اب انصاف کا وقت آگیا ہے کہ لوٹی ہوئی رقم واپس لی جائے۔‘‘
’’مسئلہ یہ ہے کہ انصاف جس نے کرنا ہے وہ تحریک انصاف میں نہیں ہے۔اسی لیے
تحریک انصاف میں صرف تحریک ہی رہ گئی ہے۔‘‘
’’انصاف کرنے والے کہتے ہیں کہ جو کرپشن نہیں کرنا چاہتا وہ نہ کرے اور جو
کرپشن کرے گا اس سے اﷲ پوچھے گا۔‘‘
’’ میرے خیال میں تو ہمارے بڑوں کو اس مسئلہ پر گنجائش پیدا کرنی چاہیے
کیونکہ کرپشن کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی۔‘‘
’’اسی لیے سارے اپوزیشن کے لیڈران مل کر اور سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں ۔‘‘
’’ کرپشن سے جمہوریت تو چل جائے گی لیکن ملک نہیں چلے گا۔‘‘
’’ملک کو تو چلانا ہوگا ورنہ یہ سب لوگ کہاں سے کھائیں گے؟‘‘
’’ اس کے لیے سب کو مل بانٹ کر کھانا ہوگا اور اپنی اپنی باری کا
انتظارکرنا ہوگا ۔ اب ملک اس لڑائی جھگڑوں اور دھرنوں کامزید متحمل نہیں
ہوسکتا۔‘‘
’’حکومت نے بھی اسی لیے سختی سے کہہ دیا ہے کہ وہ اب دھرنوں کی اجازت نہیں
دیں گے۔‘‘
’’کاش یہ کہتے کہ ہم کرپشن کی بھی اجازت نہیں دیں گے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ
ان سے اجازت لیتا کون ہے۔‘‘
’’اگر یہ کھیل اسی طرح جاری رہا تو پھر انہیں بھی اجازت کی ضرورت نہیں ہوگی
جو بغیر اجازت آتے ہیں اور پھر جاتے ہی نہیں۔‘‘
’’اب کوئی بھی آئے کوئی بھی جائے عوام کو اس کی کوئی پروا نہیں وہ تو بس
یہی کہہ رہی ہے داغ تو چلا جائے گا لیکن یہ وقت پھر نہیں آئے گا۔‘‘
’’اور ویسے بھی داغ تو اچھے ہوتے ہیں ۔ داغ نہیں تو سیاست نہیں اور سیاست
نہیں تو کرپشن نہیں اور کرپشن نہیں تو کچھ بھی نہیں۔‘‘
’’ تو پھر چلو ہم بھی چل کر لنڈے سے پاجامہ خرید تے ہیں پانامہ تو جانہیں
سکتے۔‘‘
’’چلو……!!‘‘
٭……٭ |