ہوسِ اقتدار
(Tariq Hussain Butt, UAE)
پاکستان میں اگر ہم مارشل لاؤں کی تاریخ کو
غور سے دیکھنے کی کوشش کریں تو ہمیں یہ طے کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہو
گی کہ ہر دس سالوں کے بعد مارشل لاء اپنا جھنڈا گاڑ دیتا ہے۔فیلڈ مارشل
محمد ایوب خان نے پہلا مارشل لاء اکتوبر ۱۹۵۸ میں مسلط کیا۔ جنرل ضیا لحق
کا مارشل لاء جولائی ۱۹۷۷ میں قوم کا مقدر بنا جبکہ جنرل پرویز مشرف نے
اکتوبر ۱۹۹۹ میں شب خون کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔اب ایک دفعہ پھر
مارش؛ لاء کے امکانات بہت زیا دہ روشن ہو چکے ہیں ۔ایک تو دس سالہ سول
حکومتوں کا دورانیہ پورا ہو چکا ہے اور پھر دوسرے سیاسی قائدین کی ہوسِ
اقتدار اس قدر شترِ بے مہار ہ بن چکی ہے کہ مارشل لاء کے بغیر چارہ ممکن
نہیں ہے۔اگر میں یہ کہوں کہ ہوسِ اقتدار نے سیاستدانوں کو نیم پاگل کر دیا
ہے تو بے جا نہ ہوگا۔جنرل راحیل شریف ن شب خون کے بہت سے مکانات ہونے کے
باوجود شب خون سے صرفِ نظر کیا تھا لیکن لگتا ہے کہ سیاستدانوں کی لوٹ مار
کی روش مارشل لاء کو نافذ کروا کر دم لے گی۔سوال یہ نہیں ہے کہ میاں نواز
شریف کی اولاد نے آف شور کمپنیاں بنائی ہیں بلکہ پاکستان میں تو ایک میٹر
ریڈر کی بنائی گئی کوٹھی کو قانونی اور آئینی طریقے سے اس کی تنخواہ سے
ثابت نہیں کیا جا سکتا۔اس کی تعیشات اور پر عیش زندگی جس تنخواہ کا تقاضہ
کرتی ہے اس کا تو دور دور تک نشان نہیں ہوتا۔اگر وہ اپنی تنخواہ سے اپنی
زندگی کے معمولات کو ماپنے کی کوشش کرے تو بلا مبالغہ اسے کرپشن میں سب سے
زیادہ سزا ہونی چائیے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے لہذا یہ کہنا کہ میاں برادران
اس بات کو ثابت کریں کہ انھوں نے جو آف شور کمپنیاں اور کاروباری ایمائر
قائم کی ہے وہ ان کی کس آمدنی کی بدولت ہے۔کیا کوئی مجھے یہ بتانے کی زحمت
گوارا کرے گا کہ آصف علی زرداری،ڈاکٹر عاصم،ذولفقار مرزا،رحمان ملک ،اسحاق
ڈار،خواجہ آصف،خواجہ سعد رفیق اور دوسرے وفاقی وزرا اور ممبرانِ پارلیمنٹ
کا موجودہ سماجی اور معاشرتی رہن سہن ان کی کس آمدنی سے پورا ہوتا ہے؟۔آصف
علی زرداری کی جتنی کمپنیاں ہیں وہ تو ایک صفحے پربھی پوری نہیں آتیں لہذا
یہ کہنا کہ صرف میاں محمد نواز شریف اپنے کاروبار کی وسعت کے ثبوت مہیا
کریں غیر منطقی بات ہے۔ پاکستان میں بلاول ہاؤسوں کی بہار آئی ہوئی ہے۔ہر
صوبے میں ایک بلاول ہاؤس ہے اورکیا کبھی کسی نے یہ پوچھنے کی کوشش کی کہ ان
کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا ہے؟یہی حال عمران خان کا ہے اس کا ۱۳۰۰ کنال کا
گھر کس آمدنی سے تعمیر ہوا ہے۔کیاکرکٹ میں اتنا معاوضہ ہے کہ ایک پرتعیشت
رہن سہن کا بوجھ اٹھا سکے؟جہانگیر ترین اور پھر علیم خان کی آف شور کمپنیوں
کو کس کھاتے میں ڈالا جائے گا؟یہاں پر تو جس قائد کو ہاتھ لگاؤ گئے وہی ارب
پتی ہو گا لیکن اس کا ٹیکس ریٹرن اور اثاچے صفر ہوں گئے۔وہ مقروض بھی ہو گا
اور اس کا اپنا گھر بھی نہیں ہو گا۔وہ یا تو ماں کے گھر میں رہ رہا ہوگا یا
پھر بیوی نیاسے یہ گھر تحفے میں دی اہوگا۔یعنی اندازِ زیست مغل شہزادوں
والا لیکن اثاثے فقرا والے۔
اگر قوم نے اس بات کا فیصلہ کر لیا ہے کہ ہر لٹیرے کا احتساب ہونا ہے تو
پھر اکیلے میاں محمد نواز شریف کا احتساب نہیں ہو نا چائیے بلکہ ساری گندی
مچھلیوں کو پکڑا جانا چائییاور احتساب کی چھلنی سے کوئی بچ کر نہیں جانا
چائیے بلکہ سب کو اپنے کرموں کی سزا مل کررہنی چائیے۔یہ نہیں ہو گا کہ کوئی
محض اس وجہ سے کہ اس کا تعلق اپو زیشن سے ہے اسے معاف کر دیا جائے۔قانون سب
کے لئے برابر ہو نا چائیے اور اس میں اگلے پچھلے کی کوئی تفریق نہیں ہو نی
چائیے۔کل کے لٹیرے اور کرپشن کے بادشاہ اب زاہد،عابد اور پاک صاف بن کر
سامنے آ رہے ہیں حالانکہ سب کے علم میں ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کو سوئیس
عدالتوں کو خط نہ لکھنے کی وجہ سے وزا رتِ عظمی سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ کیا
یہ ممکن ہے کہ جو کل کو اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے ہوئے تھے انھیں محض اس
وجہ سے چھوڑ دیا جائے کہ وہ میاں محمد نواز شریف کی مخالفت میں تحریکِ
انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں؟،شوکت عزیز اور اس کی کابینہ کے سارے کرپٹ عناصر کا
آج کوئی نام نہیں لیتا کیونکہ اب وہ اقتدار میں نہیں ہیں۔اقتدار اس وقت
چونکہ میاں محمد نواز شریف کے پاس ہے لہذا سارے لنگوٹ کس کر میاں محمد نواز
شریف کے پیچھے پڑ گئے ہیں گویا کہ میاں محمد نواز شریف کو بچھاڑ دیا تو
اقتدار پکے ہوئے پھل کی طرح جھولی میں گر پڑے گا۔حالنکہ وہ یہ بھول رہے ہیں
کہ جس شخص کا نام میاں محمد نواز شریف ہے وہاتنی آسانی سے اقتدار سے دست
بردار ہونے والا نہیں ہے۔اپوزیشن ہمیشہ وزیرِ اعظم کے استعفی کا مطالبہ
کرتی رہتی ہے لیکن وزیرِ اعظم یو ں ہی مستعفی تو نہیں ہوتے۔کیا ذولفقار علی
بھٹو نے پی این اے کی تحریک کے سامنے ا ستعفی پیش کر دیا تھا؟کیا جنرل ضیاا
لحق ایم آر ڈی کی تحریک میں مستعفی ہو گیا تھا ؟ کیا محترمہ بے نظیر بھٹو
نے اسلامی جمہوری اتحاد کے خوف سے استعفی دے دیا تھا؟ کیا جنرل پرویز مشرف
پی پی پی اور مسلم لیگ کی چلائی گئی تحریک میں مستعفی ہو گیا تھا؟بالکل
نہیں کیونکہ وزارتِ عظمی کوئی معمولی عہدہ نہیں جس پر انسان مستعفی ہو
جائے۔اوزیشن کا کام استعفی طلب کرنا ہے لیکن حکومت کا کام ان کے مطالبے کو
رد کرنا ہوتا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان کے زیرِ سرکردگی ایک کمیشن تشکیل دیا
جا چکا ہے۔اسے ہی اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ پاکستان کے اصلی لٹیرے کون
کون ہیں؟میاں محمد نواز شریف اور ان کی اولاد کو نا اہل قرار دینے سے کام
نہیں چلے گا۔حیران کن بات یہ ہے کہ پانامہ لیکس میں میاں محمد نواز شریف کے
علاوہ ۲۶۰ افراد بھی ہیں لیکن ان کی بات کوئی نہیں کرتا ۔کیا ان کی لوٹی
ہوئی دولت پاکستان کی دولت نہیں ہے ؟ کیا انھوں نے پاکستانی خزانے کو نقصان
نہیں پہنچایا؟ کیا انھوں ننے وطن سے غداری نہیں کی؟ کیا انھوں نے ٹیکس چوری
نہیں کی؟ کیا انھوں نے منی لانڈرنگ نہیں کی؟ اگر یہ سب درست ہے تو پھر
انھیں کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ ان افراد
کے خلاف زہر اگلنے سے اقتدار کی راہیں آسان نہیں ہو سکتیں اس لئے ساری
توانائیاں اس خا ندان کے خلاف استعمال کی جارہی ہیں جن کو گرانے سے اقتدار
کا سفر آسان ہوسکتا ہے۔
ہمارے اخلاقی بانجھ پن کا اس سے برا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ عمران خان
میاں محمد نواز شریف نکی دشمنی میں ان قوتوں سے بھی ہاتھ ملا رہے ہیں جن کے
خلاف بولتے بولتے ان کی آواز بیٹھ گئی تھی۔پی پی پی کل عمران خان کی توپوں
کی زد میں تھی لیکں آج وہی پی پی پی عمران خان کے ساتھ مل کر میاں محمد
نواز شریف پر کرپشن کے الزامات لگا رہی ہے اور پانامہ لیکس میں میاں محمد
نواز شریف کے دونوں بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز کے نام آنے سے وزیرِ اعظم
کے استعفی کا مطالبہ کر رہی ہے۔عمران خان کے بارے میں ایک عمومی تاثر یہ ہے
کہ وہ ایک اصول پسند سیاست دان ہے لیکن اس نے اقتدار اکی خاطر ایک بھیانک
یوٹرن لے کرثا بت کر دیا ہے کہ اسے اصول نہیں بلکہ اقتدار زیادہ عزیز ہے ۔جو
کل برے تھے وہ آج بھی برے ہیں۔انھیں کسی کی دشمنی میں پارسائی کا سرٹیفکیٹ
نہیں تھمایا جا سکتا۔عمران خان کی نظریں وزارتِ عظمی پر ٹکی ہوئی ہے اور وہ
اس مسند کو ہر حال میں حا صل کرنا چاہتاہے۔اسے اس بات کی پرواہ بھی نہیں کہ
پی پی پی کے ساتھ ہاتھ ملانے سے اس کی اپنی سیاسی حیثیت متاثر ہو سکتی ہے
کیونکہ وہ لوگ جو پی پی پی کو ملک میں کرپشن کے فروغ کا ذمہ دار سمجھتے ہیں
وہ اس سے مایوس ہو جائیں گئے ۔اقتدار کی ایک ایسی خوفناک جنگ چھڑ چکی ہے جس
میں پاکستان کا وجود خطروں میں گھرا ہوا ہے۔ہمارا ازلی دشمن بھارت اس طرح
کی جنگ کو بڑے غور سے دیکھ رہا ہے۔اس کے کئی گماشتے اس کے اشاروں پر اس جنگ
کو مزید بھڑکائیں گئے کیونکہ ایک منتشر اورغیر مستحکم پاکستان سدا سے
بھارتی حکومت کی حواہش رہی ہے۔پاکستانی فوج اس سارے نظر نامے میں خاموش
تماشائی کی طرح یہ سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ کور کمانڈرز اجلاس شائد اس گتھی کو
سلجا سکے کیونکہ اقتدار کی ہوس جب بھی حدود ناآشنا ہوئی ہے مارشل لاء ہی اس
ملک کا مقدر بنا ہے اور میری آنکھیں ایک دفعہ پھر وہی منظر نامہ دیکھ رہی
ہیں۔،۔ |
|