سردار شوکت علی کشمیری کے مغالطے

اس صبح کا تصور اب بھی پریشان کر رہا ہے۔گوئٹے مالا،کیوبا، کانگو،بولیویا میں لڑنے والے ارجنٹائن کے انقلابی چی گویرا کی طرح امان اللہ خان بھی ایک انقلابی تھا۔ بیاسی سال میں بھی اس کے جزبے جواں تھے مگر26اپریل کی صبح اس کا جسم ٹھندا پڑ گیا تھا۔ امان اللہ خان کی کی جدوجہد کے بھی کئی رنگ ہیں۔ گلگت بلتستان میں پیدا ہوا، کشمیر میں بڑا ہوا ، کراچی میں پڑھائی کی ، برطانیہ میں انقلابی فکر اپنائی، بلجیم میں حق کی آواز بلند کی اور کشمیریوں کا انقلابی لیڈر کہلایا۔امان اللہ خان کو 1988میں اس وقت زبردست عالمی شہرت حاصل ہوئی جب ان کی جماعت جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ نے سرینگر میں 4بم دھماکے کر کے کشمیر کی آزادی کے لیے بھارت کے خلاف عسکری تحریک کا آغاز کیا۔ امان اللہ پاکستان ، برطانیہ اور بلجیم میں 12سے زیادہ مرتبہ گرفتار ہوے۔ آزاد اورخود مختار کشمیر کے نعرے کے باعث پاکستان کے حکمران ان سے نالاں رہے تاہم کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیا الحق نے امان اللہ کو اس نعرے کی مخالفت نہ کرنے کی یقین دھانی کرائی تھی ۔ وحدت کشمیر کی بحالی کے لیے امان اللہ نے 4مرتبہ لائن آف کنٹرول توڑنے کی کال دی۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا مارچ 11فروری 1994کو چکوٹھی کی طرف رونہ ہوا ۔امان اللہ خان کی اپیل پر لبریشن فرنٹ اور دوسری آزادی پسند جماعتوں کے سینکڑوں کارکنوں نے لائن آف کنٹرول توڑنے کے لیے چکوٹھی کی طرف مارچ کیا تھا چکوٹھی میں پاک فوج کو مارچ روکنا پڑا ۔طاقت کے استعمال سے لبریشن فرنٹ کے 6کارکن مارے گئے تھے ۔ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے سپریم ہیڈ امان اللہ خان 26اپریل 2016 کو راولپنڈی میں وفات پاگئے ۔ ان کی وفات پر دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اس دوران کشمیری رہنمائوں نے امان اللہ خان کی جدوجہد پر اپنی رائے بھی دی۔ یونائیٹڈکشمیر پیپلز نیشنل پارٹی ( یو کے پی این پی ) کے چیئرمین سردار شوکت علی کشمیر ی سویٹزر لینڈ میں مقیم متحرک کشمیری رہنما ہیں۔ وہ امان اللہ خان کے بعض اقدامات پر تحفظات رکھتے ہیں ۔ امان اللہ خان کی رحلت کے بعد بی بی سی سے گفتگو میں کہتے ہیں ِ کشمیر میں آزادی اور خودمختاری کی تحریک سیکولر بنیادوں پر جاری تھی اس تحریک میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ بھی چامل تھی تاہم 90کی دہائی میں پاکستان کی دائیں بازو کی جماعتوں نے تحریک پر اپنا کنٹرول قائم کیا حزب مجاہدین ، لشکرطیبہ اور دوسری جماعتوں نے اپنے بالادستی قائم کی جس کے نتیجہ میں جے کے ایل ایف کے لوگ بھی مارے گئے کشمیری پنڈتوں کو مارا گیا 3لاکھ کشمیری پنڈتوں کو کشمیر سے ہجرت کرنا پڑی نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے لوگ بھی مارے گئے۔ دراصل کشمیر کی اس تحریک کو مذہبی عناصر نے ہائی جیک کر لیا تھا ۔شوکت علی کشمیر ی کے بقول تحریک آزادی کشمیر کے تناظر میں دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں سے اتحاد کر کے امان اللہ غلطی کے مرتکب ہوئے تھے۔ اس سے کشمیر کی سیکولر روایات کو نقصان پہنچاتھا 1990کے عشرے میں کشمیر کی تحریک کا سیکولر کردار ختم ہو گیا تھا جس کے نتیجہ میں کشمیر کی آزادی کا سوال بھی متاثر ہوا ۔جموں کے ہندو اور لداخ کے بودھ بھی کشمیر کی آزادی کے سوال پر کنفیوز ہوگئے۔ سلگتا دل رکھنے والے سردار شوکت علی کشمیر ی خوش شکل خوش لباس اور خوش زبان بھی ہیں ۔ دنیا کے لیے ان کے جو بھی خیالات ہوں حقیقت یہ ہے کہ وہ اصل میں اسلام پسند کشمیری رہنما ہیں ۔ جموں وکشمیر فریڈم مومنٹ کے سیکرٹری خارجہ امور سردار آفتاب احمد نے بی بی سی سے انٹرویو میں بتایا کہ امان اللہ خان کی زندگی میں ریاست جموںوکشمیر کی وحدت ویک جہتی اورخودمختار کشمیر کے نظریہ کی اہمیت غیر معمولی ہے۔امان اللہ خان کشمیر میں بیرونی عناصر کی مداخلت کے خلاف تھے۔ بالخصوص افغانستان سے آنے والے لوگوں کی مداخلت کی وجہ سے امان اللہ خان کو لائن آف کنٹرول عبور کر کے مقبوضہ کشمیر جانے کی کال دینا پڑی ۔ وجہ یہ تھی کہ 1990میں کشمیر کی تحریک کو مذہبی اور فرقہ ورانہ رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی۔سردار آفتاب کے بقول بیرونی عناصر کشمیر میں داخل ہو گئے اور کشمیر کی قومی آزادی کی جدوجہد مذہبی اور فرقہ واریت میں بدل گئی ۔کشمیر کی قومی آزادی کی تحریک اور اس صورت حال میںمیںفرق دنیا کے سامنے رکھنے کے لیے امان اللہ خان نے 1994میں کنٹرول لائن توڑنے کی کال دی تھی۔ امان اللہ خان چاہتے تھے کہ دنیا کو بتایا جائے کہ کشمیر کے غیر مسلح افراد ریاست کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں جاسکتے ہیں۔ کشمیر کے باہر بالخصوص افغانستان سے جو لوگ یہاں آرہے تھے و دراصل یہاں کی تحریک کو ہائی جیک کرنا چاہتے تھے۔ سردار شوکت کشمیری اور سردار آفتاب کی رائے تصویر کا ایک رخ ہے جسے پڑوسی ملک میں زیادہ پزیرائی حاصل ہے تاہم امان اللہ خان کی جدوجہد کا دوسرا رخ بھی ہے جسے پاکستان اور آزاد کشمیر میں پزیرائی حاصل ہے ۔ امان اللہ خان اگرچہ گلگت بلتستان کے ضلع استور میں پیدا ہوئے تاہم ان کی پہچان گلگتی کے بجائے کشمیری بن گئی تھی وہ گلگت بلتستان کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ سمجھتے تھے چناچہ ان کی جدوجہد گلگت بلتستان سمیت پورے ریاست جموں وکشمیر کی آزادی اور خودمختاری کے لیے تھی۔ ریاست جموں وکشمیر تین مختلف انتظاموں میں تقسیم ہے۔ گلگت بلتستان کو پاکستان میں نیم صوبائی درجہ حاصل ہے جبکہ آزادکشمیر ایک مختلف حیثیت میں پاکستان کے انتظام میں ہے۔ اسی طرح مقبوضہ جموںوکشمیر بھارت کے انتظام میں ہے۔ امان اللہ خان ان تین ریاستی خطوں میں مقیم رہے اور جدوجہد کرتے رہے۔ استور میں ہوش سنھبالا، مقبوضہ کشمیر میں زندگی کے ابتدائی دن گزارے، آزاد کشمیر واپس آئے ۔ اگریہ کہا جائے کہ امان اللہ خان ریاست کی وحدت اور یکجہتی کی علامت تھے تو یہ درست ہوگا۔ آج ریاست میں ایسی کوئی شخصیت موجود نہیں جس کی جڑیں آزادکشمیر مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان میں یکساں طورپر موجود ہوں ۔ بدقسمتی سے گزشتہ نصف صدی کے دورن آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے شہریوں کو ایک دوسرے سے دور رکھا گیا جس کے نتیجہ میں دونوں خطوں کے عوام کے ذہنوں میں مختلف طرح کی سوچ نے جگہ لی۔ گلگت بلتستان کے لوگ پاکستان کا صوبہ بننا چاہتے ہیں جبکہ کہ آزادکشمیر کے لوگ ایک مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ان دونوں خطوں کی یکجہتی کانام امان اللہ خان ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا آزاد کشمیر کی ساری سیاسی قیادت امان اللہ خان کے سفر آخرت میں شرکت کے لیے گلگت بلتستان جا تی اور تاہم یہ اعزاز جناب سردار عتیق احمد خان کے حصے میں ہی آیا۔ عتیق احمد خان نے امان اللہ خان کے جنازہ کے ساتھ گلگت بلتستان جا کر آزادکشمیر کی عوام کی بھرپور نمائندگی کی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آزادکشمیر میں امان اللہ خان کے نام کی یادگار قائم کی جائے، کشمیر کی یکجہتی کے لیے ان کی خدمات سے نوجوان نسل کو آگاہ کرنے کے لیے تعلیمی نصاب میں بھی مواد ہونا چاہیے۔امان اللہ خان نے 1994میں لائن آف کنٹرول توڑنے کی اپیل اس لیے کی تھی کہ وہ ریاست کے سینے میں کھینچی خونی لکیر کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ کشمیر ایک وحدت ہے اور کشمیر کے حصے سے کوئی بھی شہری ریاست کے دوسرے حصے میں جانے کا حق رکھتا ہے نوے کی دھائی میں مقبوضہ کشمیر میں عسکری تحریک کے جواب میں بھارتی فورسز نے شہریوں پر مظالم میں اضافہ کر دیا تھا۔ امان اللہ خان کنٹرول لائن توڑ کر اپنے بھائیوں کی دل جوہی کرنا چاہتے تھے۔ یہ وہ دن تھے جب لبریشن فرنٹ کا کشمیر میں عسکری کردار موجود تھا۔ یہ درست ہے کہ کشمیر میں بیرونی عناصر کی مداخلت نے حالات خراب کیے شاید یہی وجہ ہے کہ کشمیر کی تحریک پر دہشت گردی کا لیبل چسپانے کی کوشش کی گئی تاہم امان اللہ خان کی طرف سے کنٹرول لائن توڑنے کی کال کی وجہ یہ نہیں تھی ۔جو لوگ امان اللہ خان کی طرف سے کشمیر کی مذہبی اور دینی جماعتوں کے ساتھ الائنس بنانے کے خلاف ہیں وہ حالات وواقعات کا درست تجزیہ نہیں کررہے۔ امان اللہ خان تحریک حق خودارادیت نامی اس الائنس کا حصہ بھی تھے جس میں مسلم کانفرنس اور جماعت اسلامی بھی شامل تھی ۔جو لوگ بھارت کے اس پراپگنڈے سے متاثر ہیں کہ کشمیر میں مذہبی اور دینی جماعتوں نے حالات خراب کیے انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے۔ امان اللہ خان اسلام کے نام والی جماعتوں سے اتحاد نہ کرتے توکیا وہ بی جے پی سے اتحاد کرتے؟ کیا وہ یہودیوں کی کوئی جماعت تلاش کرتے جس کے ساتھ مل کر وہ کشمیر کی قومی آزادی کے تحریک کو آگے بڑھاتے؟ ہاں یہ ضرور ہے کہ ریاست میں دوسرے مذہب کے مانے والوں کے مذہبی حقوق کا بھرپور احترام ہونا چاہیے ۔ انہیں اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ کشمیری پنڈتوں کو اس حق سے مسلمانوں نے نہیں روکا بلکہ پنڈتوںنے اس وقت کے گورنر جگموہن کی سازش کے نتیجہ میں کشمیر کی تحریک کو فرقہ ورانہ رنگ دینے کے لیے کشمیر سے فرار ہونے کا راستہ تلاش کیا تھا ۔ کئی پنڈت رہنمائوں نے بعد میں اس سازش کا پردہ فاش بھی کیا تھا ۔ پنڈتوں کے فرار کو ہجرت کا نام دے کر جموں میں مسلمانوں کے قتل عام اور بڑی تعداد میں مسلمانوں کی ہجرت کے واقعہ کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ویسے جموں وکشمیر کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی کو فرنٹ کے ہاتھوںاپنی بہن ربعیہ سعید کے اغوا پر ابھی بھی غصہ آرہا ہے۔ 27 اپریل کو سری نگر میں امان اللہ کی غائبانہ نماز جنازہ پر پابندی کا فیصلہ اسی تناظر میں تھا۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 50605 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More