کراچی میں مصطفی کمال شو
(Syed Anwer Mahmood, Karachi)
کراچی جس کی آبادی تقریباً دو کروڑ نفوس پر مشتمل ہے ، اور اس کے بے انتہا مسائل بھی ہیں، اس سیاسی پس منظر میں اور اتنے قلیل عرصے میں پاک سرزمین پارٹی کے اس جلسے کو ایک اچھی سیاسی سرگرمی قرار دیا جاسکتا ہےلیکن اس جلسے کو کوئی بڑا شو نہیں کہا جاسکتا |
|
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے
علیحدگی کے بعد سابق ناظم کراچی سید مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے
اپنی تین سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے تین مارچ کو کراچی میں ایک پریس
کانفرنس کرکے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا، جس کے بعد انھوں نے اپنی
جماعت کا نام پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) رکھا۔ اتوار 24 اپریل 2016ء کو
مزارقائد سے متصل جناح گراؤنڈ میں پاک سرزمین پارٹی کا پہلا جلسہ عام تھا
جس کو ہم مصطفی کمال شو کا نام بھی دے سکتے ہیں۔مصطفی کمال نے تین ہفتے
پہلے اس جلسے کا اعلان کیا تھا، اس جلسے کا بنیادی مقصداپنے آپ کو عوام
میں روشناس کرانا اورایم کیو ایم اور اس کے رہنما کو اپنی طاقت کا مظاہرہ
کرنے کے علاوہ یہ بھی باور کرانا تھا کہ کراچی کے حالات اب اس طرح نہیں
چلیں گے جیسے گذشتہ تین دہایوں سے چل رہے ہیں۔اس جلسے کی تیاریاں ایک ہفتے
سے کی جارہی تھی، عوام کی توجہ حاصل کرنے کےلیےایک روز پہلے فیملی فیسٹیول
کا انعقاد بھی کیا گیا اور میوزیکل کانسرٹ میں خواتین اور نوجوانوں کی بڑی
تعداد بھی شریک ہوئی۔ اس جلسے کے شرکا میں سے کئی لوگ اپنی فیملی کے ساتھ
آئے تھے۔ شوہر کی ہمت افزائی کے لیے مصطفیٰ کمال کی بیگم سائرہ مصطفیٰ کمال
بھی موجود تھیں۔ جلسہ گاہ میں ہزاروں کی تعداد میں کرسیاں لگائی گئیں تھیں
لیکن یہ مکمل طور پر نہیں بھرسکیں۔
پاک سرزمین پارٹی کے ایک رہنما وسیم آفتاب نے جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے
کہا کہ پاکستان کے مستقبل کی ضمانت کراچی ہے، کراچی کے عوام نے اپنا فرض
نبھادیا، پاک سرزمین ہر ملک دشمن کیلئے تنگ کردی جائیگی، ہم چاہتے ہیں کہ
کراچی سے خوف کا بت پاش پاش ہو جائے، حکومت ’را‘ کے ایجنٹوں کے خلاف
کارروائی کرے، آج مستحکم قدم نہ اٹھایا تو عوام ’را‘ کے ایجنٹوں کو باہر
نکال دینگے، بچوں کو یتیم کرنے اور عورتوں کو بیوہ کرنے کی سازش کا خاتمہ
کرنا ہوگا۔ پارٹی کے رہنما انیس قائم خانی نے کہا کہ پاکستانی جھنڈے کی
طاقت کے باعث آج لاکھوں کا مجمع یہاں جمع ہے، ملک بھر میں پاک سرزمین پارٹی
کے جلسے ہونگے ملک کے چپے چپے میں پاکستانی پرچم لہرایا جائے گا۔ مصطفیٰ
کمال نے محبت کرنا سکھایا ہے، انہوں نے ایم کیو ایم کو کہا کہ تم بھی
بھارتی پرچم چھوڑ کر پاکستانی پرچم تھام لو، اب ڈرامے کرنا اور ماؤں بہنوں
کے پیچھے چھپنا بند کرو۔ ہم قوم کو دوبارہ باصلاحیت بنانے کا عزم پورا
کرینگے۔کراچی کے بعد لاہور، کوئٹہ، پشاور اور دیگر شہروں میں بھی جلسے کریں
گے، ایم کیو ایم کی وکٹیں گرانے کا سلسلہ بھی جاری رکھیں گے۔
سابق ناظم کراچی اور پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ سید مصطفی کمال جو تین
مارچ کے بعد سے مسلسل ایم کیو ایم کےقائد الطاف حسین کو اپنی تنقید کا
نشانا بنارہے ہیں، پارٹی کے پہلے جلسے میں انہوں نے الطاف حسین اور ایم کیو
ایم کے خلاف بات کرنے کے علاوہ ملکی مسائل پر بھی بات کی۔ اپنے مخالفین کو
مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج سے کوئی کسی کی جان نہ لے۔ اس شہر کے
لوگوں کو موبائل چھیننے والے، بھتہ خور، ٹارگٹ کلرز اور نہ جانے کیا کیا
نام دیئے گئے۔ اس شہر کے ماتھے پر گندگی لگا دی گئی۔ کراچی پاکستان کا گیٹ
وے ہے، یہ شہر بزنس کا مرکز ہے، یہ شہر ریونیو دیتا ہے۔ کسی پارٹی نے شہر
کے مسائل کی بات نہیں کی۔ یہاں پر تعلیم پھیلانے کی بات نہیں کی۔ یہاں کے
لوگوں کو پانی اور صحت کی بات نہیں کی۔ ہم کراچی کو خوبصورت بنائیں گے۔
یہاں کوئی سندھی، بلوچی، مہاجر پٹھان دست و گریبان نہیں ہوگا۔ یہ شہر امن
کا شہر ہوگا۔ یہاں امن پسند لوگ پیدا ہوں گے۔ ہم اس شہر کو منی پاکستان
بنائیں گے وہ وقت قریب ہے جب یہ شہر ’’را‘‘ کے ایجنٹوں کا نہیں بلکہ محب
وطن لوگوں کا ہوگا۔
مصطفیٰ کمال نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہم ایسی جمہوریت کو
نہیں مانتے جو صرف اسلام آباد، لاہور، کوئٹہ، پشاور اور کراچی کے ایوانوں
تک محدود ہو ۔ جو پانی کا مسئلہ بھی حل نہ کر سکے اسے حکمرانی کا حق نہیں۔
اگر آپ مجھے پانی کا اختیار نہیں دے سکتے تو میں ایسی جمہوریت کو نہیں
مانتا۔ جمہوری نظام گلیوں، محلوں میں آنا چاہیے۔ تمام مسائل حل کرنے کیلئے
دنیا بھر میں نظام مقامی لوگوں کو اختیار دینا ہے۔ مقامی یونین کونسلوں کو
اختیار دیئے بغیر کوئی جمہوریت نہیں پنپ سکتی۔ مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ
اگر آپ عام آدمی کو یہ اختیار نہیں دے سکتے تو حب الوطنی کا مطالبہ بھی
نہیں کرسکتے۔ آرمی اور رینجرز کے آپریشن مسائل کا وقتی حل ہیں، اچھی
حکمرانی لانا ہوگی، عوام کو اختیارات نہ دیئے تو آپریشنز کے نتیجے میں کچھ
دیر کیلئے قائم ہونے والا امن پھر ختم ہو جائیگا۔
متحدہ قومی موومنٹ سے بغاوت کرنے والوں کا یہ پہلا جلسہ تھا، پی ایس پی
اپنے قیام کے بعد پہلا جلسہ عام کرنے میں تو کامیاب رہی لیکن ابھی اردو
بولنے والوں نے اسے ایم کیو ایم کے متبادل کے طور پر قبول نہیں کیا ہے۔ جس
کا واضع اشارہ مصطفیٰ کمال اور انکے ساتھیوں کے دعووں کے برخلاف جلسے میں
شرکا کی کم تعدادتھی۔ جلسے میں شرکت کےلیے اندرون سندھ سے قافلے آئے
ضرورمگر ان کا مقابلہ ان قافلوں سے نہیں کیا جاسکتا جو ایم کیو ایم کے
جلسوں میں شرکت کیلئے آتے رہےہیں۔دوسری قومیتوں کے افراد نے جلسے میں اتنی
ہی بڑی تعداد میں شرکت کی، جتنی وہ ایم کیو ایم کے جلسوں میں کرتے ہیں۔
جلسے میں شرکا کی تعداد کم ہونے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ جلسے میں اورپاک
سرزمین پارٹی کے قیام میں بہت تھوڑے دن کا فرق ہے، دوسرئے مصطفی کمال اور
انکے ساتھیوں نے مہاجروں کو ٹارگٹ کلر اور را کے ایجنٹ ہونے کے الزامات سے
نجات دلانے کی بات تو کی ہے لیکن ساتھ ہی وہ اپنے آپ کو صرف مہاجروں کا
نمائندہ کہلوانے کو تیار نہیں ۔
کراچی جس کی آبادی تقریباً دو کروڑ نفوس پر مشتمل ہے ، اور اس کے بے انتہا
مسائل بھی ہیں، اس سیاسی پس منظر میں اور اتنے قلیل عرصے میں پاک سرزمین
پارٹی کے اس جلسے کو ایک اچھی سیاسی سرگرمی قرار دیا جاسکتا ہےلیکن اس جلسے
کو کوئی بڑا شو نہیں کہا جاسکتا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس جلسے سے
ایم کیو ایم کا کوئی بڑا ووٹ بینک ٹوٹا ہے یہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ کراچی
کی دو کروڑ کی آبادی میں سے ہر جماعت 20 سے 25 ہزار لوگ اکٹھے کرلیتی ہے۔
دوسری طرف انکی مدمقابل ایم کیو ایم اپنے ہی پیدا کردہ مسائل کو بھگت رہی
ہے، لہذا مصطفیٰ کمال ابھی جس طرح چاہیں کھلیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ ابھی
پارٹی شروع نہیں ہوئی ہے ہاں یہ ممکن ہے کہ کل وہ ایم کیو ایم کی سیاسی
مشکلات میں اضافہ کردیں یا پھر وہ خود دوسرے آفاق احمد بن جاینگے۔ |
|