پانامہ دستاویزات اور وزیراعظم کا مستقبل

کوئی مانے نہ مانے ،خاکسار کی رائے یہ ہے کہ پانامہ لیکس سے متعلق تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن کے معاملے پر وزیراعظم نے اپوزیشن کو ’’ سجی دکھا کے کھبی ماری‘‘ ہے۔ میری ذاتی رائے میں وزیر اعظم کو اس معاملے پر قوم سے تین تو کیا ایک بھی خطاب نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن ظاہر ہے وزیراعظم نے ایسا کیا ہے تو ان کی نظر میں اس کی کچھ وجوہات بھی رہی ہوں گی۔جب وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن کی بات کی تو عمران خان کے فوری ردعمل پر ہی مجھے یہ گمان ہوا تھا کہ حکومت دوہزار تیرہ کے الیکشن کی طرح اس بار بھی سپریم کورٹ کو خط لکھ دے گی ۔لیکن تب میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات شائد کوئی سیاسی جماعت بھی نہیں چاہتی ۔ اسی لئے تحقیقات سے زیادہ زور وزیراعظم کے استعفے پر دیا جا رہا ہے۔خورشید شاہ تو صرف کمیشن کے ٹی او آرز پر مذاکرات چاہتے ہیں لیکن عمران خان کہتے ہیں کہ وزیراعظم کا کمیشن ہی قبول نہیں ۔اب مشکل یہ ہے کہ اور کسی کے پاس یہ کمیشن قائم کرنے کا اختیارہی موجود نہیں اس لئے عمران خان کو گزشتہ دھرنے کے بعد کے مذاکرات کی طرح اس بار بھی مذاکرات ہی کرنا ہوں گے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے پاس وہ چابی موجود ہے جس سے کمیشن کے ٹی او آرز پر اتفاق رائے کا دروازہ جلد کھل جائے گا۔لیکن وزیراعظم نے کمیشن کے ’’نہلے ‘‘پر قرضے معاف کرانے والوں کی تحقیقات کا جو ’’دہلا ‘‘پھینکا ہے اس نے بہت سے سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچا دی ہے۔اصل مسئلہ کمیشن کی تشکیل ، اس کے اختیارات یا فرانزک آڈ ٹ کا نہیں ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ACROSS THE BOARDتحقیقات اور قرضے معاف کرانے والوں کے نام سامنے آنے سے بہت سے لوگ مصیبت میں پھنس جائیں گے ۔ اسی لئے حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کو کمیشن کی تشکیل کے لئے لکھے گئے خط کے بعد حکومتی اعتماد میں اضافہ اور اپوزیشن کے لب و لہجے میں کمزوری صاف دیکھی جاسکتی ہے۔صرف وزیراعظم اور ان کے اہلخانہ کے بارے میں تحقیقات بارے عمران خان کا مطالبہ نہ تو اخلاقی طور پر درست ہے اور نہ ہی اس میں سیاسی طور پر اتنا وزن ہے کہ اس کو ہر سطح پر تسلیم کیا جاسکے اور اب تو ویسے بھی آئی سی آئی جے بھی یہ تسلیم کر چکا ہے کہ پانامہ دستاویزات میں وزیر اعظم کا نام غلطی سے شامل کیا گیا ۔لیکن مجھے یہ بات اتنی سادہ لگتی نہیں اسی لئے خاکسار نے اپنے ایک کالم میں آئی سی آئی جے کے سپانسرز اور ان کے مقاصد کی طرف توجہ دینے کی ضرورت پر زوردیا تھا۔

کسی دوسرے کی اہمیت یا مؤقف تسلیم کرنا عمران خان کے مزاج میں نہیں ،اسی رویے کی وجہ سے ان کو جوڑنے کی بجائے توڑنے والا سیاستدان کہا جاتا ہے۔عمران خان کا رویہ اس ناخواندہ مولوی کی طرح ہے جوخود کو دین حق کا پکا سچا پیروکار اور باقی ساری دنیا کو گستاخ اور کافر سمجھتا ہے۔ایک عجیب بات یہ ہوئی ہے کہ تحریک انصاف نے شدید موسم کے باوجودسندھ اورپنجاب میں جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔پنجاب میں تو وہ صوبائی یا وفاقی حکومت کو دل کھول کر تنقید کا نشانہ بنا سکتے ہیں لیکن سندھ میں ان کاسیاسی چورن بکتا نظر نہیں آرہا۔کل تک جس پیپلزپارٹی میں تحریک انصاف کو ہزار برائیاں نظر آتی تھی تحریک انصاف کے رہنما اگراس پر تنقید نہیں کریں گے تواسے مک مکا سمجھا جائے گا اورحسب معمول پیپلزپارٹی پر تنقید کی صورت میں متحدہ اپوزیشن کا خواب چکنا چور ہو جائے گا یعنی دونوں صورتوں میں تحریک انصاف کو یہ سودا گھاٹے میں ہی پڑے گا۔لال حویلی والے شیخ صاحب کی توبھرپور کوشش ہے کہ وہ پی ٹی آئی او رپیپلزپارٹی میں مفاہمت کرادیں لیکن یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آرہی ۔تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ پیپلزپارٹی کو اس شیخ رشید کی لال حویلی میں حاضری دینی پڑی جس نے بی بی کے بارے میں اس قدر توہین آمیز کلمات کہے تھے کہ پیپلز پارٹی نے مجبور ہوکر شیخ رشید کو کلاشنکوف کیس میں جیل بھجوادیا تھا۔ ویسے اپوزیشن جماعتیں جن چار نکات پر متفق ہوئی ہیں وہ بھی ایک لطیفے سے کم نہیں ہیں۔ معلوم نہیں یہ کس ذہن کی پیداوار ہیں لیکن اگر ان پر من و عن عمل کیا جائے یا حکومت کچھ تبدیلیوں کے ساتھ ان چار نکات کو تسلیم کر لے جس کا واضح امکان موجود ہے تو بھی حزب اختلاف کا وزیرا عظم کی کرسی چھیننے کا مقصد فوت ہو جائے گا ۔ ان میں سب سے دلچسپ نکتہ کمیشن کی تشکیل کے لئے آرڈیننس کا نفاذ اور پھر اس کی پارلیمنٹ سے منظوری ہے۔ پارلیمانی رپورٹنگ سے وابستہ صحافی جانتے ہیں کہ آرڈیننس کے مسودے کی حزب اختلاف کے اتفاق رائے سے منظوری میں ہی اتنا وقت لگ جائے گا کہ پانامہ لیکس کا معاملہ بڑی حد تک ٹھنڈ اہو جائے گا لیکن جس بات پر حکومت کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی وہ ہےACROSS THE BOARD یہ ہی وہ نقطہ ہے جس میں اپوزیشن کے طوطے کی جان ہے ۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ پانامہ دستاویزات کی پہلی قسط پر شور مچانے والے ذرا سوچ لیں دوسری قسط میں اور بھی پردہ نشینوں کے چہرے بے نقاب ہوں گے ،یہ خبر آچکی ہے کہ 9مئی کو پانامہ دستاویزات کی دوسری قسط منظر عام پر آئے گی ۔ پھر پانامہ دستاویزت کے بعد قرضے معاف کرانے والے غریبوں کی باری بھی آئے گی اور سب جانتے ہیں کہ وطن عزیز کے یہ غریب کس قدر طاقتور ہیں۔سندھ کی صورت حال کے پیش نظر پیپلز پارٹی وزیراعظم کو دباؤ میں ضرور رکھنا چاہتی ہے لیکن نظام کوکسی بھی خطرے سے دوچار کرنے کی حمایت وہ نہیں کر سکتی۔یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس پر پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف الگ رائے رکھتی ہیں۔

ان حالات میں جن یار لوگوں نے ان ہاؤس تبدیلی یا وزیراعظم کو گھر بجھوانے کے خواب بنے ہیں مجھے تو ان کی تعبیر الٹ ہی نظر آرہی ہے۔قومی یا بین الاقوامی سطح پر کسی نگران کے لئے بھی ماحول سازگار نظر نہیں آرہا۔ ہوسکتا ہے میرے اس کالم سے آپ مجھے ن لیگ کا حمایتی سمجھیں لیکن میر ا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ مسلم لیگ کے سارے کے سارے رہنما پوتر ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ سیاسی حقائق کسی کی خواہش کے زیر اثر تبدیل نہیں ہو سکتے ۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ رائے ونڈ کا گھیراؤ کر کے وہ میاں نواز شریف سے استعفیٰ لے سکتا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں بستا ہے ۔ جس شخص نے باوردی جرنیلوں کی بندوق کنپٹی پر ہونے کے باجود استعفیٰ نہیں دیا اس کے بارے میں ایسی رائے قائم کرنا شائد درست نہیں ۔

خاکسار کی رائے یہ ہے کہ اپوزیشن کے دو مئی کے مشترکہ اجلاس سے بھی یہ معاملہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس کا آخری حل اپوزیشن کے اتفاق رائے سے کمیشن کے ٹی او آرز کی تشکیل ہو گا اور اس کے بعد راوی چین لکھے گا۔نہ تو ان ہاؤس تبدیلی آئے گی نہ مڈٹرم الیکشن ہوں گے اور نہ ہی مارشل لا ء کا کوئی امکان ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اپنی پانچ سالہ مدت پوری کریں گے۔ خاکسار کی رائے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن دوہزار اٹھارہ کے انتخابات سے پہلے اگر دہشتگردی مزید کم ہوگئی ، لوڈ شیڈنگ پر قابو پالیاگیا، موٹرویز کے منصوبے مقررہ مدت میں پورے ہوگئے ،اقتصادی راہداری کی تعمیر بھی منصوبے کے مطابق جاری رہی اور عوام کی معاشی حالت میں کچھ بہتری پیدا ہوگئی تو آئندہ انتخابات میں بھی مسلم لیگ ن کو اکثریتی جماعت بننے سے روکنا کافی مشکل ہوگا۔
واﷲ عالم باالصواب
Khawaja Kaleem
About the Author: Khawaja Kaleem Read More Articles by Khawaja Kaleem: 46 Articles with 33118 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.