کہا جاتا ہے کہ ایک آدمی کی زندگی میں مسائل ہوتے ہیں کہ
بجلی کا بل، گیس کا بل، سی این جی کی ہڑتال، یوٹیلٹی سٹور کا بل، بچوں کی
فیسیں، بہنوں کی شادیاں وغیرہ وغیرہ مسائل ہوتے ہیں جبکہ ایک خاتون کی
زندگی کا مسئلہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دونوں آنکھوں پر لائنر برابر نہیں لگ رہا۔
خود خاتون ہونے اور کئی درجن خواتین کے ساتھ کام کرنے کے بعد میں اس نتیجے
پر پہنچی ہوں کہ خواتین کے کچھ مسائل ایسے ہیں جو کہ کسی بھی قسم کی خاتون
کسی بھی معاشی طبقے سے تعلق رکھنے والی ہو اسکو لاحق ضرور ہوتے ہیں۔
1۔ ہائے سسرالی
یہ مسئلہ خواہ خاتون بیاہہتا ہو یا نہ ہو، اسکے ساتھ موجود رہتا ہی ہے۔ کچھ
کو آںے والے وقت میں انکے ہہتھے چڑھنے کے خوف سے اور کچھ کو انکے ہتھے چڑھ
چکنے کی کوفت سے۔
یہ سچ ہے خاتون شاید لال بیگ سے بھی اتنی خار نہ کھاتی ہو جتنی کہ سسرالی
رشتے داروں سے کھاتی ہے۔
سسرالیوں کی آؤبھگت اور انکی ہر کام میں ٹانگ اڑانے کی عادت ہر خاتون کی
زندگی کا لازم و ملزوم حصہ ہیں۔
2۔ہائے مٹاپا
ہمارے ہاں کھانے کچھ اس طرح کے نوش کئے جاتے ہیں کہ وہ بھی خاصے بھاری ہوتے
ہیں اور کچھ ہمارا معاشرہ ان خاتون کو چار بچوں کی اماں نہیں مانتا جنکا
پیٹ اور ویٹ خاصا ذیادہ نہ ہو۔
یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ مٹاپا اور بڑھاپا سیاپا ہی ہوتے ہیں۔
مٹاپا جب ایک دفعہ آجائے پھر جان چھڑانا خاصا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی لئے
ٹیلیویژن پر خواتین کے لئے ایک طرف کھانے پکانے اور دوسرری طرف پتلا کرنے
والی ادویات کے اشتہارات برابر برابر چلتے رہتے ہیں کہ جو بھی اپنانا چاہیں
اپنا لیں۔
3۔ ہائے مُنے
انسان کے بچے اب انسانوں سے ذیادہ خود کو ٹرزن کے بچے ثابت کرنے کی کوشش
میں رہتے ہیں۔ ان مُنوں کو نہ انکے ابا جی کبھی پکڑنا چاہتے ہیں اور دادی
بڑھاپے کے باعث پکڑ نہیں پاتیں۔
پر یہ منے تگنی کا ناچ نچانا جانتے ہیں۔ ن سسے بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن سا
ہے۔ جب ایک دفعہ یہ زندگی میں آجائیں تو انکو کسی نہ کسی طرح خوب لمبا چوڑ
محنت کے بعد بنانا پڑتا ہے۔
اس دوران جن مراحل سے یہ گزارتے ہیں اس بات کو صرف وہی سمجھتے ہیں جو ان کو
اتنا بڑا کرتے ہیں۔ مگر ہم خواتین کو باہر جانا ہو ڈررامہ دیکھنا ہو کچھ
پکانا ہو پیکج اڑانا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی بھی کام کو تنہا نہیں کرنے دیتے۔ ہر
کام میں اپنی پھوپھیوں کی طرح ٹانگ اڑانا ضروری سمجھتے ہیں۔
4۔ ہائے مُنےکے ابا
مُنا تو جو سیر ہے سو ہے اسکا ابا سوا سیر ہے جب تک بات بات پر آواز دے دے
کر دن خراب نہ کر لیں چین نہیں لیتے۔ ویسے بھی مُنے کے ابا کے بارے میں کہا
یہی جاتا ہے کہ ساس صاحبہ جب اپنا بگڑا بچہ خود نہیں پال سکتیں تو بہو کے
حوالے کر دیتی ہیں۔
5۔ ہائے خرچے
خرچے پورے نہ پڑنے کا چرچا دن بہ دن تو بڑھتا جا رہا ہے اور خواتین کا
مسئلہ یہ ہے کے منے کے ابا نے خود تو لگا بندھا خرچا دے کر ایک طرف ہو جانا
ہوتا ہے اور پورا مہینہ اماں سولی پر لٹکی رہتی ہے۔
شادی بیاہ، دینا دلانا، کھانا کھلانا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب کام اماں جی
نے کرنے ہوتے ہیں۔
اسی لئے اماں جی خرچوں کی کمی کا رونا روتی ہیں پر مجال ہے ابا جی کان
دھریں
6۔ ہائے وقت
خواتین کے ذمے تو جتنے اور جیسے کام ہوتے ہیں اڑتاالیس گھنٹے کا دن بھی کم
پڑ جائے۔ مگر کیا کیجیے یہی تو زندگی ہے کہ صبح کا مارننگ شو اور پرائم
ٹائم کے ڈرامے نہ دیکھے جائیں تو زندگی گزرے بھلا کیسے۔
7۔ ہائے کام والی
کام والی نے جتنا تنگ معصوم خاتین کو کرنا ہوتا ہے شاید ہی کبھی کوئی اور
کرتا ہو۔ سونے کے وقت پر آنا ،شو کے ٹائم پر آنا ، بلا وجہ کی چھٹیاں
مارنا، بات بے بات مہینے کے دوران پیسے مانگنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سارے مسائل
خواتین کو اکیلے ہی حل کرنے پڑتے ہیں اور کام والیوں کے ساتھ بر سر پیکار
رہنا پڑتا ہے۔
8۔ ہائے بیماریاں
موٹاپا تو ایک بیماری ہے ہی۔۔۔۔مگر اسکے علاوہ جوڑوں کی ، گوڈوں کی، کمروں
کی کوئی نہ کوئی بیماری خواتین کو ضرور لاحق ہوتی ہے۔
اس بیماری کا سب سے بڑا فائدہ میاں جی کی توجہ حاصل کرنا اور بے وقت کے
مہمانوں کو بھگانا ہے۔
9۔ ہائے شاپنگ
یہ وہ چیز ہے جو جتنی بھی ذیادہ ہو کم ہے۔ حضرات تو ویسے بھی اس سے چڑتے
ضرور ہیں اور خواتین کرتی ضرور ہیں۔
اسی لئے آنے والے سیزن کا آدھا وقت جانے والے سیزن کی شاپنگ اور باقی آدھا
موجودہ سیزن کی شاپنگ میں گزرتا ہے۔
10۔ ہائے زندگی
یہ جتنی تنگ اور کم خواتین کو لگتی ہے۔۔۔۔ یہ ایک خاتون کا دکھ دوسری خاتون
ہی سمجھ سکتی ہے۔ |