مجھے آج پرویز رشید بڑے یاد آئے خاص طور پر
مولانا فضل الرحمن اور اکرم درانی کی تقریروں کے دوران پاکستان مسلم لیگ کے
فرنٹ مین اور وفاقی وزیر اطلاعات کا وہ بیان یاد آیا جس میں انہوں نے کہا
تھا مدارس جہالت کی یونیورسٹیاں ہیں۔کیا وہ اس جیسے مجمعے کو دیکھنے کے بعد
فرما گئے یا پھر سوچی سمجھی سکیم کے بعدانہوں نے وہ مشہور زمانہ بیان
دیا۔وہ جو کچھ بھی کہہ گئے اور جس لئے فرما گئے ہم نے ان کے اس بیان کی
شدید مذمت کی۔ہزارہ سے میرے ایک عزیز نے فون پر بتایا کہ مدرسوں کے مہتمم
بنوں جلسے میں متحرک کئے گئے اور مولانا گل نصیب اور دیگر علماء انہیں
زبردستی جلسے میں لے گئے۔اسلام آباد ہزارہ اور دیگر شہروں سے مدارس کے
طلباء کو گاڑیوں میں بھر کر جلسہ گاہ لایا گیا اور وہاں مولانا فضل الرحمن
اور ان کے ہمنواؤں نے وہ قوالی کی جو انہیں زیب نہیں دیتی تھی۔مولانا ایک
عرصے سے عمران خان کو یہودی کہہ رہے ہیں مجھے اسلام کا اتنا تو علم ہے کہ
ایک صحابیہ جو یہو دیت سے تائب ہو کر مسلمان ہوئی تھیں اور نبیﷺ کے نکاح
میں تھیں انہیں امہات موئمنین میں سے کسی نے یہودیہ ہونے کا طعنہ دیا تو آپﷺ
نے اس کا شدید برا منایا۔ حضرت مفتی محمود کے صاحبزادے سے بصد ادب سوال ہے
کہ کیا ایک کلمہ گو کو آپ اس بات کا طعنہ دے سکتے ہیں کہ اس نے کسی زمانے
میں ایک یہودی کی صاحبزادی کو مسلمان کر کے شادی کی تھی ؟علماء حق نے اس
ملک کی داغ بیل ڈالنے میں قائد اعظم کا ساتھ دیا اور مولانا فضل الرحمن
جیسے لوگوں نے قائد اعظم کو کافر اعظم کہا۔کیا پاکستان کے لوگوں نے انہیں
جگہ دی یا نہیں ۔آج بھی اگر ان علامء کی مجالس میں بیٹھیں تو وہ قائد اعظم
کی شان میں سخت جملے استعمال کرتے ہیں۔مولانا فضل الرحمن آج بہت چھوٹے نظر
آئے انہیں اس بات کا دکھ ہے کہ بنوں میں انہیں شکست فاش دی گئی۔ایک ایسی
نشست جو ڈیرہ اسمعیل خان کی تھی جہاں سے ذوالفقار علی بھٹو بھی ان کے والد
محترم جن کا میں دل سے احترام کرتا ہوں کو تحریک انصاف نے چاروں شانے چت
کیا صرف انہیں ہی نہیں ان کے بھائی اور بیٹے کو بھی شکست کا سامنا کرنا
پڑا۔انتحابی سیاست میں ہار جیت عام سی بات ہے لیکن لگتا ہے جمعیت علامئے
اسلام کے سربراہ اپنی اس شکست کو دل پر لے بیٹھے ہیں۔جس کیفیت سے وہ گزرتے
دکھائی دیے شائد انہیں ۲۰۱۳ ابھی تک نہیں بھولا ۔عمران خان کے بارے میں
وزیر اعظم جس انداز سے گویا ہوئے لگتا تھا کہ میاں نواز شریف مملکت پاکستان
کے وزیر اعظم نہیں مسلم لیگی لیڈر ہیں ان کی اس تقریر کو سن کر لگا کہ
خواجہ سعد رفیق،عابد شیر علی پائے کا کوئی لیڈر ہے ۔مانسہرہ میں جلسہ تو
ہوا مگر دیہاڑی دار اب تک اپنی رقوم طلب کر رہے ہیں اور یہاں ان طلباء کو
گھیر گھار کر بسوں میں بھر کر لایا گیا جنہیں والدین نے اسلامی تعلیم حاصل
کرنے کے لئے ان مدارس میں بھیجا جسے مسلم لیگ نون جہالت کی یونیورسٹیوں کا
خطاب دے چکی ہے۔مولانا سیاست کے میدان میں اتنے تجربہ کار ہیں کہ ایم ایم
اے کے دور میں ایک بار عدم اعتماد کی بات چلی تو مکہ مکرمہ چلے گئے اور جب
وقت گزر گیا تو پاکستان تشریف لے آئے۔آج آپ کو بڑے مزے کی بات بتاتا ہوں
ڈیرہ اسمعیل کی ہزاروں ایکڑ اراضی جو انہوں نے جنرل مشرف سے اس ہتھیائی تھی
تحریک انصاف نے ان سے واپس لے کر سرکار کے نام کر دی ہے۔مولانا جنہیں ل ی
لے کے علاوہ کچھ نہیں آتا جب د ی دے کا سامنا کرنا پڑا تو ظاہر ہے ان کی
چیخیں بلا جواز نہیں ہیں۔مولانا مفتی محمود کے صاحبزادے کو اس بات کا گر
آتا ہے کہ کب کس سے کیا،کتنا اور کیسے لینا ہے۔ وہ ایک جانب عورت کی حکومت
کے خلاف فتوی دیتے ہین اور پھر اسی کی حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں۔جب نون لیگ
کی حکومت بنی تو انہیں کچھ نہیں ملا تھا لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد جب دھرنوں
کا دور شروع ہوا تو انہوں نے تر کی چال چل کر نوٹ بٹورے۔اس بار بھی دیکھ
لیجئے اگر میاں نواز شریف اس منجدھار سے نکلتے ہیں تو مولانا پھر فوائد
سمیٹیں گے۔علماء جو وارث انبیاء ہیں کیا وہ اپنی بھاگ دوڑ مولانا فضل
الرحمن کے حوالے کریں گے؟مشرف دور میں جب لال مسجد پر چڑھائی ہوئی تو اس
وقت جمیعت علمائے اسلام کے یہ سرخیل کہاں تھے ؟جامعہ حفصہ پر لشکر کشی ہوئی
تو علماء کا یہ طبقہ خاموش ہو گیا اور اس وقت ریاستی جبر کے خلاف جس شخص نے
آواز اٹھائی وہ عمران خان تھے انہوں نے ہر قسم کی انتہا پسندی کی مذمت
کی۔اسی طرح پارٹی میں علماء مشائخ کو ان کا مقام دیا ۔شادیوں کا چلنا قائم
رہنا اس میں اﷲ کی مرضی ہوتی ہے لیکن ریحام خان کی شادی کے سارے انتظامات
مفتی سعید صاحب کی ہدائت کے مطابق کئے۔ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ
مولانا اپنا سیاسی وزن کس کے پلڑے میں ڈالتے ہیں اور کس مفاد کی خاطر ڈالتے
ہیں۔لیکن یہ یاد رکھیں اس لولی لنگڑی حکومت جس کا ذکر اکرم خان درانی کر
رہے تھے اس نے کے پی کے ایزی لوڈ اور جہالت کی یونیورسٹیوں کے مہتممین کو
عبرت ناک شکست دے کران کے سینے پر مونگ دلنے کے تین سال مکمل کر لئے ہیں۔اب
میں انہی لوگوں سے سوال کرتا ہوں کہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ موجودہ
حکومت نے گزشتہ حکومت سے بہتر کام کئے ہیں یا نہیں۔میاں صاحب کو کے پی کے
میں نیا صوبہ کیسے دکھائی دیتا اس لئے کہ ان کے اپنے صوبے کی پولیس انگریز
دور کی پولیس ہے جس سے ہر شریف شخص کو خوف آتا ہے۔جب کے خیبر پختونخوا کی
عوام دوست پولیس نے عوام کے دل موہ لئے ہیں۔محکمہ مال صحت اور دیگر محکموں
کے بارے میں حالیہ سروے ثابت کر چکے ہیں کہ کے پی کی حکومت چاروں صوبوں سے
بہتر کام کر رہی ہے۔ہاں یہ سچ ہے کہ تحریک انصاف دودھ کی ندیاں نہیں بہا
سکی البتہ خون کی ندیاں بھی نہیں بہائیں۔میاں صاحب کو شائد مولانا فضل
الرحمن کے حواریوں نے بتایا ہے کہ ہمیں موقع دیں کہ ہم اس حکومت کو ختم کر
کے ایک نئی حکومت بناتے ہیں۔میاں صاحب کو ایک بات بتا دوں کہ ان کے اپنے
مسلم لیگی اس کوشش کی مخالفت کریں گے۔یہ بات میں وثوق سے کہہ رہا ہوں اس
لئے کہ وہ کے پی حکومت کے وزیر اعلی پرویز خٹک سے مطمئن ہیں انہیں کیا
تکلیف ہے کہ ایک لالچی شخص جس نے جنرل مشرف کے پاؤں دھوئے وہ ان سے جا ملیں
جن کے اپنے شکم پورے صوبے کے وسائل کو ہڑپ کرنے کے بعد بھی ہل من مزید کا
رونا روئیں گے۔مولانا اس بنئے کے بیٹے کی مانند ہیں جو کچھ گراتا بھی کسی
فائدے کے لئے ہے۔ |