قائد اعظم کا تصور پاکستان - حصہ اول

بانی پاکستانی حضرت قائد اعظم محمد علی جناح صاحب کے بارے میں وقتاً فوقتاً یہ شوشا چھوڑا جاتا ہے کہ وہ اسلامی نظام کے بجائے پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ اس حوالے سے نام نہاد دانشور اور بد دیانت محققین حضرات قائدم اعظم صاحب کی اسلامی ریاست اور اسلام کے حوالے سے تمام گفتگو پس پشت ڈال کر ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہیں کہ اس تقریر میں قائد اعظم نے سیکولر ازم کی بات کی ہے۔ روزنامہ جسارت میں اس حوالے سے ایک تحقیقی اور علمی مضمون چھپا ہے اس کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر ہم اس کو یہاں پیش کر رہے ہیں۔

یہ سوچنے اور جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ قائد اعظم کا تصورِ پاکستان کیا تھا؟ ان کے تصورِ پاکستان کو ہمارے چند ٹیلیویژن کے مکالموں اور اخبارات وغیرہ میں بعض دانشوروں، اردو اور انگریزی اخباروں کے سیکولر صحافیوں اور حکمران پارٹی کی طرف سے اُلٹے معنی پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس مقصد کے لیے پاکستان بنایا گیا تھا، کیا ہم اُس کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں یا ہمارے حکمران ہمیں اُلٹی سمت میں لے جارہے ہیں؟ پاکستان کی آئیڈیالوجی کیا تھی؟ سیکولرزم یا اسلام؟ نفاذِ لادینیت یا نفاذِ شریعت؟ پاک فوج کو مالاکنڈ ڈویژن میں نفاذِ شریعت کے لیے استعمال کیا گیا یا اس تحریک کو کچلنے کے لیے؟ پاکستان میں شامل ہونے سے قبل جو شرعی نظام 110 سال سے سوات میں رائج تھا اس کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے مولانا صوفی محمد نے حکومت سے ایک پُر امن معاہدہ کیا تھا۔ عوامی نیشنل پارٹی حکومت کا بھی یہ کہنا تھا کہ سوات کے عوام کا یہ متفقہ مطالبہ ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی تھی کہ اس شرعی نظامِ عدل سے عوام کو جلد انصاف مل جاتا تھا۔ اس معاہدہ کے نتیجہ میں مولانا صوفی محمد نے اس علاقہ کے طالبان کے لیڈر مولانا فضل اللہ کو راضی کر لیا تھا کہ وہ اپنی سرگرمیاں روک دیں اور حکومت سے اُنہوں نے جو معاہدہ کیا تھا اس پر عمل درآمد کرنے کا موقع دیں۔ مولانا فضل اللہ چونکہ مولانا صوفی محمد کے داماد بھی ہیں، اس لیے بھی وہ اپنے خُسر کی بات کو ٹال نہیں سکے اور طالبان کی ساری کاروائیاں اس طرح روک دی گئیں۔ جب چاروں طرف امن امان کا دور دورہ ہوگیا تو انڈین ایجنٹوں کو بھی موقع نہیں مل سکا کہ وہ طالبان کے نام پر اپنی دہشت گردی اور انسانیت سوز جرائم کو جاری رکھ سکیں۔ مالاکنڈ ڈویژن میں طالبان کا جہاد بھی رُک گیا تھا۔ اس علاقہ میں امن و امان قائم ہو گیا تھا۔ لیکن ہمارے سیکولر طبقہ کو ایسا امن جو شریعت کے نفاذ کے نام پر ہو، وہ ایک آنکھ نہیں بھایا اور خصوصاً ہمارے انگریزی اخبارات کے سیکولر صحافیوں نے اس امن معاہدہ کے خلاف اپنا قلمی جہاد شروع کردیا۔ زرداری صاحب تو اپنی ٹوکیو کی تقریر میں پہلے ہی یہ وضاحت کر چکے تھے کہ ہماری پارٹی تو ایک سیکولر پارٹی ہے۔ اپنے آپ کو یا اپنی پارٹی کو سیکولر کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اور ہماری پارٹی کے جیالے اپنی انفرادی زندگیوں میں نماز، روزہ، حج، زکوٰة، ذکر اذکار، صدقہ و خیرات اور بزرگوں کی قبروں پر جاکر دعائیں اور منّتیں مانگنے کا کام تو سب کریں گے لیکن پاکستان میں نفاذِ شریعت کی مخالفت کریں گے اور کسی قیمت پر اس ملک میں مُلاؤں کو نفاذِ شریعت کے نام پر آگے آنے نہیں دیں گے۔ پارٹی کے سیکولر ہونے کا اعلان دوسرے الفاظ میں یہ ہے کہ ہماری پارٹی نفاذِ شریعت کے بجائے نفاذِ لادینیت کے لیے کوشاں رہے گی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس سیکولر پارٹی کے سربراہ صدر زرداری نیشنل عوامی پارٹی کے مولانا صوفی محمد کے ساتھ کیے گئے معاہدہ پر دستخط نہیں کررہے تھے۔ ان سے دستخط کروانے کے لیے پارلیمنٹ کو ایک متّفقہ قرارداد پاس کرنی پڑی۔ اس مجبوری کے تحت دستخط تو کردیے گئے لیکن ایک سیکولر پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے وہ اسی تاک میں رہے کہ کسی طرح اس معاہدہ کو کالعدم کردیا جائے۔ اُدھر ہماری حکومت کے آقا و مولا امریکی سرکار نے نفاذِ شریعت کے اس معاہدہ کو طالبان کے آگے ہتھیار ڈالنا قرار دیا تو پھر کیا تھا کہ اس معاہدہ کو توڑنے کے لیے مولانا صوفی محمد صاحب پر بے بنیاد جھوٹے الزامات کی بارش کی گئی اور امریکی سرکار کی خوشنودی اور ڈالر حاصل کرنے کے لیے پاک فوج کو ناپاک حکم دیا گیا کہ وہ اپنے ہی ملک کے ان لوگوں سے جنگ شروع کردے جو نفاذِ شریعت کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اسطرح امن کی فضاء کو جنگ کی صورتحال میں تبدیل کردیا گیا۔ اُدھر انڈین ایجنٹوں کو بھی موقع مل گیا کہ وہ مصنوعی طالبان بن کر مزید جرائم کریں اور سچے طالبان کے نفاذِ شریعت کے مطالبہ کو دفن درگور کردیں اور انہیں دہشت گرد بناکر ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش کریں۔ اس طرح سیکولر قوتوں کا ایک بڑا اتحاد بن گیا۔ حکومت، انگریزی اخباروں کے صحافی، امریکہ اور انڈین ایجنٹ‘ سب کی بنائی اتحاد یہ تھی کہ پاکستان میں شریعت نہ آنے پائے جسے یہ سب مل کر مُلاؤں کا نظام کہتے تھے۔ اس کے نتیجہ میں 20 لاکھ سے زائد افراد بے گھر بھی ہوئے اور ان گنت معصوم بے گناہ مارے بھی گئے۔ مولانا صوفی محمد جیسے طالبان کو پُر امن کرنے والے اور شریعت کا نام لینے والوں پر بغاوت کا مقدمہ چلا کر ہماری حکومت یقیناً اپنے سیکولر ہونے کا ثبوت بھی پیش کر رہی ہے اور جنرل مشرف نے پاکستان میں نفاذِ لادینیت کے لیے لال مسجد والے بے گناہوں کو شہید کرنے اور 29 سالہ شرعی حدود قوانین کو منسوخ کرنے کے جو اقدامات کیے تھے، اُسی مہم کو آگے بڑھا کر پاکستان کے مقصدِ وجود اور اس کی آئیڈیالوجی کو دریا بُرد کرنے کے عزمِ صمیم کو واشگاف بھی کر رہی ہے۔ گزشتہ62سال کے دوران اسلامی قوتیں تو کمزور ہوتی چلی گئیں اور لادینی قوتوں کی یہ جرات ہوگئی ہے کہ نفاذِ شریعت کا نام لینے والوں کو لال مسجد میں گھس کر مار دیا جاتا ہے اور اگر کوئی زندہ بچ گیا ہو تو اس پر بغاوت کا مقدمہ چلایا جائے گا، جس کا پہلا شکار مولانا صوفی محمد کو بنایا جارہا ہے کیونکہ اُن کا اصلی جرم یہ ہے کہ انہوں نے گزشتہ 110 سال کی طرح کا سوات میں شرعی نظامِ عدل کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔ پاکستان کی اصل آئیڈیالوجی کے خلاف لادینیت کی مہم کا آغاز جسٹس منیر نے کیا تھا۔ اُنہوں نے بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح ہی کو سیکولر یعنی لادین ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کی کتاب From Jinnah to Zia 1979 میں شائع ہوئی تھی جس میں انہوں نے یہ انکشاف فرمایا تھا قائد اعظم ایک لادین آدمی تھے۔ اس انکشاف کی بنیاد انہوں نے قائد اعظم کے نام سے ایک جھوٹے حوالہ پر رکھی تھی۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد 25 سال تک سارے سیکولر دانشور اور صحافی اس کو سچ سمجھ کر اسی حوالہ کو جسٹس منیر کے نام سے پیش کرتے رہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ سب سے مشہور کتاب رہی۔ سارے لکھاری اسی کتاب کے حوالہ سے اپنے لادینی تصورِ پاکستان کو پیش کرتے رہے۔ 2005ء میں لندن سے ایک کتاب شائع ہوئی جس میں جسٹس منیر کے جھوٹے حوالہ کی پول کھولی گئی، ورنہ 25 سال تک سیکولر دانشور اس جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرتے رہے۔ لندن سی"Secular Jinnah" کے نام سے 2005ء میں ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس میں اس جھوٹ کا پول کھولنے والی مصنفہ سلینہ کریم کا کہنا ہے کہ جسٹس منیر نے قائد اعظم کے حوالہ سے یہ بتایا کہ قائد اعظم نے پاکستان کے بارے میں یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ یہ ایک ”جدید جمہوری مملکت“ ہوگی جس میں ”حاکمیت کا انحصار عوام کے ہاتھوں میں“ ہوگا۔ مصنفہ کا کہنا ہے کہ اگر واقعی قائد اعظم نے اپنے تصورِ پاکستان کو ان الفاظ میں پیش کیا ہو تو یقیناً اس کا مطلب ایک سیکولر یا لادین پاکستان ہوگا۔

(جاری ہے)
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1469213 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More