بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں تمام
فریقین سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ تشدد کی کارروائیوں میں ہسپتالوں ، صحت کی
دیکھ بھال سے وابستہ افراد اور طبی تنصیبات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے
اورایسے واقعات میں ملوث ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا
جائے۔برطانیہ میں شام کی صورت حال پر نظر رکھنے والے حقوقِ انسانی کے ادارے’
’سیریئن آبزرویٹری‘‘ کے مطابق 22 اپریل سے اب تک شہر پر ہونے والی گولہ
باری، راکٹ فائر اور فضائی حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں شہری جاں بحق ہوچکے
ہیں۔جاں بحق ہونے والوں میں سے بیسیوں افراد اس وقت دم توڑ گئے جب فضائی
حملے میں ہسپتال کو نشانہ بنایا گیا۔قرارداد کا مسودہ کونسل کے ارکان نیوزی
لینڈ، سپین، مصر، جاپان اور یوراگوئے نے تیار کیا تھا۔اقوا م متحدہ کے
سیکرٹری جنرل بانکی مون نے بھی ہسپتالوں پر بمباری کی مذمت کی ہے۔
شام کے صدر بشار الاسد کی ہٹ دھرمی اور اقتدار پر قابض رہنے کی ہوس نے پورے
ملک کو کھنڈر میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ شامی حکومت روس اور دیگر اتحادی
ملکوں کی سرپرستی میں اپنے ہی عوام کا قتل عام کر رہی ہے۔ شامی فورسز کی
بمباری سے ہسپتال اور سکول بھی محفوظ نہیں ہیں ۔شہری آبادیوں ، تعلیمی
اداروں اور ہسپتالوں کو منظم منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنایا جارہا ہے۔
پوری دنیا ملبہ کے ڈھیر بنی عمارتوں، معصوم بچوں اور عورتوں کی خون میں
ڈوبی ہوئی لاشوں کو دیکھ رہی ہے‘سوشل میڈیا پر ایسی ایسی تصاویر اپ لوڈ ہو
رہی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر قلیجہ منہ کو آتا ہے لیکن نام نہاد بین الاقوامی
حقوق انسانی کے اداروں او رملکوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ پچھلے
کئی دن سے متعدد شہروں خاص طور پر حلب پر مسلسل بمباری کی جارہی ہے۔ شامی
حکومت کی طرف سے پہلے دعویٰ کیا جاتارہا ہے کہ ان کاروائیوں میں عسکریت
پسندوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے لیکن جب شہری آبادیوں اور ہسپتالوں پر بمباری
کے نتیجہ میں قتل عام دنیا کے سامنے آیاتو پینترا بدلتے ہوئے کہہ دیا گیا
کہ یہ بمباری باغیوں نے کی ہے۔ پوری ڈھٹائی سے عالمی برادری کی آنکھوں میں
دھول جھونکنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ حلب میں اس قدر تباہی ہوئی ہے کہ
تباہ شدہ عمارتوں کا ملبہ ہٹانے اور لاشوں کو دفنانے کیلئے رضاکار ملنا
محال ہے۔بمباری سے گھروں میں موجود عام شہری، ہسپتالوں میں موجود ڈاکٹرز
اور پیرا میڈیکل سٹاف نشانہ بنے ہیں ۔ شہید ہونے والوں کی اکثریت گھروں میں
موجود بچوں اور عورتوں کی ہے۔ گذشتہ چند ماہ میں روسی جنگی طیاروں نے حلب
جو شام کا ایک بڑا شہر ہے‘ کو خاص طور پر حملوں کا نشانہ بنایا ہے جس سے
پور ا شہر کسی ویران کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ مغربی ممالک کی طرف سے
یہاں پہلے داعش کو پروان چڑھایا گیا اور اب انہیں کچلنے کے بہانے سنی
العقیدہ مسلمانوں کا بے دردی سے خون بہایا جارہا ہے۔ روس اور دیگر ملکوں کی
سرپرستی میں جس طرح وحشیانہ انداز میں شامی فورسز نے اپنے شہریوں کا قتل
عام کیا ہے تاریخ انسانی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ طرفہ تماشایہ ہے
کہ نام نہاد امن کے علمبردار اور انسانی حقوق کے ٹھیکیدار ملکوں کی جانب سے
ان علاقوں میں کمک بھجوائی جارہی ہے جو فتنہ تکفیر اور خارجیت کا شکار داعش
نامی تنظیموں کے کنٹرول میں ہیں۔شام میں قتل و غارت گری سے اب تک ایک
کروڑسے زائد افراد اپنا گھر بار چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور
ہیں۔دس لاکھ افراد شہید کر دیے گئے۔ پینتیس لاکھ کے قریب شام کے اندر اور
ستر لاکھ سے زائد افراد ملک سے باہر مہاجر بن کر زندگی بسر کرنے پر مجبور
ہیں۔ شہروں کے شہر بمباری سے ملیامیٹ کر دیے گئے۔ انفراسٹرکچر تقریبا مکمل
طور پر تباہ ہو چکاہے۔ لوگوں کے رہنے کیلئے جگہ نہیں رہی۔ بین الاقوامی
دنیا شامی شہریوں کو بچانے کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کر رہی اور اس حوالہ
سے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کی زیر
نگرانی امن معاہدہ کیا گیا لیکن بشار حکومت مسلسل اس معاہدہ کو پاؤں تلے رو
ند رہی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر شہری علاقوں پر بمباری کر کے نہتے شامی
مسلمانوں کو شہید کیا جارہا ہے مگر عالمی طاقتیں مصلحت پسندی کی چادر اوڑھے
ہوئے ہیں۔ پچھلے چند دنوں میں جس طرح شام میں قتل وغارت گری کا بازار گرم
کیا گیا چاہیے تو یہ تھا کہ انصاف پسند دنیا شام کی ہٹ دھرم حکومت کا ہاتھ
روکتی اور روس کو بمباری سے باز رکھا جاتامگر چو نکہ یہ مسلمانوں کا مسئلہ
ہے اس لئے ایسا نہیں کیا گیااور کھلی آنکھوں سے نام نہاد امن معاہدہ کو
پامال ہوتے دیکھا جارہا ہے۔جنیوا کنونشن کی پابند حکومتیں صرف بیانات دے
رہی ہیں عملی طور پر کوئی ایکشن نہیں لیا جارہا۔ حلب شہر کا کئی مہینوں سے
محاصرہ ہے ۔ شہریوں کو اشیائے خوردونوش نہیں مل رہیں۔ انہیں ادویات اور طبی
سہولیات میسر نہیں ہیں ۔ معاملات انتہائی سنگین ہیں مگر عالمی پابندیوں کی
وجہ سے حالات کی صحیح تصویر کشی نہیں ہو رہی۔ خلیجی ریاستوں نے مظالم پر
مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ترکی کی جانب جانے والی سڑکیں بند کر دی
گئی ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں شامی مہاجرین راستوں میں مشکل ترین حالات میں
زندگی کے ایام گزار رہے ہیں۔ سلامتی کونسل کے اجلاس سے قبل خلیج تعاون
کونسل نے شام کے شہر حلب کے ہسپتالوں اور شہری آبادی پر سرکاری فوج کی
وحشیانہ بمباری کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے سنگین انسانی جرم قرار دیا۔نیوز
ویب سائٹ حرمین نیوز ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق خلیج تعاون کونسل کے
سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبدالطیف بن راشد الزیانی نے کہاکہ اسدی فوج نے
ہسپتالوں اور عام شہری آبادی پر بمباری کے ذریعہ سینکڑوں افراد شہید اور
زخمی کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ انسانیت سے مکمل طور پر عاری ہے۔خلیج
تعاون کونسل نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ حلب میں شامی فوج کی
جارحیت کا نوٹس لینے کے لیے بشارالاسد اور اس کی فوج کے خلاف فوری کارروائی
شروع کرے۔ اگرچہ سلامتی کونسل نے اس مطالبہ پر شامی مسلمانوں پر مظالم
کیخلاف مذمتی قرارداد تو منظور کی ہے لیکن اس کی حیثیت کاغذ کے ایک ٹکڑے سے
زیادہ نہیں ہے۔ مشرقی تیمور کا مسئلہ ہو تو ان قراردادوں پر فوری عمل درآمد
ہو جاتا ہے لیکن مسلمانوں کے حوالہ سے ان قراردادوں کایہی حشر ہو تا ہے جو
مسئلہ کشمیر سے متعلق پاس کردہ قراردادوں کا آج تک ہو رہا ہے۔حقیقت یہ ہے
کہ اقوام متحدہ شام میں قتل و غارت کے مسئلہ پر اپنا یہ وعدہ پورا کرنے میں
مکمل طور پر ناکام ہے کہ امن مذاکرات جنگ بندی کے ساتھ کئے جائیں گے اور
ریلیف سرگرمیوں میں حصہ لینے والے رضاکاروں کو حلب و دیگر علاقوں میں محصور
افراد کیلئے اشیائے خورونوش و دیگر اشیاء کی ترسیل کی اجازت دی جائے
گی۔فروری میں ہونے والے جنگ بندی معاہدہ کے بعد شامی شہریوں پر پہلے سے
زیادہ تشدد دیکھنے میں آیا ہے ۔اس سے عرب امور سے آگاہی رکھنے والے مبصرین
کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت ثابت کرتی ہے کہ مذاکرات کا مقصد بشار الاسد حکومت
کو روس و دیگر اتحادی ملکوں کی افواج کی مدد سے نہتے شامی شہریوں کی قتل و
غار ت گری کا موقع فراہم کرنا ہے۔ بہرحال یہ بات طے شدہ ہے کہ مسلم حکمران
امریکہ جیسے جن ملکوں اور اداروں سے توقعات اور امیدیں وابستہ کئے ہیں وہی
تو درحقیقت مسلمانوں کو درپیش مسائل پیدا کرنے والے ہیں۔ مسئلہ‘ کشمیر و
فلسطین کا ہو یا شام کا‘یہ مسلمانوں کو ہی حل کرنے ہیں۔ او آئی سی مسلمانوں
کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم ہے‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اس حوالہ سے
سربراہی اجلاس بلا کر باہم مشاورت سے حکمت عملی ترتیب دے۔ سعودی عرب کی زیر
قیادت مسلمان ملکوں کے قائم اتحاد کیلئے بھی یہ موقع ہے کہ وہ شام کے مظلوم
مسلمانوں کے تحفظ کیلئے بھرپور کردار ادا کر ے تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ یہ
پورے عالم اسلام کا نمائندہ اتحاد ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب اس سلسلہ میں
مضبوط قدم اٹھا سکتے ہیں۔ اسی طرح ایران کے حوالہ سے بھی میں یہاں کہنا
چاہوں گا کہ وہ خطہ کا ایک اہم ملک ہے لیکن شام کے مسئلہ پر اس کا کردار
دوسرے مسلمان ملکوں سے مختلف نظر آتا ہے۔ نہتے شامی مسلمانوں پر مظالم پر
اسے بھی پریشان ہونا چاہیے اور بشار الاسد کی ظالم حکومت کا ہاتھ روک کراسے
خود کو امت مسلمہ کے اتحاد کاعملی حصہ ثابت کرنا چاہیے۔مسلمان ملک باہم
متحد ہو کر مظلوم مسلمانوں کے تحفظ کیلئے یقینی طور پر بہتر کردار ادا
کرسکتے ہیں۔ |