وزارتِ عظمیٰ کی بَدہضمی
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
اگست 2014ء میں کپتان صاحب حصولِ وزارتِ عظمیٰ کے کے شدید بخارمیں
مبتلاء ہوئے ۔یہ بخاراتنا خطرناک اورخوفناک تھاکہ 126 روزتک جان نہ چھوڑی ۔ساری
سیاسی جماعتیں مِل کرشفایابی کی دعائیں مانگتی رہیں اور بالآخر اُس سے
افاقہ ہواتو خاں صاحب ’’کنٹینرہسپتال‘‘ سے اُترکر اپنے گھربَنی گالہ سدھارے
جہاں اُن کی نئی نویلی دُلہن اُن کی راہوں میں آنکھیں بچھائے محوِ انتظار
تھی ۔یہ بخاروقتی طورپر توختم ہوگیا لیکن تھااتنا خطرناک کہ 2015ء کے
دَوران بھی خان صاحب وقفے وقفے سے اِس میں مبتلاء ہوتے رہے ۔ اب 2016ء میں
اُنہیں ’’اقتداری بخار‘‘ کے ساتھ ساتھ شدید بَدہضمی بھی ہوگئی ہے اسی لیے
وہ باربار رائیونڈ جانے کاذکر کرتے ہیں۔اِس کاسبب ’’ٹُٹ پَینی‘‘ پانامہ
لیکس ہے جس نے ہمارے کپتان صاحب کووزارتِ عظمیٰ کی شدید بَدہضمی میں مبتلاء
کردیا ہے اوراُنہیں اتنابھی احساس وادراک نہیں کہ اُن کی جماعت اندرونی
طورپر شدید ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہے ۔مخدوم جاویدہاشمی توپہلے ہَلّے میں ہی ’’پھُر‘‘
ہوگئے، اب دوسرے مخدوم ، شاہ محمودقریشی ’’سولوفلائیٹ‘‘ پرسندھ میں پائے
جاتے ہیں۔شنیدہے کہ چودھری سرور سندھ میں کرپشن کے خلاف تحریک چلانے کے
خلاف تھے جبکہ شاہ محمودقریشی حق میں ۔کپتان صاحب چودھری سرورکے حق میں تھے
اور شاہ محمودقریشی کی ’’میں نہ مانوں‘‘ کی رَٹ برقرار ۔نوبت یہاں تک آن
پہنچی کہ چودھری سروراور شاہ محمودقریشی گالی گلوچ پراُتر آئے جس پرکپتان
صاحب ناراض ہوکر کھانے کی میزسے اُٹھ کرچلے دیئے اوربیچارے جہانگیرترین ،جنہوں
نے چُن چُن کرخاں صاحب کی پسندیدہ ڈشزتیار کروائی تھیں ،مُنہ تکتے رہ گئے ۔اِس
سے پہلے خودکپتان صاحب نے شاہ محمودقریشی اور جہانگیرترین کی صلح کروانے کے
لیے ایک ہوٹل میں اُنہیں کھانے کی دعوت دی (حالانکہ کپتان صاحب توکسی
کوچائے کی پیالی تک پلانے کے بھی روادارنہیں ہوتے)۔ شایداُنہوں نے سوچا
ہوگا کہ اُن کی جماعت کے دونامی گرامی پہلوانوں میں صلح کروانے میں ہی
عافیت ہے لیکن بات بنی نہیں اور معاملہ وہیں کا وہیں ہے ۔نون لیگئیے کہتے
ہیں کہ جوشخص اپنی جماعت نہیں سنبھال سکتااور لوگ اُس کے سامنے ہی گُتھم
گُتھا ہوجاتے ہیں ، وہ بھلا مُلک کیاخاک سنبھالے گا ۔بات اُن کی بجالیکن
بخاریا بَدہضمی میں مبتلاء ہونایا نہ ہوناتو کسی کے بَس میں نہیں ہوتا ۔چاہیے
تویہ تھاکہ کپتان صاحب خیبرپختونخوا کی طرف توجہ کرتے ، وہاں ترقیاتی کام
کرواتے ، کرپشن کامکمل طورپر خاتمہ کرواتے اورپھرقوم کے سامنے اپنانامہٗ
اعمال رکھ کر 2018ء کے الیکشن میں جاتے ۔وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ صوبہ
خیبرپختونخوا کی حالت کسی بھی دوسرے صوبے سے اگر بَدتر نہیں تو بہتر ہرگز
نہیں ۔اِن حالات میں قوم اُس سے پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ جس صوبے کی ’’سرداری‘‘
اُنہیں مِلی ، وہاں انہوں نے کون سے تیر مارلیے جو وزارتِ عظمیٰ کے حصول کے
بعد پورے پاکستان میں مار لیں گے؟ ۔ یہی بات وزیرِاعظم صاحب نے مانسہرہ کے
جلسۂ عام میں بھی کہی۔
مانسہرہ میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم نے کہا’’میں وہ شخص ہوں
جو صرف فیتانہیں کاٹتا بلکہ ترقیاتی منصوبوں کو مکمل بھی کرتاہے ۔ٹانگیں
کھینچنے والے پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل ہوں گے توعوام اُنہیں اُٹھا
کرباہر پھینک دے گی ۔خیبرپختونخوا کے اندربننے والے تمام ترمنصوبے مسلم لیگ
(نون) کی حکومت نے ہی بنائے ہیں۔حالانکہ ہماری تویہاں حکومت بھی نہیں
۔ہماری حکومت نعرے بازی نہیں بلکہ عوام کی خدمت پہ یقین رکھتی ہے
۔خیبرپختونخوا میں نیاپاکستان کادعویٰ کرنے والے بتائیں کہ نیا پاکستان
کہاں ہے اور کون بنارہا ہے ؟‘‘۔ وزیرِاعظم صاحب تحریکِ انصاف کے خلاف پہلی
دفعہ بولے اور کھُل کربولے لیکن اُنہوں نے کپتان صاحب کی طرح غیر پارلیمانی
زبان استعمال کی، دھمکیاں دیں نہ بڑھکیں ماریں۔اُنہوں نے جوکچھ کہاوہ اِس
لحاظ سے سچ ہے کہ واقعی گزشتہ تین سالوں میں خیبرپختونخوا میں نہ توکوئی
ترقیاتی کام ہوااور نہ ہی اسے بہترین طرزِحکومت قراردیا جاسکتا ہے ۔
پانامہ لیکس کی وجہ سے نئی صف بندیاں اور دھڑے بندیاں واضح طورپر سامنے
آرہی ہیں ۔اگرمرکزی دھارے کی تمام اپوزیشن جماعتیں 2 مئی کوحکومت مخالف مہم
شروع کرنے پرآمادہ ہوجاتی ہیں تو یقیناََ حکومت کے لیے یہ مشکل گھڑی ہوگی
۔سوال مگریہ کہ کیا ایساہونا ممکن ہے؟۔ ہمارے خیال میں نہیں کیونکہ پہلی
بات تویہ کہ کیا پیپلزپارٹی عمران خاں کی قیادت کوقبول کرلے گی ؟۔ اِس
کاجواب ہر ذی ہوش نفی میں ہی دے گا ۔دوسری بات یہ کہ گرینڈ اپوزیشن الائنس
کی صورت میں اِس میں ایسے بیشمار سیاستدان موجود ہوں گے جن کاماضی داغدار
ہے ۔ 9 مئی کوپانامہ لیکس کی دوسری قسط سامنے آرہی ہے ، اُس میں پتہ نہیں
اور کتنے نامی گرامی ’’پہلوانوں‘‘ کا ’’ذکرِخیر‘‘ ہوگا ۔ایسی صورت میں تو
وہ سب ’’پھُر‘‘ ہوجائیں گے اورحالت یقیناََ یہ ہوگی کہ ’’گلیاں ہو جان
سُنجیاں ، وِچ مرزا یار پھرے‘‘۔ اِس لیے 9 مئی کی پانامہ لیکس کی دوسری قسط
کا انتظار کرنا ہوگا ،تبھی یہ پتہ چل سکے گاکہ گرینڈ الائنس تشکیل بھی
پاسکتا ہے یانہیں۔ تیسری بات یہ کہ کوئی بھی سیاسی جماعت عمران خاں کے ساتھ
رائیونڈ جانے کے لیے تیارنہیں ہوگی۔سوائے تحریکِ انصاف کے تقریباََ تمام
اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی اِس کااظہار کرچکی ہیں کہ اُن کا رائیونڈ جانے
کاکوئی موڈ نہیں۔ علامہ طاہرالقادری بھی کہہ چکے کہ وہ باہربیٹھ کرہی
پانامہ لیکس پرقوم کوآگاہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جس سے ظاہرہوتا ہے کہ
فی الحال تواُن کاپاکستان آنے کاکوئی ارادہ نہیں۔ویسے بھی 2014ء کے دھرنے
میں دونوں ’’ کزنز‘‘ کے مابین الفت ومحبت ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوئی ، تعلقات
کشیدہ ہوئے اورعلامہ طاہرالقادری کپتان صاحب کوبتائے بناہی دھرنا چھوڑکر
چلے گئے۔ اِس لیے کہاجا سکتاہے کہ اب وہ کپتان صاحب پراعتبار کرنے کوتیار
نہیں ہوں گے ۔ویسے بھی اگر بالفرض وہ پاکستان تشریف لے آتے ہیں توپھر تحریک
کی قیادت تواُنہی کوزیبا ہے ۔ہم نے دیکھاکہ 2014ء کے دھرنے میں ساری رونقیں
ڈاکٹر طاہرالقادری اور اُن کے مریدین کے دَم قدم سے تھیں ۔جونہی ڈاکٹرصاحب
نے دھرنا ختم کرنے کااعلان کیا ، تحریکِ انصاف کے دھرنے کے غبارے سے
ہَوانکل گئی اوروہ ’’ٹھُس‘‘ ہوگیا ۔کپتان صاحب کسی بھی صورت میں علامہ صاحب
کی قیادت قبول نہیں کریں گے ۔اِس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اِس ’’وزارتِ عظمیٰ
کی بَدہضمی‘‘ میں کپتان صاحب اکیلے ہی مبتلاء نظرآئیں گے۔ |
|