سیاستدانوں سے جمہوریت کو خطرہ
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
شاید ہمارے بعض قارئین کو معلوم نہ ہو کہ دنیا میں پارلیمانی جمہوریت کا
پہلا علمبردار ملک برطانیہ کا کوئی آئین لکھا ہوا نہیں ہے وہاں تمام فیصلے
آئین وقانون کی کتابوں کو دیکھ کر نہیں کیے جاتے بلکہ اپنے ماضی کی روایت
کو دیکھ کر کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں آئین و قانون مضبوط اور
قابل عمل ہے ۔ وہاں کبھی بھی جمہوریت کو خطرہ پیش نہیں آیا اور نہ ہی کبھی
فوج کے چند جنرلوں نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے
کہ وہاں فوجی حکومت یا فو ج کا سول حکومت کے خلاف سازش یا دونوں کے درمیان
تعلقات کی خرابی جیسے باتیں تصور میں بھی نہیں کی جاتی ۔ برطانیہ سمیت تمام
تر قی یافتہ ممالک میں فوج ایک مضبوط اور خود مختار ادارے کے طور پر کام
کرتی ہے ۔جمہوری حکومتوں کو کبھی بھی فوجی اداروں یا جنرلز سے خطرہ محسو س
نہیں ہو تا لیکن ہمارے ہاں الٹا گنگا بہتا ہے ۔ یہاں وقتا ً فو قتاً فوجی
جنرل جمہوریت کی بساط لپیٹ دیتے ہیں ۔جمہوری حکومت اور فوج کے درمیان
تعلقات خراب ہوتے ہیں ، کرپشن ، حکومتی پالیسیوں ، اداروں کی تباہی اور
عوام دشمن فیصلوں کی وجہ سے جمہوری حکومت عوام کی نظر میں ناکام ہوتی ہے جس
کا فائدہ فوجی جنرل اٹھا کر اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں ۔ ملک میں تین ماہ
کے اندر اندر نئے انتخابات کا اعلان کرکے اٹھ نو سال بعد زبردستی ان کو
کرسی سے اتار دیا جاتا ہے۔ پھر نئے انتخابات ہوتے ہیں۔ جمہوری حکومت قائم
ہوتی ہے ، سول اور ملٹری تعلقات اور فیصلوں میں یکسوئی نظر آتی ہے لیکن کچھ
وقت گزرنے کے ساتھ پھر وہی ڈرمہ شروع ہوتا ہے۔جمہوری حکومت شکایت کرنے لگتی
ہے کہ ہمیں کام کرنے نہیں دیا جاتا ، ہمارے خلاف سازشیں ہورہی ہے وغیرہ
وغیرہ یہ سب کیوں ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں اس طرح کی افواہیں جنم لیتی ہے
کہ حکومت جانے والی ہے یا حکومت اور فوج ایک پیج پر نہیں ہے ۔ اس کی بنیادی
وجہ ہمارے اپنے سیاست دان ہی ہے ۔ سیاست دان جمہوریت کا نعرہ تو لگا تے ہیں
لیکن عملی طور پر جب اقتدار ان کے قبضے میں آجاتا ہے تو یہ جمہوری پسند
لیڈر ا قتدار کے ہوس میں جمہوری روایات ، آئین وقانون کی پاسداری بھول جاتے
ہیں بلکہ اگر یہ کہہ جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جمہوریت کے نام پر نئی ڈکٹیٹر
شپ قائم ہوجاتی ہے۔برطانیہ میں وزیر اعظم سمیت پوری حکومت اپوزیشن اور قوم
کو جوابدے ہوتی ہے ۔ تمام فیصلے پارلیمنٹ میں کیے جاتے ہیں ۔ وزیر اعظم
سمیت پوری کابینہ پارلیمنٹ میں نہ صرف حاضر ہوتی ہے بلکہ ہر سوال کا جواب
بھی دیتی ہے۔ جو قانون یا اصول بنائے جاتے ہیں اس کو کاغذوں میں نہیں بلکہ
عملی طور پرنظر آتا ہے۔ اپنی روایات اور عمل سے اخلاقی طور پر وہ لوگ نظام
چلاتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ آئین وقانون پر عمل کرنا صرف غریب اور
بے بس آدمی کیلئے ہوتا ہے ۔ آئین وقانون صرف کا غذوں میں موجود ہوتا ہے
حکمرانوں اس پر عمل سے مبرا ہوتے ہیں جس پارلیمنٹ میں آنے کے لئے یہ لوگ
الیکشن میں ہر قسم کی دھاندلی اور کروڑوں روپے لگاتے ہیں وہاں آنا اور اپنے
فیصلوں پر قوم اور اپوزیشن کو اعتماد میں لینا ، مسائل اور مہگا پروجیکٹ پر
ڈسکشن کرنا ،حکومت اور وزیر اعظم اپنی تو ہین سمجھتے ہیں ۔ایسے حالات میں
جمہوریت کا مطلب ، فائدہ یا اہمیت سے عوام نا واقف ہوتے ہیں ۔ ہم ماضی کو
چھوڑ کر اگر موجود حکومت کی بات کرے تو محسوس اور عملی طور پر لگتا یہی ہے
کہ نون لیگ حکومت نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا ۔ آج پہلے سے زیادہ عوام کو
جمہوریت کے نام پر دھوکہ دیا جارہا ہے۔ ملک میں جمہوریت کے نام پر آمریت
قائم ہے۔ 2013کے الیکشن میں منتخب ہونی والی مسلم لیگ نون کی حکومت سے توقع
تھی کہ یہ لوگ ماضی سے سبق سیکھ کر اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر نئی سیاسی
روایات قائم کریں گے اور تمام فیصلے پارلیمنٹ میں ڈسکس کریں گے ۔ اپنی
کرپشن اور ون مین شو کو ختم کرکے اپوزیشن کو ساتھ ملا کر جمہوری نظام کو
بہتر بنانے کیلئے فیصلے کیے جائیں گے۔ ادارو ں کو مضبوط اور خود مختار
بنایا جایا گا ۔ ملک میں حقیقی جمہوریت لانے کیلئے قانون پر عمل درآمد کو
یقینی بنایا جائے گا۔ حکو مت اپوزیشن سمیت عوام کو ہر فورم پر جوابدے رہے
گی لیکن بدقسمتی سے جو روایات پیپلز پارٹی کی حکومت نے چھوڑے تھے وہ بھی
مسلم لیگ نون کی حکومت نے ختم کر ائی۔ آج کی حقیقت یا سچ یہ ہے کہ تمام
فیصلے ون مین شو ہو تے ہیں۔ پارلیمنٹ کی اہمیت ختم ہوچکی ہے۔وزیر اعظم میاں
نواز شریف پارلیمنٹ میں جانا وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں ۔ وہی پرانی سوچ کے
ساتھ حکومت کی جارہی ہے ۔ اپوزیشن کو سائٹ لائن رکھا گیا ہے۔ اداروں کی
مضبوطی اور سسٹم کو بہتر بنانے کی مسلم لیگ نون نے آج تک کوئی کام نہیں کیا
ہے یا یہ لوگ اداروں کو مضبوط بنانے کیلئے کتنے مخلص ہے، اس کا انداز ہم
صرف یہ دیکھ کر لگا سکتے ہیں کہ جب عمران خان نے 2013میں پارلیمنٹ سے اپنا
پہلا خطاب کیا جس میں انہوں نے جمہوریت کو مضبوط بنانے کیلئے بہت سے تجاویز
سمیت حکومت سے الیکشن میں دھاندلی کرانے والوں کو بے نقاب کرنے اور اداروں
کو مضبوط بنانے کے لئے صرف چار حلقوں میں تحقیقات کا مطالبہ کیا تواس پر
حکومت نے رضامندی ظاہرکرنے اور عمران خان کی تقریر کو ایک پارٹی لیڈر نہیں
بلکہ ایک محب وطن اور ہمدرد پاکستانی تسلیم کیا لیکن ایک سال گزرنے کے بعد
ان کے تجاویز پر عمل نہ ہوا اور نہ ہی حکومت نے اپنے وعدوں پر عمل کیا جس
کے بعد انہوں نے دھرنا دیا باقی تاریخ قوم کے سامنے ہیں کہ اب ان چاروں
حلقوں میں دھاندلی ثابت ہوئی لیکن کسی ملزم کوسز ا نہ ہوئی ۔ کہنا کا مقصد
یہ ہے کہ اپوزیشن کو ساتھ ملاکر فوج سمیت تمام اداروں کو مضبوط بنا یا جا
سکتا تھا لیکن آج حکومت کو تین سال گزرنے کے باوجود الیکشن کمیشن سمیت کو
ئی بھی ادارہ آزاد یا خود مختار نہیں بنایا جاسکا۔ اپنی لوٹ کھسوٹ ، غریب
کش پالیسیوں اور نااہلی کی وجہ سے حکومت کو خطرہ محسوس ہورہاہے کہ ہمیں کام
کرنے نہیں دیا جارہاہے یا فوج ایک دفعہ پھر حکومت کا تختہ الٹ کر قابض ہو
جائے گی جس کا خطرہ حکمران بہت شدت کے ساتھ محسوس کررہے ہیں جس کا بنیادی
وجہ ان کی کرپشن ہے ۔پاناما لیکس سمیت کئی ایسے فیصلے ہیں جس کی وجہ سے
حکومت نے اپنی نااہلی کا ثبوت دیا ہے۔میرے خیال کے مطابق فوج اقتدار پر نہ
قبضہ کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا ماحول موجود ہے کہ اپوزیشن فوج کو
قبضہ کرانے کیلئے تیار کررہی ہے۔ اس میں کوئی شق نہیں کہ اپوزیشن میاں نواز
شریف حکومت کی نااہلیوں پر اب خاموش نہیں بیٹھے گی لیکن کوئی بھی پارٹی فوج
کے اقتدار میں آنے اور جمہوریت کا بساط لپیٹنے کے حق میں نہیں ہے لیکن
حکومت کی پالیسیوں کو دیکھ کر لگتا یہ ہے کہ میاں نواز شریف ملک میں الیکشن
چاہتے ہیں اور خود فرار کا راستہ چاہتے ہیں تا کہ مزید بدنامی اور بے نقاب
ہونے سے بچ جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج جمہوریت کو خطرہ فوج سے نہیں بلکہ
ہمارے حکمرانوں اور سیا ستدانوں کے غلط فیصلوں اور کرپشن سے ہیں جو صحیح
معنوں میں جمہوری نظام پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ جب تک ملک میں حقیقی جمہوری
نظام نافذ نہیں ہوتا اس وقت تک سیاستدان اپنے آپ کو خطرے میں محسوس کریں گے
۔جمہوریت کا مطلب ، عوامی کی حکمرانی اور اداروں کی مضبوطی سمیت خود کو
قانون کے سامنے جوابدے بنانا ہے جو آج تک ہمارے ملک میں ممکن نہیں ہوا ہے۔ |
|