پیوستہ رہ شجر سے، امید بہار رکھ

 ـ"سیکورٹی ادارے اگر قانون کے پابند نہیں تو دفاتر پر داعش کے جھنڈے لہرا دیں"۔سپریم کورٹ کی درودیوار یں اس جملے سے لرز رہی تھیں ۔ 14مارچ2016کو سیکرٹری داخلہ اور خارجہ کو سپریم کورٹ نے سر زنش کرتے ہوئے بہت ہی ا ہم نکتہ کیجانب توجہ مبذول کرائی تھی ۔ یہ اہم نکتہ جلی حروفوں میں اخبار کی زینت بھی بنا ۔گئے زمانے میں ہمارے بزرگوں کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ یا جملے ہمارے ذہن کے گوشے یا سینے کی تجوری میں اس طرح جمع ہو جایا کرتے تھے کہ چاہنے کے باوجود ان کا اخراج ممکن نہیں ہوتا تھا اور وہی جملے وہی الفاظ ہمارے لئے صراط مستقیم کی راہ ہموار کیا کرتے تھے لیکن آج ہم کسی کے بھی کہے گئے جملوں کو اپنے مفاد کے حصول کی خاطر اتنی اہمیت نہیں دیتے یہ ہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اس جملے کو فوقیت نہیں دی گئی اور اخباروں میں چھپی جلی حروف کی اس اہم خبر کی سیاہی آج پھیکی پڑ چکی ہے کیونکہ کچھ با اختیار لوگوں نے سوچ رکھا ہے کہ صراط مستقیم پرچلنا ہی نہیں ہے ۔

سیکورٹی اداروں میں جب ہم محکمہ پولیس کی بات کریں گے تو یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کونسی ایسی برائی نہیں ہے جو محکمہ پولیس میں نہ ہو۔آجکل یہ وطیرہ بھی عام ہو گیا ہے کہ قربانی کا طعنہ دیکر جو کرنا چاہو کرو آپ کو کوئی بھی کسی بُرائی کو کرنے سے نہیں روکے گا یہ بلیک میلنگ کا ٹرینڈ چل نکلا ہے ، تو پھر اُنکی قربانیوں کا کیا ہو جو ہر روز دھڑکتے دلوں کے ساتھ اپنے گھر سے اپنی روزی روٹی کے لئے نکلتے ہیں ا ور ان دیکھی گولی کا یا اچانک ہونے والے خود کش حملے کا شکار ہو جاتے ہیں یا جو حق وحلال کے رزْق کے حصول کے دوران حادثے کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔

جب کوئی بھی انسان اگر خالی جیب اور خالی پیٹ بھرنے کی ہوس میں مبتلا ہو جائے تو وہ بھول جاتا ہے کہ وہ بھی ان تاریک گلیوں سے گزر کر آیا ہے جہاں بھوک وافلاس کی دیویاں اب بھی ڈیرے جمائے بیٹھی ہیں وہ بھول جاتا ہے کہ بیماریوں نے کبھی اس کے بھی پیاروں کو دکھوں میں مبتلا کیا تھا لیکن نہیں ان کے خالی پیٹ اور خالی جیبوں نے ان کو صرف برائی کا راستہ دکھایا ہے اور برائیوں کے آتش فشاں کو بڑھاوا دیا ان کے آقاؤں نے جن کی بجا آوری کو انھوں نے اپنی عافیت سمجھی ہوئی ہے محکمہ پولیس نے مجرموں کے جتھے جنم دیئے کبھی لیاری گینگ وار کے نام سے تو کبھی چھوٹو گینگ کے نام سے اور ایسے بہت سے نام بھی ہیں جو مشہور نہیں ہوئے جب انکی بیخ کنی کا وقت آیا تو یہ ہی جتھے انکے لئے مصیبت کا سامان لے کر انکے سامنے سینہ سپر ہوئے آخر کار ان کو پیچھے دھکیل کر کہیں رینجرز کو سامنے آنا پڑا تو کہیں فوج کو۔ سندھ عدالت میں عامر کے والد نے درخواست دائر کی ہے کہ راؤ اپنا لشکر لیکر کسی کی اکلوتی اولاد کو جعلی پولیس مقا بلہ ظاہر کر کے کسی کے گھر کوسونا کر نا گناہ نہیں سمجھتا ہے ، جب یہ کسی ملزم کو گھر سے پکڑ کر لے جاتے ہیں تو اس کی بیوی سے کہتے ہیں کہ" تم دوسری شادی کر لیناـ" پولیس افسران وردی کو اپنی کھال پر چڑھانے کے بعد قانون سے ماروا ہو جاتے ہیں قانون کو اپنے گھر کی باندی سمجھنے لگتے ہیں ۔کسی دانشور نے کہا تھا کہ جب قانون کی بے حرمتی اور پامالی ہوگی تو پھر ہماری بستیوں میں درندے ہی آکر آباد ہونگے۔ سپریم کورٹ کی تنبیہ کے باوجود ان کی درندگی کا ختم ہونا تو ابھی دور کی بات ہے کم بھی نہیں ہو رہی ہے یہ بدستور ہمارے گھر میں مسائل کے انبار کھڑے کرنے میں مصروف ہیں یہ ملک ہمارا گھر ہے اس کی تزئین و تعمیر ہمارا فرض ہے لیکن جس گھر میں بے اصولی اور بے قاعدگی مسکن بن جائے تو گھر جہنم کی شکل اختیار کر لیتا ہے ہمیں تو گھر سے نکلتے ہی کبھی باوردی تو کبھی بنا وردی والوں کی زیادتیوں اور نا انصافیوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔توکیا ہماری آنے والی نسل غیر محفوظ ہیں؟ لیکن نہیں ابھی ہم مایوس نہیں ہوئے ہیں اب بھی ہم نے امید کی آس کو سینے سے چپکا کر رکھا ہوا ہے کیونکہ اگر سپریم کورٹ کی آواز کو دبا دیا گیا ہے تو مسیحائی نے ابھی دم نہیں توڑا مسیحا اب بھی ہمارے گھروں کو محفوظ بنانے کے لئے زندہ ہیں گزشتہ روز ہی کوہاٹ میں سربراہ آرمی چیف جناب راحیل شریف کی کرخت دار آواز بلند ہوئی ہے کہـ" کرپشن اور دہشت گردی کا گٹھ جوڑ ہمیں ہر حال میں توڑنا ہے۔"دیکھ لیں کہ" بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔
Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 97450 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More