احتجاجی سیاست

کسی بھی ملک کے لئے یہ انداز سیاست مثبت نتائج لیکر نہیں آیا۔اس سے وقت،کارکنوں کی صلاحیتیں اور مالی وسائل کے ضیاء کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔پاکستان کی تاریخ احتجاجی سیاست سے بھری پڑی ہے۔ایوبی دور سے لیکر گزشتہ پی پی کے دور تک بہت سے لیڈروں نے سڑکوں پر رونق لگائے رکھی۔صحیح جمہوری نظام صرف اس وقت نتیجہ خیز ہوتا ہے جب ہر حکومت کو Tenureپورا کرنے دیاجائے۔متعین وقت پر الیکشن ہوں اور جیتنے والی پارٹی کو اقتدار حوالے کر دیاجائے۔پاکستان کی تاریخ یہی بتاتی ہے۔کہ جب بھی احتجاجی تحریکیں چلیں اور ان کے نتیجے میں حکومتیں ختم ہوئیں۔آنے والی صورت حال پہلے سے بھی بدتر ثابت ہوئی۔اور جب حکومت کو اقتدار کا عرصہ پورا کرنے کا حق دیاگیاتو جمہوری نظام استحکام کی طرف رواں دواں نظر آیا۔2008ء اور2013ء میں ہونے والے الیکشن سے ملک سیاسی استحکام کی طرف بڑھتا نظر آیا۔سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والے اب بھی یہی کہتے ہیں کہ اقتدار کی اگلی گاڑی 2018ء میں سٹیشن پر آئے گی اور روانہ ہوگی۔کونسی پارٹی اور کونسا لیڈر اس میں سوار ہوگا اس کے بارے میں مستقبل کو جاننے والا میرا رب ہی جانتا ہے۔اگر پاکستان میں آئندہ آنے والی کئی دہائیوں تک الیکشن متعین عرصے کے بعد منعقد ہوتے رہے اور حق دار کو حق ملتارہا۔تو جمہوری نظام یہاں بھی قائم ہوجائے گا۔سٹرکوں پر آکر اور تحریکیں چلا کر اگر آپ حکومت وقت کو گھر بھیجیں گے تو اس سے نقصان ہی نقصان ہوگا۔جلسے کرنے اور جلوس نکالنے کی اجازت تو ہوتی ہے۔اپنے مسائل ومطالبات پیش کرنے پر پابندی بھی نہیں ہوتی۔لیکن ہرکام کے لئے ایک سلیقہ چاہیئے۔ایک منتخب وزیر اعظم کو یہ کہنا کہ آپ فوری طورپر استعفیٰ دیں اور گھر چلے جائیں یہ بات جمہوری رویے اور روایات کے خلاف ہے۔وزیراعظم کو تبدیل کرنے کا ایک طریقہ آئین اورقانون میں درج ہے۔اعتراض کرنے والے پارلیمنٹ میں آئیں۔اپنی اکثریت ثابت کریں۔وزیراعظم فوری طورپر فارغ ہوجائیں گے۔پارلیمانی نظام حکومت میں یہی طریقہ ہوتا ہے ۔مغربی ممالک کی پارلیمنٹ میں کئی دفعہ اس طریقے سے وزیراعظم بدل جاتا ہے۔عمران خان کئی دفعہ مغربی ممالک کی حکومتوں کے حوالے دیتے ہیں۔انہیں وزیراعظم کو گھر بھیجنے کے لئے یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیئے۔اس میں سڑکوں پر آکر نعرے لگانے اور شدید گرمی میں جلسوں میں گھنٹوں بیٹھنے کی تکلیف نہیں اٹھانا پڑتی اور پھر جلسہ ختم ہونے کے بعد محترم خواتین سے ہونے والی بدتمیزی کے مناظر۔اپنی ہی پارٹی کے کارکن انہیں مختلف انداز سے تنگ کرتے ہیں۔عمران خان نے جلسوں میں ڈانس ،بھنگڑے اور میوزک کو متعارف کروا کے پاکستان میں نئے کلچر کی بنیاد رکھ دی ہے۔ابتک یہی ایک تبدیلی ہے۔جو پاکستان کے شریف لوگوں کو نظر آرہی ہے۔محترم وزیر اعظم نے عمران خان کی خواہش کے عین مطابق حاضر سروس ججز پر مشتمل کمیشن بنانے کے لئے خط بھی لکھ دیا ہے۔چند دن میں یہ ترتیب پاجائے گا۔کمیشن کو ہر طرح کے اختیارات دے دیئے گئے ہیں۔کسی کو اس پر اعتراض نہ ہے۔اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے ججز پر مشتمل کمیشن سے زیادہ بااختیار اور بااعتماد کمیشن اور کوئی ہوبھی نہیں سکتا۔انہیں تو آئین میں درج تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ایسا کمیشن جہاں سے چاہے،جیسے چاہے اور جس کا چاہے تفصیلی احتساب کرسکتا ہے۔اس کے بعد کسی کا سٹرکوں پر آکر شور کرنا اور ٹریفک بلاک کئے رکھنا قانون کے خلاف ہے۔ PTIاحتجاج کرنے کے لئے اس دفعہ کئی دوسری پارٹیوں کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کررہی ہے۔2014ء کے دھرنے میں اسے اپنی ناکامی دیکھ کر اب دوسری پارٹیاں یاد آرہی ہیں۔PPPکی ضرورت اسے اب زیادہ محسوس ہوتی ہے۔کیونکہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن آئینی طورپر وہی ہے۔ابھی تک اجلاس جاری ہیں اور تمام نقاط پر اتفاق نہیں ہوا ہے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اتفاق کبھی بھی100۔فیصد نہیں ہوتا۔اتفاق یا اتحاد میں بھی اختلاف کی دراڑیں نظر آتی رہتی ہیں۔اتحاد کی صورتPNAوالی تو نہیں بن سکے گی۔وہ تحریک پہلے بھٹو مخالف تھی اور بعد میں تحریک نظام مصطفی کی شکل اختیار کرگئی تھی۔اور3۔ماہ کی تحریک کا نتیجہ مارشل لاء نکلا تھا۔کیا سیاسی قائدین کی اب بھی وہی خواہش ہے۔؟کوئی بھی70ء کی دہائی کی صورت حال پسند نہ کریگا۔یہ تاریخ کا طویل ترین مارشل لاء تھا۔حکومت مخالف لیڈرز کو برداشت کی صفت میں اضافہ کرنا چاہیئے۔Tenureکا آدھے سے زیادہ حصہ گزر چکا ہے۔2018ء کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔تمام پارٹیوں کو2018ء کے الیکشن کی تیاری کی طرف توجہ دینی چاہیئے۔حکومت مخالف اتحاد میں اس دفعہ پھر جماعت اسلامی بیٹھی نظر آرہی ہے۔اگر حکومت یعنی نواز شریف کے خلاف کوئی تحریک واقعی شروع ہوتی ہے۔اور اس میں جماعت اسلامی کے غریب،بے چارے اور مخلص کارکنوں کو جھونک دیاجاتا ہے۔تحریک میں تو ضرور جان پڑ جائیگی۔لیکن تحریک کے خاتمے کے بعد جماعت اسلامی کو اس سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔جماعت کے موجودہ اکابرین کو پاکستان میں چلنے والی حکومت مخالف تحریکوں کا جائزہ ٹھنڈے دل ودماغ سے لینا چاہیئے۔ان تحریکوں سے جماعت اسلامی کو حاصل ہونے والے فوائد اور نقصانات کا گوشوارہ بنانا ضروری ہے۔جماعت اسلامی60ء کی دہائی سے لیکر90ء کی دہائی کے آخر تک تمام حکومت مخالف تحریکوں میں شامل رہی ہے۔اس پر ـ"حکومت مخالف ـ" پارٹی کا ٹھپہ پختہ سیاہی سے لگ چکا ہے۔الیکشن میں باربار شکست کے بعد جماعت اسلامی کے معنی میں ہی ـ"ہار"کا مفہوم شامل ہوچکا ہے۔بہتر یہی ہے کہ جماعت اسلامی اس دفعہ کسی حکومت مخالف تحریک میں شامل نہ ہو۔اس سے نہ پہلے جماعت اسلامی کو کچھ فائدہ ہوا ہے اور نہ آئندہ ہوگا۔جو وقت اور صلاحتیں حکومت کے خلاف نعرے لگا کر ضائع کرنا ہے۔اسے دعوتی اور فکری کاموں میں لگانا چاہیئے۔تحریکیں ماضی کا جائزہ ٹھنڈے دل ودماغ سے لیتی رہتی ہیں۔احتجاج کے کلچر سے نکل کر مثبت انداز سے اپنی دعوت پیش کرنی چاہیئے۔جناب سراج الحق صاحب ایک سیاسی جماعت کے امیر زیادہ اور فکری ونظریاتی تحریک کے امیر کم نظر آتے ہیں۔انہیں اپنی اصل کی طرف لوٹ آنا چاہیئے۔زرداری جیسے لٹیروں کی پارٹی کے ساتھ بیٹھے امیرجماعت اسلامی ہرگز نہیں جچتے۔میری تمام سیاسی پارٹیوں سے یہی گزارش ہے کہ اپنا مطالبہ خوبصورت انداز سے پیش کرنے کے بعد کچھ انتظار بھی کرنا چاہیئے۔اب جبکہ پانامہ لیکس اور دوسری کرپشن پر حاضر سروس ججز کاکمیشن بننے جارہا ہے۔توتھوڑا انتظار کرنا ہی بہتر صورت حال ہے۔سٹرکوں پر آکر احتجاج کرنے کے سے نہ پہلے بہتر نتائج نکلے ہیں اورنہ اب اسکی امید ہے،بہتری کی امید کے ساتھ انتظار کرو۔
Muhammad Jameel
About the Author: Muhammad Jameel Read More Articles by Muhammad Jameel: 72 Articles with 55131 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.