جب دنیا میں ہر طرف نفسا نفسی اورافراتفری
کا عالم ہو، معصوم جانوں کو بے دردی سے اڑا دینا ایک مشغلہ بن چکا
ہو۔انسانوں کے روپ میں ہرطرف بھیڑیے اور گدھ منڈلا رہے ہوں۔ ہر کسی کا دل
خودغرضی کی تاریکیوں میں ڈوب گیا ہو، ان حالات میں اگر کوئی انسانی جان
بچانے کی خبر آجائے تو یقینا مایوس چہروں پر رونق سی آجاتی ہے۔ ناروے میں
ایک ایسا ہی غیر معمولی واقعہ رقم کیا گیا۔جہاں صرف ایک شخص کی جان بچانے
کے لئے ایف 16طیارے سے مدد لی گئی جس نے 30منٹ سے بھی کم وقت میں
280کلومیٹر دور ہسپتال سے ایک طبی آلے کوبروقت مریض تک پہنچا کرایک جان
نہیں بلکہ پوری’’انسانیت ‘‘ کی جان بچا لی۔
اطلاعات کے مطابق ناروے کے ضلع سالٹن کے قصبہ بوڈو کے ہسپتال میں ایک شدید
بیمار شخص کو لایا گیا۔ اسے فوری طبی امداد دی گئی تاہم اس کے دل اور
پھیپھڑوں کے افعال کو جاری رکھنے کے لئے ای سی ایم او مشین موجود نہیں تھی
۔ جان بچانے کے لئے یہ مشین ناگزیر تھی۔ ہسپتال انتظامیہ نے فوری طور پر اس
کا کھوج لگانا شروع کردیا۔ ٹرونڈھم کے ہسپتال میں اس کی موجودگی کی اطلاع
ملی تاہم یہ علاقہ ہسپتال سے 280کلومیٹر دور تھا۔ مریض کی حالت اتنی بگڑ
چکی تھی کہ اسے ٹرونڈھم روانہ کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں تھا۔اتنی دور سے
مشین کو لانے کے لئے بھی دس گھنٹے درکار تھے۔ ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔ اگر
اس طرح کا معاملہ ہمارے ہاں پیش آ جاتا تو ڈاکٹر حضرات شاید ’’جواب‘‘ دے
چکے ہوتے۔یہاں تو بروقت ڈاکٹر دستیاب نہیں ہو پاتا، مشینیں تو دور کی بات
ہے۔ بہرحال ناروے کے ڈاکٹرز مایوس نہیں ہوئے۔وہ بے بسی کی تصویر نہیں
بنے۔انہوں نے اس’’ وختے‘‘ سے جان چھڑا نے کی کوشش نہیں کی بلکہ مریض کی جان
بچانے کے لئے مختلف آپشنز پر غور کرنا شروع کردیا۔ فوراَایک کے ذہن میں
انوکھا خیال آیا کہ کیوں نہ قریبی ائرفورس بیس سے مدد لی جائے۔ ہوسکتا ہے
کہ کوئی سبیل نکل آئے۔ بوڈو میں ناروے ائرفورس کا ایک بہت بڑا بیس موجود
ہے۔ڈاکٹروں نے بلا تاخیرقریبی ائربیس کا نمبر گھما ڈالا۔
ان کی کال بیس کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل بورج کلیپ کو منتقل کی گئی۔جس نے پل
بھر میں صورتحال کا جائزہ لیا اور پھر ایک ہی سوال کیا۔’’ مشین کا حجم کتنا
ہوگا؟ ‘‘
’’ایک لمبے تڑنگے انسان کی جسامت کے برابرمگر نازک ترین‘‘ جواب موصول ہوا۔
او ۔ کے۔ کہہ کر کمانڈر نے رسیور نیچے رکھ دیا۔
اس وقت ٹرونڈھم سے دو ایف سولہ طیارے قریبی علاقے موس کے لیے پروازبھرنے کے
لیے تیار تھے۔کمانڈر نے فوراََ ایک طیارے کورکنے کا حکم دیا۔ اسے موس جانے
کی بجائے طبی مشین سمیت بوڈو پہنچنے کے احکامات دیئے گئے۔ فائٹر پائلٹ نے
معاملہ کی نزاکت کے پیش نظر 35منٹ کے فاصلے کو 25منٹ سے بھی کم وقت میں طے
کرلیا۔ صرف 40منٹ کے اندر اندر طبی مشین نیم مردہ مریض کے دل اور پھیپھڑوں
کو تھام کر اس میں نئی زندگی پھونک چکی تھی۔ اس واقعہ پر غور کرنے والوں کے
لیے بہت سے اسباق موجود ہیں۔انسانی کوشش نے ناممکن کو ممکن کردکھایا تھا۔
ہمت مرداں، مدد خدا، مایوسی گناہ ہے، جہاں چاہ وہاں راہ اور سب سے بڑھ کر
انسانی زندگی بچانے کی تگ و دو اور دوڑ دھوپ کی ایک نئی اور زندہ مثال قائم
ہوچکی تھی۔
ناروے میں تو ڈاکٹروں کی کوشش اور تگ و دوسے مریض کی جان بچ گئی تاہم ہمارے
ہاں ڈاکٹر وں کے رویے اور طرزعمل سے مریض زندہ درگور ہوجاتے ہیں۔ سرکاری
ڈاکٹرز مریضوں کو پس پشت ڈال کر آئے روز احتجاج کے ذریعے اور پرائیویٹ
ڈاکٹرز اپنی جیبیں بھرنے کی تگ و دو میں اس مقدس پیشے کی جو بے حرمتی کررہے
ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ دور نہ جائیے ، چند روز قبل سرگودھا سے ینگ
ڈاکٹرز کی طرف سے ہونے والا احتجاج پھیل کر پنجاب بھر کے ہسپتالوں کو اپنی
لپیٹ میں لے چکا ہے۔ جس کے بعد ہزاروں لاکھوں مریضوں کو جان کے لالے پڑ گئے
ہیں۔ صرف سرگودھا میں بروقت امداد نہ ملنے کے باعث نومولود بچوں سمیت دس
افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ دوسرے علاقوں کی حالت بھی مختلف نہیں۔ مریض
بے یارومددگار ایمرجنسیوں، وارڈوں اور آپریشن تھیٹروں میں درد اور تکلیف سے
کراہ رہے ہیں مگر کوئی ’’مسیحا‘‘ ترس کھانے کو تیار نہیں۔ بہت سے علاقوں
میں مریضوں کے لواحقین اور ڈاکٹروں کے درمیان ہاتھا پائی کی بھی اطلاعات
ہیں۔ایسے رویے اور بے حسی کے عالم میں ہم کیسے ترقی یافتہ و تہذیب یافتہ
کہلا سکتے ہیں۔
جس طرح پی آئی اے ملازمین کی ہڑتال کے بعد نجی کمپنیوں نے اپنے کرایوں میں
دگنا اضافہ کرکے تجوریاں بھر لی تھیں اسی طرح ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کے بعد
بہت سے نجی ہسپتال اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے خودغرضی
کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے مختلف بہانوں سے اپنے چارجز میں اضافہ کردیا
ہے۔ویسے عام حالات میں بھی یہ نجی کلینک اورہسپتال مریضوں کو ایک ایسے
خوفناک چکر میں ڈالتے ہیں کہ وہ جسمانی بیماری کے ساتھ ساتھ ذہنی مریض بھی
بن جاتا ہے۔ بھاری چیک اپ فیس کے بعد ڈاکٹر کی من پسند لیبارٹری سے ٹیسٹ،
مخصوص کمپنی کی مہنگی دوائی خاص میڈیکل سٹور، کمیشن کمانے کے اس چکر میں
پھنس کر مریض بیچارہ اتنا مایوس ہوتا ہے کہ وہ علاج کی بجائے بیماررہنے کو
ترجیح دینے لگتا ہے۔ اگر کوئی یہ بوجھ برداشت کربھی لے تو ڈاکٹرزتسلی
اورامید دلانے کی بجائے اسے ایسے خوفناک انداز سے بیماری کے متعلق بتاتے
ہیں کہ مریض دوائی کی بجائے اپنے کفن دفن کی فکر میں پڑ جاتا ہے۔ایک نجی
کلینک میں ایک حاملہ خاتون کو لایا گیا۔ اسے فوری طبی امداد کی ضرورت تھی۔
لیڈی ڈاکٹر سے رابطہ کیا گیا۔ اس نے فون پر ہی سٹاف کو چند ہدایات دیں اور
فوراََ آنے کا کہہ کر فون بند کردیا۔ تقریبا سات گھنٹے بعد جب وہ’’فوراََ‘‘
ہسپتال کی ’’ایمرجنسی‘‘ میں پہنچی تو بہت دیر ہوچکی تھی۔ نومولود بچہ ماہر
ڈاکٹر کی عدم موجودگی میں دنیا میں آتے ہی زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا۔
ڈاکٹر نے یہ حالت دیکھی تو لواحقین سے صرف اتنا کہا: ’’میں کچھ نہیں کرسکتی
فوری طور پر اسے کسی دوسرے ہسپتال لے جائیں۔‘‘ اس سے پہلے کی بچے کو کہیں
اور پہنچایا جاتا، وہ مرجھا چکا تھا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے بڑے اطمینان سے اس
معصوم کی موت کی تصدیق کی اور یہ کہہ کر چلی گئی کہ ’’اﷲ تعالیٰ کی
مرضی۔‘‘اس بے بسی کے عالم میں بچے کے باپ کے آنسو زمین پر گرنے ہی والے تھے
کہ ہسپتال کے عملے نے اس کے ہاتھ میں ’’ایمرجنسی ٹریٹمنٹ‘‘ کا بل تھما
دیا۔ہمارے ہاں اس طرح کے واقعات اب معمول بن چکے ہیں۔سرکاری ہسپتالوں کے
حالات تو اس سے بھی خوفناک ہیں۔ جس طرح آج دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف ضرب
عضب جاری ہے،شعبہ صحت کی صحت یابی کے لیے بھی اسی قسم کے سرجیکل آپریشن کی
اشد ضرورت ہے ۔ |