وزیراعظم کا حالیہ بیان کہ اپوزیشن 2018تک صبر کریں ہم
دوبارہ بھی برسراقتدار ہونگے ایک بہت بڑی خوش فہمی ہے ،ایسا لگتا ہے کہ
وزیراعظم صاحب خود کو اور اقتدار کو لازم وملزوم سمجھتے ہیں یہ ہی وجہ ہے
کہ وہ سیاسی ومعاشرتی حلقوں کے مطالبات کے باوجود پانامہ لیکس سے نکلنے
والی خبروں پر اپنی اور اپنی فیملی کی پوزیشن واضح نہیں کرنا چاہتے ۔بلکہ
ان کی خواہش ہے کہ یہ معاملہ غیر ضروری بحث ومباحثوں میں دب کر رہ جائے جس
کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی جانب سے کمیشن بنانے کی بات کو ٹیکنکل
انداز میں اس قدر پھیلا دیا ہے کہ کوئی پانامہ لیکس سے ملنے والی معلومات
کو چیک ہی نہیں کرسکے گااس طرح وزیر اعظم سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی پھرتیوں سے
اپنی فیملی کو احتساب سے بچالینگے ؟ حقیقت میں ایساہونا ممکن اس لیے نظر
نہیں آتا کہ اپوزیشن جماعتیں اس معاملے پر اکٹھی ہوکر اس کمیشن کے کام کرنے
کی حدود پر کام کررہی ہیں اور اس بات پر متفق نظر آتی ہیں کہ تفتیش کا عمل
پانامہ لیکس میں آئے ہوئے ناموں سے ہی ہونا چاہیئے ۔یعنی پہلے احتساب کا
عمل وزیراعظم اور ان کی فیملی سے شروع ہوگا بعد میں سب کے کان پکڑے جائینگے
۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب اپوزیشن کے دباؤ کے پیش نظر خود کو
احتساب سے کس طرح بچائینگے اور کس طرح غیر معینہ عرصہ تک اقتدار پر حاوی
رہینگے اس وقت وزیراعظم صاحب نے اپنی پارٹی کے کچھ بچہ جمہوروں کو اپوزیشن
رہنماؤں پر گند اچھالنے کے لیے چھوڑ رکھا ہے کہ وہ اپوزیشن رہنماؤں پر خوب
الزامات لگائیں تاکہ وزیراعظم کے گناہ ان کے گناہوں تلے تب کر رہ جائیں ۔میں
سمجھتا ہوں کہ اس طریقہ کار سے معاملات کچھ ہفتوں تک دب تو سکتے ہیں مگر رک
نہیں سکتے یعنی اب شریف برادران ایک طویل عرصہ تک اقتدار پر قابض نہیں رہ
سکتے ،جس انداز میں حکومت نے اپنے درباریوں کو سیاستدانوں پر کیچڑ اچھالنے
پر لگا رکھا ہے اسی طرح تحریک انصاف کی قیادت نے بھی اب فیصلہ کرلیا ہے کہ
وہ حکمرانوں کی لوٹ مار اور کرپشن کا کٹھہ چھٹہ کھولنے کے لیے چاروں صوبوں
میں ریلیاں اور جلوس نکالیں گے جس کا آغاز کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے
چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد میں پارٹی کے یوم تاسیس کے جلسے میں کرتے
ہوئے کہا کہ ہم سندھ سے کرپشن کے خلاف اپنی تحر یک کا آغاز کرینگے ۔جس کے
بعد کراچی کے ضلع ملیر سے کرپشن مٹاؤ ملک بچاؤ کے نام سے اس مارچ کا آغاز
کیا گیا اس روز پاکستان کے تمام نیوز چینلوں پر ایک نیوز الرٹ نے شہریوں کو
خاصا پریشان کررکھا تھا جو گرمی کا ٹمپریچر بڑھنے کے سلسلے میں تھا کہ لوگ
اپنے اپنے گھروں میں ہی رہیں تو زیادہ اچھا ہوگا ،مگر گھارو،ٹھٹھہ ،سجاول ،گولارچی،
بدین ،میرپورخاص سندھڑی ،کنڈیاری،جھول ،شہداد پور روڑ اور سکرنڈ ،سانگھڑ ،
نواب شاہ،محراب پور ،خیرپور ،مورو ،نوشہروفیروز،رانی پور،خیرپور میں جہاں
گرمی کا دورانیہ ہمیشہ سے ہی بہت زیادہ سمجھاجاتا ہے لوگوں نے بڑی تعداد سے
گھروں سے نکل کر ثابت کردیا کہ سندھ کی عوام اب ہر سطح پر تبدیلی کے لیے
تیار ہوچکی ہے سندھ کے بڑے بڑے مقامات پر پی ٹی آئی کی کرپشن کے خلاف ریلی
نے خوب دھوم مچائی اس ریلی کی کامیابی کی بڑی وجہ اس کی قیادت کرنے والے پی
ٹی آئی کے سینئر رہنما مخدوم شاہ محمود قریشی اور ان کے دیگر اہم ساتھی تھے
مخدوم شاہ محمود قریشی پاکستان کی سیاست میں اپنی شعلہ بیانیوں کی وجہ سے
خاصے مقبول ترین لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں جو خود بھی ایک مقناطیسی شخصیت
کے مالک ہیں، انہوں نے کرپشن کے خلاف مارچ کی قیادت کرتے ہوئے سندھ کے بے
شمار اضلاع کے دورے کیئے ۔ان کے ساتھ گرمی کی حدت کو چیرتے ہوئے مسلسل پانچ
دن شب وروز چلنے والے پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عارف علوی اور تحریک انصاف کی
دیگر قیادت نے بھی کرپشن کے خاتمے کے لیے خوب تقریریں کیں،ہم نے دیکھا کہ
کرپشن کے خاتمے کے لیے سندھ کی عوام نے اپنے عزم کو دھرایااور عوام نے پی
ٹی آئی کی قیادت کی تعریف کی کہ وہ سندھ کا دورہ محض اس لیے کررہے ہیں کہ
انہوں نے کرپشن میں ملوث لوگوں کو عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ کیاہے اس
روز وزیراعظم صاحب پشاور میں اپنے ہی جانب سے مسلسل تیسری مرتبہ ایک ہی
منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ رہے تھے اور پی ٹی آئی کا کرپشن کے خلاف مارچ اس
وقت سندھ کے مفلوج حال علاقوں لاڑکا نہ،قمبر شہداد کوٹ، شکار پور،پنوں عاقل
،گھوٹکی ،اور کموں شہید پر ایک دن میں تین بڑے تاریخی جلسوں سے خطاب کرتا
ہوا آگے بڑھ رہاتھا ۔جسے میڈیا کے تمام چینلز پر پزیرائی ملی جس کا ایک
نتیجہ یہ بھی نکلا کہ جب تحریک انصاف کی جانب سے رائیونڈ کے گھیراؤ کرنے کا
الارم دیا گیا تو ن لیگ کے وزیروں ،مشیروں کی جانب سے مزید آگ بڑھکانے کا
سلسلہ شروع کردیاگیاجن میں سے کچھ نے پی ٹی آئی کی قیادت کی ٹانگیں توڑنے
اور کچھ نے ایسے مغلضات کی ادائیگی کرڈالی جس سے ان کی جس ماحول میں سیاسی
پرورش ہوئی ہوگی اس کا اندازہ لگانے میں زرا بھی دیر نہیں لگی ہم سمجھتے
ہیں کہ انہیں سیاست کے گرم ماحول میں ایسی بیان بازی سے گریز کرنا چاہیئے
تھا جو سیاست کے شعبے کو داغدار کرنے کی وجہ بنتی ہو۔قائرین کرام اس وقت
اپوزیشن جماعتوں میں وزیراعظم کو سب سے زیادہ جس جماعت کی فکرلاحق تھی کہ
وہ انہیں پی ٹی آئی کے دباؤ سے بچا سکتی ہے وہ پیپلزپارٹی تھی جس کے لیے
ایک معمولی سے کھانسی کا علاج کرانے لیے وزیر اعظم کو لندن تک کا سفر کرنا
پڑا مگر اس کا ایک سیاسی مقصد تھا جس پر تھوڑا سا مثبت اشارہ ملنے پر وہ
وطن واپس آگئے مگر برج اس وقت سہی اندازمیں ہلنا شروع ہوا جب پی پی کے
چیئرمین بلاول بھٹونے اپنے حالیہ جلسے میں وزیراعظم سے استتعفے کا مطالبہ
کیا اور یو ں اپوزیشن کی دیگر جماعتیں بھی پی ٹی آئی کی ہاں میں ہاں ملانے
لگی جبکہ عمران خان نے بھی وزیراعظم پر ایک نہیں چار چار الزامات لگاتے
ہوئے کہہ ڈالا ہے کہ وزیراعظم پر ٹیکس چوری ،منی لانڈرنگ،کرپشن اور الیکشن
کمیشن کے سامنے جھوٹ بولنے جیسے چار سنگین الزامات ہیں ۔،دوستوں اقتدار آنی
جانے شے ہے مگر اللہ ایسے حکمران بھی کسی قوم کو نہ دے جو اپنی رعایا اپنے
چند دوستوں اور رشتے داروں کو سمجھے اور ترقی کی حدود بھی اپنے گھر تک
محدودرکھے مگر اس سارے معاملے کے لیے رقم غریب اور دکھی عوام کے ٹیکسوں سے
پورا کرے ،حکومت کو آئے ہوئے ابھی تین سال ہوئے ہیں مگر قرضوں سے جان
چھڑوانے کی بجائے مزید قرضے چڑھادیئے گئے ہیں ،آئی ایم ایف سے نئے قرضوں کے
حصول میں ان کی شرائط پر نجکاری کا عمل تیز کرنے کی یقین دہائی کروائی
جارہی ہے یعنی پی آئی اے،اسٹیل مل اور دیگر ادارے برائے فروخت پر لگانے کا
کہا جارہاہے جس میں انہیں بارھویں قسط کی مد میں 50کروڑ ڈالر جون میں ملنے
کا امکان ہے جو ان کی عیاشیوں کے لیے چند ماہ نکالنے کے لیے کافی ہونگے مگر
ان قرضوں کی ادائیگی مجھے اور آپ کو کون کرنا ہوگی یہ بات آپ سب اچھی طرح
ہی جانتے ہیں مگر یہ عیاشی کے دن مزید بڑھے تو اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہوگا
،دوستوں میں یہ نہیں کہتا کہ کونسی ایسی جماعت ہے جس کو ووٹ دیا جائے مگر
یہ ضرور کہوں گا کہ جنکو ایک بار آزمالیا ہو اور جنہوں نے اپنا اقتدار ملنے
پر عوام کا خون پیاہو ان کو پھر سے آزمانا اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑا مارنے کے
متراد ف ہو گا۔فل الحال میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم صاحب اپنے اقتدار کو
بچانے کے لیے جو جگاڑ نکال رہے ہیں وہ ان کی خوش فہمی کے لیے لمبی عمر نہیں
رکھتاانہیں یقیناًاس وقت تک کی نوشتہ دیوار پڑھ لینی چاہیئے اور اب وہ
تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنتے ہوئے کچھ دوسری دلچسپیاں ڈھونڈ لیں تو
زیادہ اچھا ہوگاکیونکہ عنقریب وہ سابق وزراء آعظموں کی لسٹ میں پھر سے آنے
والے ہیں اس لیے کہ عوام کرپشن مٹانے اور ملک بچانے کے لیے ایک ہوچکی ہے ۔ |