عالمی سطح پریکم مئی مزدوروں کا دنہے۔ ایک زمانے میں جب ممبئی کے اندر ٹریڈ
یونین کا زور تھا جفاکشوں کا یہ دن بڑے زور وشور سے منایا جاتا تھا لیکن اب
وہ ماضی کا ایک بھیانک خواب بن گیا ہے۔ ملک میں جب لسانی بنیادوں پر صوبوں
کی تنظیم نوکا کام شروع ہوا تو مہاراشٹر نام کی کسی ریاست کا وجود نہیں تھا۔
مرکزی صوبے یعنی سینٹرل پروونس سے۸، نظام کی ریاست سے ۵،ممبئی اسٹیٹ سے گوا
اور دمن کے درمیان کا علاقہ اور کچھ دیگر غیر منسلک راجواڑوں کو جوڑ کر
مراٹھی زبان بولنے کا ایک صوبہ بنایا گیالیکن ممبئی کو لے کرتنازعہ پیدا
ہوگیا ۔ پنڈت نہرو چاہتے تھے کہ ممبئی چونکہ ملک کی معاشی راجدھانی ہے اس
لئےاسے مہاراشٹر میں شامل کرنے کے بجائے مرکز کے تحت یونین ٹیریٹری میں
رکھا جائے۔ یہ حسن اتفاق ہےکہ نہرو جی کی رائے سے اختلاف کسی اور نہیں بلکہ
ان کے وزیرخزانہ سی ڈی دیشمکھ نے کیا۔ وہ نہ صرف معروف ماہرمعاشیات تھے
بلکہ انگریزوں کے زمانے میں ریزرو بنک کے گورنر بھی رہ چکے تھے۔ دیشمکھ
صاحب کا احتجاج اس قدر شدید تھا کہ انہوں نے اپنےاہم ترین عہدے سےاستعفیٰ
دے دیا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ دیشمکھ کا استعفیٰ بھی ممبئی مہاراشٹر کا حصہ نہیں بنا
سکا اور ممبئی کے باشندوں کو۱۹۵۶ سے لےآگے چار سالوں تک ایک زبردست عوامی
تحریک چلانی پڑی جس میں ۱۰۰ سے زائد لوگوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا
اور بالآخریکم مئی۱۹۶۰ کوپنڈت جی نےممبئی سمیت مہاراشٹر کی تشکیل کرکے اس
کا اقتدار یشونت راو چوہان کو سونپ دیا۔ وہیں سےیومِ مہاراشٹر کی داغ بیل
پڑی ۔ اب تو یہ حال ہے کہ ممبئی میں نہ کپڑاملیں ہیں اور نہ اس میں کام
کرنے والے مزدور ۔ ٹریڈ یونین کے ساتھ ساتھ عوام نے مزدوروں کے دن کو بھی
بھلا دیا ہے لیکن اسمیں شک نہیں کہ متحدہ مہاراشٹر کے قیام کی تحریک میں
مزدور وں ، ان کی یونین اور اس کے رہنماوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا اور
انہیں کی قربانیوں سے اس ریاست کا دارالخلافہ ممبئی بنا جس میں اب مزدوروں
کا دن نہیں بلکہ صرف یوم مہاراشٹر منایا جاتا ہے ۔
اس سال مہاراشٹر دن جس جماعت کی سرپرستی میں منایا جائیگا اس سنگھ پریوار
نے ریاست کی تشکیل میں ادنیٰ کردار بھی ادا نہیں کیا ۔ سنگھ پریوار کا قیام
ودربھ میں ہوا اس نے ناگپور کو اپنا صدر مقام بنایااور پونے میں سب سے
زیادہ زہر پھیلایا لیکن ممبئی عرصۂ دراز تک بائیں بازو کے جماعتوں کی
ہمنوابنی رہی ۔ کانگریس نے شیوسینا کی مدد سے سرخ پرچم کو اتارا اور بی جے
پی نے سینا کے ساتھ الحاق کرکے ممبئی پر قبضہ جمایا۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے
پی کے وزیراعلیٰ دیویندرفردنویس اور معمرمرکزی وزیر نتن گڈکری کا تعلق نہ
صرف برہمن سماج سے بلکہ ناگپور شہر سے ہےنیز دونوں مہاراشٹر کی تقسیم کے
حامی ہیں۔ اس سال جبکہ ممبئی میں وزیراعلیٰ فردنویس یوم مہاراشٹر کی سرکاری
تقریب میں بلند بانگ دعویٰ کریں گے ان کے اپنے علاقہ میں دوربھ راجیہ پریشد
ہرضلع میں بی جے پی کا مینی فیسٹو جلائے گی۔ اس لئے کہ بی جے پی پارلیمانی
انتخاب سے قبل ودربھ کو الگ کرنے کا وعدہ کرنےکےبعداپنے وعدے سے مکر گئی ہے
اس لئےپریشد بی جے پی کے خلاف ہوگئی ہے۔ یکم مئی کے دن مہاراشٹر کی تقسیم
کا مطالبہ وزیراعلیٰ اور سنگھ پریوار دونوں کےلئے باعث شرم ہے لیکن موجودہ
سیاست میں شرم وحیا جیسی چیزیں نہیں پائی جاتیں۔
دوسال قبل جب بی جے پی کو مرکز میں کامیابی حاصل ہوگئی تو ودربھ کی تقسیم
کے حامیوں کا حوصلہ بہت بلند ہوگیا ۔ ان بیچاروں نے سوچا کہ اب ہمارے اچھے
دن آنے ہی والے ہیں اور جلد ہی ہم آزاد ہوجائیں گے۔ ۲۰۱۴ میں بھی ودربھ
کے ہر ضلع میں یکم مئی کو زور و شور کے ساتھ آزاد ودربھ کا دن منایا گیا
اور ان لوگوں نے ہر ضلع کے صدرمقام پر اپنا پرچم لہرایا۔ بی جے پی والے اس
کام میں پیش پیش تھے انہوں نے عوامی جذبات کا خوب جی بھرکے استحصال کیا اور
پانچ ماہ بعد ہونے والے ریاستی انتخابات میں پہلی بار شیوسینا کی مدد کے
بغیر سب سے زیادہ نشستوں پر کامیابی درج کرائی لیکن پھر اس کے بعد جب پوری
ریاست کا اقتدار ہاتھ آگیا تو یہ ابن الوقت ودربھ کی آزادی کا نعرہ بھول
گئے۔ گزشتہ سال سرمائی اجلاس سے قبل جب قحط سالی اور پانی جیسے مسائل میں
فردنویس بری طرح گھر گئے تو انہوں نے اپنے خاص معتمد اٹارنی جنرل شری ہری
انے کے توسط سے اس مطالبے کو زندہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ یہ دراصل حزب
اختلاف اور اپنی حلیف سینا کی الجھانے کی سازش تھی تاکہ حکومت کی ناکامیوں
کی پردہ پوشی ہوسکے اور جنوری میں ہونے والے نگر پالیکا کے دوسرے مرحلے
کےانتخاب پرسرکار کی نااہلی کے منفی اثرات مرتب نہ ہوں لیکن ایسا نہ ہوسکا
۔
بھارتیہ جنتا پارٹی گزشتہ سال نومبرجب اپنی ریاستی سرکار اپنی پہلی سالگرہ
منانے کی تیاری میں تھی ان ضلعی بلدیاتی انتخابابت نے رنگ میں بھنگ ڈال
رکھا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کا آغازوزیراعلیٰ دیویندر فردنویس نے بڑی
چالاکی سے اپنے اور آرایس ایس کے گڑھ ناگپور سے کیا لیکن انہیں وہاں بھی
منہ کی کھانی پڑی ۔ مجموعی اعتبار سے وہ کانگریس اور بی جے پی برابری پر
چھوٹے مگر کچھ علاقوں کے نتائج چونکانے والے تھے مثلاًناگپور ضلع کے ہنگنا
تعلقہ میں این سی پی نے ۱۱ تو بی جے پی نے صرف ۶ نشستوں پر کامیابی درج
کرائی۔ کارنجا میں کانگریس نے ۱۷ میں سے ۱۵ نشستیں جیت لیں اور بی جے پی کو
۲ پر اکتفاء کرنا پڑا ۔ اسی طرحموہادی میں کانگریس نے ۱۷ میں ۱۲ پر قبضہ
کرلیا اور بی جے پی ۳ پر سمٹ گئی۔ زعفرانیوں کی خود اپنے اور وزیرعلیٰ کے
قلعہ میں ایسی درگت بنے گی یہ کسی نےنہیں سوچا تھا؟
اس انتخاب کے دو ماہ بعد یعنی آج سے دو ماہ قبل ۱۹ نگر پنچایتوں کی ۳۴۵
نشتوں پر مقابلہ ہوا تو اس وقت تک کانگریس کی مقبولت میں مزید اضافہ ہوچکا
تھا۔ اس نے ۱۰۵ مقامات پر کامیابی درج کرائی تھی۔ این سی پی بھی ۸۰ تک پہنچ
گئی تھی مگر بی جے پی کو کانگریس کی بہ نسبت نصف سے بھی کم یعنی ۳۹ پر
اکتفاء کرنا پڑا۔ ۱۹ میں سے ۹مقامات پر کانگریس کو واضح اکثریت مل گئی اور
باقی ۱۰ میں کسی ایک جماعت کو اکثریت نہیں مل سکی ۔ اس کے مزید دوماہ بعد
بی جے پی کانگریس کے مقابلے ایک چوتھائی سے بھی کم نشستوں پر کامیاب ہوسکی
گویا نومبر میں جو برابری تھی وہ فروری میں نصف سے کم اور اپریل میں ایک
چوتھائی سے نیچے پہنچ گئی۔اس طرح کی پھسلن تو شاید ہی کسی جماعت کے مقدر
میں آئی ہو۔
بی جے پی کی حکمت عملی یہ ہے کہ جب تک پوری ریاست پر حکمرانی کاموقع ہے
متحدہ مہاراشٹر کا نعرہ لگا کرحکومت کرو اور جب عوام لات مار کر بھگا دیں
تو پھر سے ودربھ کی آزادی کامطالبہ شروع کردو لیکن کیا اس کھیل میں بی جے
پی کامیاب ہوسکے گی؟ اس کا امکان کم ہے۔ بی جے پی والوں نے اسی حکمت عملی
کے تحت اتراکھنڈ کو اترپردیش سے الگ کیا لیکن وہاں کے عوام نے انہیں اقتدار
سے بے دخل کردیا اوراب وہ چور دروازے سے سرکار بنانے کی کوشش میں عدالت کے
اندر جوتیاں کھارہی ہے۔ مہاراشٹر میں ان کی منافقانہ پالیسی منہ میں رام
بغل میں چھری کی مصداق ہے۔ زبان پر مہاراشٹر دل میں ودربھ کا پاکھنڈ اب
نہیں چلے گا۔ لوگ سوال کریں گے کہ جب اقتدار تمہارے ہاتھوں میں تھا تو تم
نے دغابازی کیوں کی؟اس یوم مہاراشٹر کا یہی پیغام ہے کہ بی جے پی اس موقع
پرستی کے سبب ناگپور کے ریشم باغ میں بھی جہاں آرایس ایس کا صدر دفتر ہے
بی جے پی کی ضمانت ضبط ہوجائیگی ۔ |