پانامہ لیکس ۔کیا ہوا‘ اور کیا ہوگا؟
(Sohail Ahmad Mughal, Lahore)
موزیک فانسیکا 1977 ء میں پانامہ میں قائم
ہونیوالی ایک ایسی لاء فرم ہے جو امیروں کیلئے ایسی کمپنیاں بناتی ہے جہاں
وہ اپنا چوری اور لوٹ مار کا پیسہ چھپا سکیں، اس فرم نے دنیا بھر میں اپنا
بزنس پھیلا رکھا ہے اور سالانہ فیس لیکر لوگوں کے مالی معاملات کی دیکھ
بھال کرتی ہے اس فرم کی ویب سائیٹ پر بیالیس ممالک میں 6 سو سے زائد لوگ
کام کرتے ہیں ۔یہ دنیا کی چوتھی بڑی آف شور سروسز فراہم کرنیوالی فرم ہے اس
کی نصف کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔تین ہفتے قبل پانامہ لیکس کے نام سے ایک کروڑ
پانچ لاکھ ایسے انتہائی خفیہ دستاویزات جاری ہوئے جس سے دنیا بھر کے کئی
طاقتورافراد، بزنس ٹائیکونز اور سیاسی و حکومتی شخصیات کے مالی معاملات جن
میں ٹیکس چوری، کرپشن اور قومی خزانوں سے لوٹی گئی دولت سمیت کئی معاملات
سے پردہ اٹھ گیا ۔ پانامہ لیکس کو خفیہ دستاویزات کا اب تک کا سب سے بڑا
انکشاف کہا جاسکتا ہے ۔ پانامہ لیکس میں وزیراعظم پاکستان کے بیٹوں حسن،
حسین اور بیٹی مریم نواز ، سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو، مسلم لیگ کے سربراہ
چوہدری شجاعت حسین، سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ ، سابق وزیر داخلہ
رحمان ملک، سینیٹر عثمان سیف اللہ، جاوید پاشا، شوکت ترین، وسیم گلزار، زین
سکھیرا سمیت پاکستان کی کئی شخصیات کے نام شامل ہیں ۔پانامہ پیپرز کے مطابق
شریف خاندان نہ صرف کئی آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں بلکہ لندن میں مہنگی
ترین جائیدادیں بھی خرید رکھی ہیں ۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پانامہ
پیپرز میں تمام الزامات مکمل ثبوت کیساتھ درج کیے گئے ہیں لیکن تین ہفتے
گزرنے کے باوجود پاکستان میں چوہدری شجاعت حسین کے’’مٹی پاؤ‘‘ فارمولا پر
عمل پیرا حکمرانوں نے تاحال کوئی بااختیار کمیشن یا انکوائری کمیٹی تشکیل
نہیں دی بلکہ چند نام نہاد کمیشن قائم کرنے کے اعلانات ضرور سننے میں آئے
جنہیں اپوزیشن جماعتوں نے مسترد کردیا ۔ دراصل من پسند افراد پر مشتمل ایسے
کمیشن ہمارے ملک میں سیاستدانوں کی کرپشن اور لوٹ مار کو جائز قرار دینے
اور انہیں گرین چٹ دینے کیلئے ہی قائم کیے جاتے ہیں۔پانامہ لیکس پر بھی
ایسے ہی کمیشن کے ذریعے حکمران گرین چٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ ایک
عالمی سطح کا ایسا سکینڈل ہے جس نے تمام ثبوت پہلے سے ہی پوری دنیا کے
سامنے رکھ دئیے ہیں ۔ یوں تو ہمارے ملک میں ہر روز ایک نیا موضوع جنم لیتا
ہے اور پھر ہر ڈرائنگ روم، دفتر اور دوستوں کی محافل میں اس ہی موضوع پر بے
لاگ تبصرے اور تجزئیے ہوتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اگلے ہی روز پچھلا موضوع
بغیر کسی نتیجہ کے دم توڑجاتا ہے اورکوئی نیا موضوع اسکی جگہ لے لیتا ہے
لیکن پانامہ لیکس پر جو دنیا بھر میں ایک ہنگامہ برپا ہے اس سے یہ بات واضح
ہے کہ یہ معاملہ عالمی سطح پر تو وقت کیساتھ ساتھ ٹھنڈا ہونے والا نہیں
البتہ پاکستان میں سابقہ روایت برقرار رکھتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ
پاکستانی عوام، سیاستدان اور میڈیاکو کوئی نیا موضوع مل جائے گا ۔لیکن قوم
کے ذہنوں پر یہ سوال بھی اپنی جگہ سوار ہے کہ کیا ایک ایسے شخص کو وزیراعظم
بننے کا حق حاصل ہے جس پر اسکے خاندان سمیت کرپشن، بدعنوانیوں، ٹیکس چوری
جیسے الزامات عائد ہوں ۔ یہاں اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو نواز شریف پر
اس سے قبل بھی دو مرتبہ برا وقت آچکا ہے ۔ پہلی مرتبہ 1993ء میں جب نواز
شریف کے غلام اسحاق خان کیساتھ اختلافات ہوئے اور اس قدر شدت اختیار کرگئے
کہ جنرل عبدالوحید کاکڑ کو مداخلت کرکے نواز شریف سے استعفیٰ لینا پڑا ۔اس
کے بعد دوسرا برا وقت وہ تھا جب 1999 ء میں جنرل پرویز مشرف نے حکومت پر
قبضہ کرلیا اور شریف برادران کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا ۔ لیکن
یاد رہے ان دونوں واقعات میں ان کے یا انکے خاندان کے کسی فرد پر کرپشن،
بدعنوانی اور ملکی دولت لوٹنے کے کوئی ٹھوس الزامات نہیں تھے اسی وجہ سے وہ
سابقہ دونوں واقعات میں نہ صرف سرخرو ہوئے بلکہ عوام کی ہمدردیاں بھی ان
کیساتھ رہی۔ لیکن اب میاں صاحب اور ان کا پورا خاندان پانامہ لیکس سیکنڈل
میں بڑی طرح پھنس چکا ہے اور ان کے خاندان کے خلاف تمام ثبوت عوام کے
ہاتھوں میں ہیں۔اسی طرح موجودہ دور حکومت کے دوران پونے تین سال بھی انہیں
کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جن میں سب سے بڑا چیلنج تحریک انصاف کا طویل
دھرنا تھا لیکن اسوقت دوسری تمام جماعتیں نوازشریف کا سہارا بن کر کھڑی
ہوگئی لیکن پانامہ لیکس کے معاملے میں وہی سیاسی جماعتیں جو پچھلی مرتبہ ان
کا سہارا بن گئی تھی اب شریف خاندان کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں
۔پانامہ لیکس پر پوری دنیا میں عملی تحقیقات اور استعفوں کا سلسلہ شروع
ہوچکا ہے جس کا آغاز سب سے پہلے پانامہ پیپرز میں نام آنے کے بعد عوامی
احتجاج کے نتیجے میں آئس لینڈ کے وزیراعظم نے استعفیٰ دیکر کیا ۔ اس کے
علاوہ مختلف ممالک کے کئی وزراء بھی مستعفی ہوچکے ہیں ۔ لیکن پاکستان میں
ابھی تک نام نہاد کمیشن کی آڑ میں چھپنے اور ایسے من پسند افراد پر مشتمل
کمیشن تشکیل دئیے جانے کی کوششیں کی جارہی ہیں جو انکے ہم پیالہ و ہم نوالہ
ہیں اور جو کسی صورت کرپشن ثابت نہیں ہونے دیں گے۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ
مجھے نہیں لگتا جو 160 ارب ڈالر سے زائد پیسہ لوٹ کر باہر لے جایا گیا ہے
ان میں سے ایک روپیہ بھی ملک میں واپس آسکے گا کیونکہ بد قسمتی سے ہمارے
ملک میں قوانین ہی ایسے بنائے گئے ہیں لیکن یہ ضرور نظر آرہاہے کہ اب عوام
بھی لٹیرے ، کرپٹ اور بدعنوان سیاستدانوں اور حکمرانوں کے احتساب میں کسی
حد تک سنجیدہ ہوچکی ہے اور اگر تحریک انصاف و دیگر جماعتوں نے احتجاج شروع
کیا تو سول سوسائٹی اس احتجاجی مہم کا حصہ بن جائے گی ۔ اس سے پہلے کہ عوام
سڑکوں پر نکل آئے نواز شریف کو چاہیے کہ اپنی ہی پارٹی سے کسی باکردار
رہنماء کو وزیراعظم بنا کر خود اپنے خاندان سمیت اقتدار سے الگ ہوکر خود کو
احتساب کیلئے پیش کردیں ۔اگر وہ سرخرو ہوگئے تو یقیناًپہلے سے زیادہ عوامی
مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ |
|