اقوام متحدہ کے کمیشن کا کشمیر پر یک طرفہ موقف

اقوام متحدہ کے اس اہم ادارے نے کشمیر پر متنازعہ بیان دے کرسلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی اپنی قراردادوں سے انحراف کیا ہے۔یہ اقوام متحدہ کا پیس بلڈنگ کمیشن یا کمیشن برائے قیام امن ہے۔ جو31رکن ممالک پر مشتمل ہے۔ اقوام متحدہ کے لئے پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی اس کی رکن ہیں۔ اس کمیشن کے چیئر مین کینیا کے اقوام متحدہ کے لئے مستقل مندوب مچاریا کماؤ ہیں۔ یہ کمیشن 2005کو قائم کیا گیا۔ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اس کے دائرہ کار کا تعین کیا۔ اس کے منڈیٹ میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ تنازعات کے بعد قیام امن اور متاثرین کی بحالی کے لئے کام کرے۔ یہی ادارہ تنازعات کے شکار علاقوں میں تعمیر نو کے کام کا طریقہ کار طے کرتا ہے۔ یہ ادارہ اس سلسلے میں سفارشات پیش کرنے کا پابند ہوتا ہے۔

یو این پیس بلڈنگ کمیشن کے چیئر مین نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس کے دوران تنازعہ کشمیر سے متعلق کمیشن کے موقف پر سوالوں کے جواب دیئے۔یہ ان کا کشمیر پر دور رس نقطہ نظر ہے یا اس میں کئی ابہام ہیں، اس بارے میں بحث جاری ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کے سلسلے میں سیاسی فوقیت اور مقامی صورتحال کا احترام کرنا ہو گا۔انہوں نے کہا، ’’مسئلہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان پائے جانے والے مقامی سیاسی ماحول کے تناظر میں حل کرنا ہو گا‘‘۔ کشمیر پر کمیشن کی اپروچ کے بارے میں انہوں نے کہا’’ہمیں ان مقامی حالات کا احترام کرنا ہو گا جو مذاکرات پر اثر انداز ہوتے ہیں‘‘۔ وہ سیاسی فوقیت کا مسلسل ذکر کرتے ہیں’’معاملے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہم امن کو قائم رکھنے کے خیال کا احترام کریں تا کہ صورتحال کو ابتر ہونے سے بچایا جا سکے‘‘۔ وہ کشمیر میں کمیشن کی مداخلت کے خلاف ہیں’’ہم ان عمل کو آگے بڑھانے کے لئے برصغیر پاک و ہندمیں موجودزیادہ سے زیادہ اداروں تک رسائی حاصل کرتے ہیں، خطے کے حوالے سے ہماری یہی امنگ ہے‘‘۔ اقوام متحدہ کا یہ قیام امن کمیشن کیا کرتا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا امن قائم کرنے کا مقصد مسائل کا حل تلاش کرنا ہوتا ہے۔ یہ تاریخی مواقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ کماؤ کے مطابق وہ ایسے تاریخی مواقع تلاش کر رہے ہیں کہ جس میں انہیں تمام کرداروں کو مشغول کرنے کا موقع مل جائے۔ یہ کردار صورتحال کا حل ڈھونڈنے کے لئے دستیاب ہوتے ہیں یا کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ کمیشن کے چیئر مین کا کشمیر پر موقف سن کر محسوس ہوتا ہے کہ اسے فی الوقت بھارتی کردار ہی دستیاب ہیں۔ کیوں کہ وہ ان ہی کا موقف بیان کر رہے ہیں۔

زمینی صورتحال کا احترام کیا ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ کمیشن اس صورتحال کے احترام کی کیوں بات کرنے لگا ہے۔ یہ بات ہمیں بھارتی موقف کو سامنے رکھ کر سمجھ آ سکتی ہے۔ بھارت مسلہ کشمیر کو شملہ معاہدہ اور اعلان لاہور کی روشنی میں حل کرنا چاہتا ہے۔ بھارت نے یہ حل پاک بھارت دو طرفہ بات چیت میں چھپا دیا ہے۔ جبکہ حقائق اس کے خلاف ہیں۔ یہ مسلہ پاک بھارت سرحدہ تنازعہ نہیں۔ یہ عالمی متنازعہ مسلہ ہے۔ نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے یہ اقوم متحدہ میں موجود ہے۔ سلامتی کونسل کی اس پر قراردادیں ہیں۔ سلامتی کونسل کی ہدایت پر اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین جموں و کشمیر کی جنگ بندی لکیر پر موجود ہیں۔ وہ اس کی نگرانی کر رہے ہیں۔ روزانہ اپنی رپورٹیں یو این سیکریٹری جنرل کو ارسال کر رہے ہیں۔

کشمیر کی جنگ بندی لائن پر اقوم متحدہ کے ان فوجی مبصرین کی موجودگی ہی مسئلہ کشمیر کو عالمی متنازعہ مسلہ قرار دلانے میں کافی ہے۔ اقوم متحدہ کے کسی بھی کمیشن کے اختیارات سلامتی کونسل سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔ تمام ادارے سلامتی کونسل کے ماتحت ہیں۔ یو این پیس بلڈنگ کمیشن کے سربرای کا بیان پاکستان نے نظر انداز کر دیا۔ جبکہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی بھی اس کمیشن کا حصہ ہیں۔ انھوں نے کوئی وضاحت جاری نہیں کی ہے۔ یا اگر کوئی ردعمل دیا بھی ہے۔ وہ گول مول ہے۔ انہوں نے اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس کمیشن کی سرگرمیوں کے جائزہ پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ امن تب قائم ہو سکتا ہے کہ جب تنازعات کو حل کیا جائے اور اس کی بنیادی وجوہات دور کی جائیں۔ ان کا اشارہ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قیام امن سے متعلق قرارداد تھی۔ جو قیام امن کے لئے ڈھانچے کی بہتری سے متعلق تھی۔ ڈاکٹر لودھی نے مچاریہ کماؤ کے کشمیر پر موقف کا کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ یا رضاکارانہ طور پر خاموشی پر اکتفا کیا ہے۔

پاکستان عالمی قیام امن کے لئے منفرد کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان کے فوجی دستی پیس کیپنگ کا حصہ ہیں۔ جن کی دنیا کے امن کے لئے بے شمار قربانیاں ہیں۔ حکومت پاکستان کو وضاحت طلب کرنا چاہیئے کہ چیئرمین کماؤ نے پاک بھارت کی کس زمینی صورتحال کے تحت کشمیر کو حل کرنے کا نیا موقف پیش کیا ہے۔ کیا یہ سب اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے پالیسی کی نفی نہیں؟۔ ڈاکٹر لودھی نے اس موقف کو نظر انداز کرتے ہوئے سلامتی کونسل میں مزید غیر مستقل نشستیں قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ درست ہے۔ سلامتی کونسل میں مستقل ارکان کی تعداد میں اضافے کے بجائے سلامتی کونسل میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ مستقل ارکان من مانی کر رہے ہیں۔ کسی بھی اہم ایشو کو کوئی بھی ایک رکن ویٹو کر دیتا ہے۔ اگر سلامتی کونسل میں مستقل ارکان کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے تو پھر ویٹو کے اختیارکو ختم کیا جانازیادہ اہم ہو گا۔ یہ ایشو اپنی جگہ اتنا ہی اہم ہے کہ جس قدر پیس بلڈنگ کمیشن کے سربراہ کا موقف۔ کیوں کہ اس سے پاکستان کی کشمیر پالیسی کی بھی نفی ہوتی ہے۔ اس سے اقوم متحدہ اور سلامتی کونسل کے موقف کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس خلاف ورزی پر ان کی تصحیح ہونی چاہیئے۔ کیوں کہ بھارت نے انہیں گمراہ کر دیا ہے۔ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی مندوبین پاکستانی سفارکاروں کو دوستی اور بات چیت کے جھانسے میں لاکر دنیا کو گمراہ کرنے کا سلسلسہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بلکہ اس میں انھوں نے تیز ی بھی لائی ہے۔ پاکستان اس کمیشن سے براہ راست جواب طلب کر سکتا ہے اور غلط موقف کی تشہیر کی درستی پر توجہ دلا سکتا ہے۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 483896 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More