لبرل ازم یا ٹھرک پن
(Shahzad Saleem Abbasi, )
جیسے مختلف قسم کے پرانے انٹرویوز، بیانات،
تحریریں، الزامات ،سابقے اور لاحقے ہمیں روز مرہ کی زندگی میں میڈیا کے
پردوں پر دیکھنے پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں اسی طرح آیات ربانی، احادیث،
فقہ، دلائل، کہانیاں، محاورے، ضرب المثل اور من گھڑت واقعات سے بھی ہمیں
بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے( سیکھنے کا عمل جو کہ ہمارے ہاں ناپید ہے) لیکن
چونکہ اس میں ہمارا براہِ راست کوئی فائدہ نہیں ہوتا اس لئے ہم اس
Stuffکوپس پشت ڈال دیتے ہیں جیسے یہ ہمارے لئے نہیں بلکہ چرند پرند یا درند
کے لئے بنائے یا کہے گئے ہوں۔ایک سبق آموز سچا یا جھوٹا واقعہ یاد آرہا ہے
جو آج کے حکمرانوں پر نہ صرف من وعن صادق آتا ہے بلکہ ان راشیوں،سود خوروں،
بد معاشوں اور معاشرے کے ناسوروں پر مطلقاََ لاگو بھی کیاجا سکتا ہے۔کہتے
ہیں کہ ایک شخص اپنے گدھوں کوہانکتے ہوئے جا رہا تھا کہ وہاں سے بادشاہ
سلامت کا گزر ہوا ، بادشاہ سلامت گویا ہوئے کہ بھلے مانس تم نے ایسا کیا
طریقہ اختیار کیا ہے کہ تمام گدھے لائن میں چل رہے ہیں اور آگے پیچھے نہیں
ہو رہے ! گدھے والے نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت میرے ہاں عدل انصاف کا
ترازو ان تمام کے لیے ایک سا ہے میں نہ ان سے زیادتی کرتا ہوں اور نہ انکی
خرمستی مانتا ہوں بس ان میں سے جو بھی کوتاہی برتتا ہے اسے فورا سخت سے سخت
سزا دیتا ہوں تاکہ وہ گدھا اگلی بار ایسی غلطی کرنے سے پہلے دس بار سوچے
اور دوسرے گدھوں کے لئے نشانِ عبرت بنے ۔بادشاہ سلامت نے کہا کہ اگر یہ سب
اتنا آسان ہے توٹھیک ہے کل سے تم یہ سب چھوڑو اور میری سلطنت میں بطور منصف(
چیف جسٹس ) کام کرو ۔کچھ دنوں بعد منصف کے پاس ایک چوری کا کیس آیا تو کھلی
کچہری لگائی اور حکم صاد ر کیا کہ چور کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں یہ کہنا تھا
کہ درباری منشی آیا اور کان میں آہستہ سے کہا کہ عالی جاہ یہ تو بادشاہ کا
آدمی ہے !منصف نے پھر اونچی آواز میں حکم جاری کیا کہ چور کے ہاتھ کاٹ دیے
جائیں یہ کہنا تھا کہ ایک وزیرحاضر ہوا اور خدمت میں دھیمی آوازمیں عرض کیا
کہ صاحب یہ بادشاہ کے خاص الخاص ہے اسلئے کچھ نرمی کا معاملہ فرمائیں ! اس
پر قاضی نے کہاکہ چور کے ہاتھ اور وزیر کی زبان کاٹ دو، اس دن کے بعد اس
ملک کی تقدیر بدل گئی۔
پانامہ لیکس ہو یا مالی غبن، معاشی ناانصافی، جنسی درندگی کا کوئی واقعہ ،
چھوٹے بڑے ادارے کرپٹ ہوں ۔عوام قصوروار ہو یا خواص سب کا برابر احتساب اور
مجرمین کو کٹہرے میں لایا جائے(ویسے اول الذکر گدھے والا واقعہ اسکا شافی
علاج ہے )۔ پر اب تو بات لیکس، ویکس، میکس اور کیکس سے آگے بڑھ اخلاقی
پستیوں تک جا پہنچی ہے ۔بات صر ف مسلم لیگ ن کے تھیلے، تحریک انصاف کے میلے،
پیپلز پارٹی کے جھولے ،ایم کیو ایم کے چالے، اے این پی کے منچلے اور پا ک
سرزمین پارٹی کے جھمیلے کی نہیں ہے معاملہ اب خطرناک حد آگے پھیل چکا ہے ۔شوشل
میڈیا ہو ،پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا ، ویٹس ایپ، فیس بک، انسٹا گرام،
ویڈیوایپس، یو ٹیوب، ڈیلی موشن یا کوئی دوسرا ذرائع ابلاغ کا سورس ،اور پھر
سب کا بانی و استاد گوگل ۔۔ ان تمام جدتوں نے ہمیں آسائشوں ، آسانیوں ،
معاملہ فہمی،معلومات اور پوری دنیا کوجو گلوبل ویلج کی شکل تو دی ہے لیکن
اس کیساتھ ساتھ ہمیں نہ صرف کن ذہنی ، وقت کا ضیاع کرنے، نظروں کی خرابی،
معاشی و معاشرتی ناہمواری کا شکار بنا دیا ہے وہاں اس جدت نے ہمارے خاندان،
ہمارے گھروں ، بازاروں، تعلیمی اداروں ، دفتروں ، کاروباری مراکز ، غرض ہر
جگہ کو امتحان میں ڈال دیا ہے ۔ آج تقریباََ ہرتعلیمی ادارہ غیر محفوظ ہے
ہر ادارے میں آنے والا بچہ دوسرے دن آکر بچوں اور اساتذہ کو عشقِ ممنوع
جیسے ڈراموں اور فلموں بارے بتاتا ہے اور ان تمام چیزوں سے مرغوب ہو کر
طلباء اور عام آدمی غلط کاریوں کی طرف مائل ہوتا ہے او رنتیجتاََ نجس راستے
پر چل پڑتا ہے اور فطرت سلیمہ سے نکل کر گناہوں کی دلدل میں پھنستا چلا
جاتا ہے ۔ پہلے پہلے آداب واحترام کے الفاظ ہوتے تھے ، اب تو ابلاغ کے سب
سے بڑے منمبع پر نامور ٹی وی اینکر پرسن غیر شایستہ گفتگو کرتے نظر آتے ہیں
اور ان میں ایک طبقہ وہ ہے جو خود کو سیکولر کہتا ہے اور اس آڑ میں وہ ٹی
وی مالک سے سمجھوتہ کر کے ایسے ایسے پروگرام کرتا ہے اور کراتا ہے کہ ایک
مہذب فیملی کے دعویدار وہ پروگرام وہ لچھہ پن نہیں دیکھ سکتے۔ نیکی اور بدی
کا ہمیشہ سے مقابلہ رہا ہے لیکن ابلاغ کے اس جن نے تو لاکھوں، کروڑوں
زندگیاں گمراہ کر کے رکھ دی ہیں اور جن کے چاہنے والے اسکی بھینٹ چڑھے
انہوں نے سادہ انداز میں اتنا کہہ کر چپ سادھ لی کہ اسلام روشن خیال ہے اور
اسلام میں سب کو اپنی مرضی سے سانس لینے کی اجازت ہے جبکہ انسان تو اشرف
المخلوقات پیدا ہوا ہے ناکہ چوپایہ ۔ یہ سوچ تو چوپاہے کی ہوتی ہے کہ جسے
اپنے صبح و شام اور گھر بار کی پروا نہیں ہوتی۔اگر یہ لوگ قندیل بلوچ ،
میرا ، اسٹیج ٖڈراموں اور واہیات پروگراموں کو سننا پسند کرتے ہیں تو یقینا
یہ ٹھر ک ہے اور ٹھرک کے سوا کچھ نہیں ہے!انفرادی و اجتماعی تر بیت کا
فقدان ہے ، اداروں اور حکمرانوں کی تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے ۔
عمران خان کے جلسے میں یکے بعد دیگرے پیدا ہونے والی خطرناک ترین صورتحال
یقیناََ ہوس پوری کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے یہ لچے لفنگے لوگ کبھی جلسوں میں
جا کر ،کبھی ہوٹلوں میں ، کبھی محفلوں کو انجوائے کر کے تو کبھی اکیلے میں
یہ ٹھرک یا جنسی ہوس مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ قصور ٹی وی کا ہے یا ٹیکنا
لوجی کا ، ہماری کمزور تربیت کا یا مدر پدر آزار ماحول کا ، ہمیں ان باتوں
کو " Lighter Way ـ" میں نہیں لینا چاہئے کیونکہ یہ سوال ہے بیس کروڑ سے
زائد عوام الناس کا جن میں روزانہ کروڑوں عوام ا سی دلدل میں اپنے ہاتھ
گندے کر رہے ہیں۔جن سکولوں میں رقص و سرور کی تربیت سکھائی جاتی ہو ،جن
اداروں میں با قاعدہ ننگ دھڑنگ کلچر کو فروغ ملتا ہے تو ایسے ماحول میں
ایسا ہی ہوگا کہ جب جلسوں میں خواتین اپنے امیدوار یا لیڈر کو سپورٹ کرنے
جائیں گی وہاں انہیں خاردار تاروں کیساتھ بھی پٹخا جائیگا ، وہاں ان کیساتھ
انتہائی غیر اخلاقی حرکات بھی کی جائیں گی ، وہاں جان بوجھ کر اندھیرا کر
کے ٹولیوں کی شکل میں اور گھیرا ڈال ڈال کر انسان نما بھیڑیے اور درندے
ملیں گے جومحض اپنی حوس کی خاطر جلسے میں آئے ہونگے اور میری ناقص رائے میں
اسکا تعلق روشن خیالی یا لبرل ازم سے جوڑنا سنگین غلطی تصور ہو گی۔عمران
خان پر طنر و مزاح کے تیر برسانے والے ، عمران خان کے جلسوں میں فحاشی
وعریانی کے الزام لگانے والے، لبر ل ازم اور روشن خیالی کا راگ الاپنے والے
اور خواتین کو تحفظ نہ فراہم کرنے جیسے بیانات دینے والوں سے ادباََ عرض ہے
کہ اگر عمران خان کے آخری جلسے میں ان جوانوں کی جگہ وہ بھی ہوں تو شاید وہ
بھی وہی کچھ کرتے جو ان درندوں نے کیا کیونکہ یہ لَسٹ، یہ ہوس، یہ ٹھرک پن
اور یہ نفسانی خواہشوں کے طابع ہونا ایک ایسا مہلک مرض ہے جو دھیمک کیطرح
انسان کے عمل، اخلاق،معاشرتی اقدار ،رویے اور حتی کہ انسانی ذہانت اور
سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی چاٹ جاتا ہے اور خدانخواستہ اگر ہنگامی
بنیادوں پر تربیتی محاذوں پر کام نہ کیا گی تو بعید نہیں کہ قوم اپنی
اسلامی مشرقی ثقافت کو مغربی ثقافت سے بدلنے کا مطالبہ کر دے۔ |
|