کچن یا صوفہ کابینہ!
(Anwar Graywal, Bahawalpur)
کچن کابینہ کا نام نہ جانے کس نے
ایجاد کیا ہے، ممکن ہے وزیراعظم یا چند وزیر بیٹھ کر کچھ گپ شپ کرتے ہوں
اور کھانا وغیرہ کھاتے ہوں اور محفل کے برخاست ہونے تک ملک کے اندرونی اور
بیرونی معاملات پر غور ہو چکا ہوتا ہو، ملک کو کیسے چلانا ہے، دنیا کے ساتھ
معاملہ کیسے کرنا ہے، اپوزیشن کو قابو کس طرح کرنا ہے اور اپنی مقبولیت میں
اضافہ کا کیا بندوبست کرنا ہے؟ یہ سب کچھ میٹنگ کے آخر تک مکمل ہو چکا ہوتا
ہے۔ جب چند بڑے حکومتی لوگ اکٹھے ہوتے ہیں تو کھانا پینا تو ایک لازمی جزو
ہے۔ کسی بھی کابینہ کے مختصر مگر خاص لوگوں کے باہم مشورے کو ہی کچن کابینہ
کے معروف نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تاہم اندر کی کہانی کبھی سامنے نہیں آئی
کہ آیا یہ لوگ کچن کے معاملات میں بھی گفتگو کرتے ہیں یا نہیں، گھر میں کیا
پکتا ہے، کون پکاتا ہے، کون کون سی ڈش گھر میں زیادہ پسند کی جاتی ہے؟
وغیرہ وغیرہ۔ اس ضمن میں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اپنے حکمران کھانے
پینے کا خاص شغف رکھتے ہیں، وہ اپنی پسند کی چیزیں دور دور سے منگواتے اور
اپنے لذتِ کام ودہن کا اہتمام کرتے ہیں، ایسے معاملات میں اگر جہاز وغیرہ
بھی استعمال کرنا پڑ جاتاہے تو کوئی حیرت کا مقام نہیں۔ اس لئے کچن کابینہ
کا نام صرف کچن کے نام پر ہی بدنام نہیں بلکہ عملی طور پر اجلاسوں میں کچن
کا عمل دخل بہت زیادہ ہوتا ہے۔
اب ایک اور اصطلاح سامنے آئی ہے، اسے ’’صوفہ کابینہ‘‘ کہا گیا ہے، اس سے
قبل ڈرائینگ روم سیاست کا ذکر ہوتا تھا، لوگ ٹھنڈے ڈرائینگ رومز میں بیٹھ
کر قوم کے مقدر کے فیصلے کرتے تھے، ایسے اجلاس پر ہمیشہ تنقید کی جاتی ہے۔
تاہم صوفہ کابینہ کوئی خاص اور نئی اصطلاح نہیں، شاید یہ نام مغرب سے چرایا
گیا ہے، کہ برطانیہ میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے اور ہورہا ہے۔ پاکستان میں
کابینہ کے اجلاس کے لئے کوئی تاریخ وغیرہ مقرر نہیں ہوتی، جب کسی اہم ایشو
نے سر اٹھایا اور حکومت نے مشاورت کی ضرورت سمجھی تو کابینہ کا اجلاس طلب
ہوگیا، عموماً ایسے اجلاس کثیر المقاصد نہیں ہوتے۔ مگر جب دارو مدار مختصر
دوستوں پر ہونے لگے، تو بات کچن کابینہ تک پہنچ جاتی ہے، کابینہ کے اجلاس
کی ضرورت نہیں رہتی۔ اگر پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو اپنے ہاں بھی یہی حال
ہے، چار ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر کابینہ اپنے اجلاس کے بغیرہی
چل رہی تھی، پاناما لیکس کا دھماکہ ہوا تو وزیراعظم کی طبیعت پر پہلے تو
بہت گراں گزرا، انہوں نے معاملہ کو دل پر لے لیا، اور لندن اپنے میڈیکل چیک
اپ (خرابی کی صورت میں علاج) کروانے تشریف لے گئے۔ واپسی پر انہوں نے دوسرا
کام یہ کیا کہ کسی مشیر کے مشورے پر قوم سے خطاب بھی دے مارا،جس میں ایسے
سوالات بھی اٹھائے جو اپوزیشن والوں کو اٹھانے چاہئیں تھے۔ تیسرا اہم کام
یہ کیا کہ اپوزیشن کی تقلید میں جلسوں وغیرہ کا اہتمام بھی ہورہا ہے، اور
سب سے اہم اور خاص کام یہ کیا کہ کابینہ کا اجلاس طلب کرلیا جسے طلب ہوئے
مہینوں گزر چکے تھے۔
اپنے ہاں کابینہ، ممبرانِ اسمبلی اور پارٹی کے عہدیداران کی قسمت اس وقت
کُھلتی ہے، جب حکومت کسی گرداب میں الجھ جاتی ہے، جب تک راوی چین لکھ رہا
ہوتا ہے، اس وقت تک کسی کی کوئی فکر نہیں ہوتی، جونہی مشکل وقت آیا معاملہ
الٹ ہوگیا۔ گزشتہ برس جب تحریک انصاف نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا، تو
وزیراعظم ایک سال کے ریکارڈ وقفے کے بعد ایوان بالا تشریف لے گئے، انہوں نے
ایوان کا مشترکہ اجلا طلب کیا اور اجلاس میں آنا بھی شروع کردیا، اپنے دفتر
میں وزراء اور ارکان اسمبلی سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ کہا گیا
ہے کہ بہت سے معاملات ایسے آتے رہتے ہیں، جن کے بحران کے موقع پر کابینہ کا
اجلاس بلایا جانا ضروری تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا، کابینہ کے معزز ارکان
سے مشورے لینے کا موقع ضائع کر دیا جاتا ہے۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار
نہیں کہ اپنے معزز ارکانِ کابینہ میں ہیں بھی چند لوگ جو مشورہ دے سکتے ہیں،
ورنہ اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہر قسم کے فیصلے پر تائید ہی کرنا
ہوتی ہے، یہی ان کی ڈیوٹی ہے ، وہ اس سے رائی بھر روگردانی نہیں کرسکتے۔
اگر کابینہ کا اجلاس نہیں بلایا جاتا تو ممبران کو اس بات کا علم تو ہوتا
ہے کہ ملک (بلکہ حکومت) کن مسائل سے دو چار ہے اور اس کے حق میں بیانات کا
کس طرح سلسلہ جاری کرنا ہے، کہ سننے اور دیکھنے والے دنگ رہ جائیں۔ جب
کابینہ ارکان کی کوئی رائے ہی نہیں، تو اجلاس کی کیا ضرورت؟
|
|