تبدیلی!

 مولانا فضل الرحمن اگرچہ وزیراعظم کے جلسے میں شرکت کرنے بنوں گئے تھے، جنہیں میاں صاحب نے ازراہِ کرم میزبان قرار دیا۔ مگر جلسے کی زبان دیگر جلسوں سے بالکل منفرد اور انوکھی تھی۔ سیاسی جلسوں کی ایک انفرادیت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں مقررین حاضرین کو متاثر کرنے کے لئے نئے نئے تخیلات پیش کرتے ہیں، ورنہ ایک ہی جلسہ میں ایک ہی ایشو پر بہت سے مقررین خطاب کریں گے تو اس میں یکسانیت کی وجہ سے بوریت کا عنصر غالب ہو سکتا ہے۔ نیا تخیل مقررین کی خوبی ہوتی ہے، اور یہی دلچسپی شرکاء کو جلسہ گاہ کی جانب کھینچ کر لے جانے میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہے۔ بنوں والے جلسے میں جہاں وزیراعظم نے پانامہ لیکس کا بھی ذکر کیا اور خود کو احتساب کے لئے پیش کرنے کی پیش کش کو دہرایا، وہاں ’مخالفین‘ کو بھی خوب آڑے ہاتھوں لیا، انہوں نے نئے پاکستان والوں کو للکارا اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا کے لوگ سنہری خوابوں کے جھانسے میں آگئے، صوبے کے دوروں کا مقصد نیا خیبر پختونخوا دیکھنا تھامگر ٹوٹی سڑکیں، پرانے سکول، ناکارہ ہسپتال دیکھ کر دکھ ہوا۔ وزیراعظم چونکہ اسلام آباد اور لاہور میں ہی زیادہ وقت گزارتے ہیں، اس لئے انہیں پنجاب یا پاکستان کے دیگر علاقوں کے ہسپتالوں،سکولوں اور سڑکوں وغیرہ کی صورتِ حال سے زیادہ آگاہی نہیں۔

اس جلسہ میں ایک نئی تبدیلی دیکھنے کو ملی، وہ تھی مولانا فضل الرحمن اور ان کے سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اکرم درانی کی جلسے میں کی گئی تقاریر۔ مولانا نے دیگر بھی بہت سی باتیں کیں مگر ’’ سو گز رسّہ،سرے پر گرہ‘‘ کے مصداق ان کا سب سے اہم جملہ یہی قرار دیا گیا، جس میں انہوں نے فرمایا ’’جو لوگ اپنے صوبے میں چوہوں سے ڈر گئے ہیں وہ پنجاب کے شیروں کا کیا مقابلہ کریں گے؟‘‘ مولانا کا یہ جملہ جہاں وزیراعظم کے لئے بہت ہی حوصلہ افزا تھا، وہاں مولانا کے حامیوں میں بھی کسی حد تک پریشانی کا موجب ضرور بنا ہوگا، کیونکہ مولانا اس مقام پر ضرور فائز ہیں جہاں وہ دوسرے سیاستدانوں کی تعریف اس حد تک کردیں کہ بات چوہوں اور شیروں کے مقابلے تک پہنچ جائے۔ ایسے جملے کسی سیاسی جماعت کے عام لیڈر تو اپنے رہنما کے سامنے کرسکتے ہیں، مگر کسی دوسری پارٹی کے سربراہ کا ایک کے سربراہ کے بارے میں اس قسم کے الفاظ کا استعمال حیران کن تھا۔ مولانا فضل الرحمن اس قدر آگے کیوں گئے، اس کی تین وجوہات ہیں ، اول یہ کہ وہ وزیراعظم کی حمایت میں تقریر فرما رہے تھے، ان کے پانامہ لیکس پر پردہ ڈالنے میں ان کی مدد کررہے تھے۔ دوم یہ کہ وہ ایک ایسے مخالف پر اپنا غصہ اتار رہے تھے جس نے خیبر میں مولانا کی پارٹی کی حکومت پر کامیابی حاصل کرلی تھی، تیسری یہ کہ وہ حکومت کے اتحادی ہیں۔

مولانا فضل الرحمن سے قبل ان کی پارٹی کے وفاقی وزیر اکرم درانی نے بھی اپنے خطاب میں بہت قیمتی جملے ادا کئے، انہوں نے کہا کہ ’’وزیراعظم ہمیں حکم دیں، ہم جمہوری طریقے سے خیبر پختونخوا کی حکومت کو گرا کر ایک ماہ میں اپنی حکومت قائم کردیں گے ․․‘‘۔ یہاں بھی دو اہم تخیل کارفرما ہیں، اول یہ کہ’’ وزیراعظم حکم کریں‘‘ ۔ یقینا وزیراعظم ہونے کے ناطے وہ اکرم درانی کے لیڈر ہیں، اور جب کوئی کارکن اپنے لیڈر کے حکم ماننے اور اشارے کا انتظار کرنے پر آجائے تو جان لیجئے کہ وہ اپنے لیڈر کا دیوانہ ہے، یا جانثار ہے، اس جملے سے وفاداری کا تاثر بھی سامنے آتا ہے۔ ویسے اپنی پارٹی کے لیڈر کی موجودگی میں ’حکم‘ کی اجازت طلب کرنا بڑی ہمت کی بات ہے۔ دوم یہ کہ درانی صاحب کی یہ خواہش کہ حکومت کو گرا سکتے ہیں، محض ایک خواب ہے، جس کے پورے ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں، تاہم ایک ماہ مانگنے کا مطلب شاید یہی تھا کہ میاں صاحب کی مدد طلب کی جائے گی اور ان کے مخصوص طریقوں سے حکومت سازی کا کام کیا جائے گا۔ لیکن طریقہ جو بھی اپنایا جائے یہ کام ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ تاہم جو چیز اس جلسے میں دکھائی دی، وہ بہت بڑی تبدیلی تھی، کہ ایک پارٹی نے حکومت کے ساتھ رہنے کی قیمت میں ایسے ایسے جملے اپنی تقریر میں ادا کئے کہ ان کی پارٹی کے لوگ بھی پریشان ہونگے۔ ایسی روایت اس سے قبل کم ہی دیکھنے میں آتی ہے، اور وہ بھی ایک مذہبی جماعت کے رہنما جو ’’حق گوئی‘‘وغیرہ کے بہت قائل ہوتے ہیں۔ یہاں تو ایسا ہی محسوس ہوا کہ دونوں مولانا حضرات کے قائد اب میاں نواز شریف ہی ہیں، یا پھر اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے ایسے ہنر آزمائے جاتے ہیں۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472575 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.