آہ خواجہ جاوید تم بہت یاد آئے

بچھڑاکچھ اس اداء سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
سابق چیئر مین بلدیہ خواجہ جاوید اقبال جیسی شخصیت علاقے کے لیے قدرت کا انمول تحفہ ہوتی ہیں۔ایسی شخصیات مدتوں بعد پیدا ہوتی ہیں۔انکی پانچویں برسی بھی گزر گئی لیکن ان کا نعمل البدل پیدا نہ ہو سکا۔14اپریل1911ء بروز جمعرات آذان فجر کے دوران اﷲ تعالی نے انھیں اپنے پاس بلا لیا۔خواجہ جاوید اقبال کی وفات پر سارا باغ سوگوار تھا ۔وہ ایسا شخص تھا کہ کئی سال بیماریوں سے مقابلہ کرتا رہا۔جب اس کی تیمارداری کے لیے جاتے تو ایسا لگتا کہ وہ بیمار ہی نہیں۔مگر موت تو ایک اٹل حقیقت ہے ،ہر شخص کو دنیا فانی سے رخصت ہونا ہے۔انسانی زندگی کیا ہے۔۔۔محض ایک پانی کا بلبلہ جس کی حیثیت چند سیکنڈ کی ہے۔اچھے ہیں وہ لوگ جنھوں نے اپنی زندگی عوامی خدمت کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ان میں سے خواجہ جاوید اقبال کا نام سر فہرست تھا۔خواجہ جاوید اقبال کی اچھائیوں اور خوبیوں کو اگر بیان کیا جائے تو کی صفحات لکھے جا سکتے ہیں۔ہمارا بچپن ایک ساتھ گزرا ،خواجہ جاوید اقبال میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود تھی کے وہ ایک سخی اور انتہا درجہ کا مہمان نواز تھا۔اس کے گھر مہمانوں کا رش لگا رہتا۔جبکہ وہ انصاف کرنے والا منصف بھی بھی تھا۔کسی کی تکلیف اسے دیکھی نہیں جاتی تھی۔باغ کے شہری بالخصوص محلہ خواجگان،سٹی وارڈ،آفیسر کالونی،امامیہ کالونی،بھگلور سمیت دیگر علاقوں کے لوگ اپنے معاملات سلجھانے اور نمٹانے کے لیے ان کے پاس آتے۔یا یوں کہا جائے کہ خواجہ جاوید اقبال تمام برادریوں کے نمائندے تھے۔خواجہ جاوید اقبال کے والد محترم خواجہ غلام اکبر مرحوم کا بھی یہی طریقہ کار تھا۔محلہ خواجگان کے لوگوں کے مسائل حل کرنے میں ان کا بڑا کردار رہا۔وہ اپنے وقت کے بڑے تاجر تھے۔خواجہ جاوید اقبال اپنے والد کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔خواجہ جاوید اقبال بلدیہ باغ کے3بار منتخب چیئر مین رہے۔اور مسلم کانفرنس کے سر گرم کارکن تھے۔ان کی سیاسی استاد مجاہد اول سردار عبد القیوم خان تھے۔انھوں نے اپنے دور میں محکمہ بلدیہ میں جو اصلاحات کی ان کی مثال نہیں ملتی۔،ٹرانسپورٹ،فائر بریگیڈ ،باغ لاری اڈاہ کی تعمیر ان کے دور میں ہوئی جس سے بلدیہ باغ کافی مستحکم ہوئی۔یہاں میں اس بات کا زکر ضرور کروں گا کہ خواجہ جاوید اقبال نے اپنے دور میں لاری اڈاء میں ایک دکان تک اپنے نام نہیں کروائی اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی فائدہ حاصل کیا۔وہ غریب پرور انسان تھے۔ان کی کامیابی میں ان کی والدہ کی دعائیں شامل ہیں۔خواجہ جاوید اقبال جہاں بھی جاتے اپنی والدہ کو ساتھ لے کر جاتے۔اﷲ پاک نے انھیں اپنے گھر کی زیارت کی سعادت بھی نصیب فرمائی تھی۔خواجہ جاوید اقبال کے ساتھیوں میں وزیر صحت سردار قمر الزمان،راجہ یاسین خان،سردار میر اکبر خان،سید خورشید گردیزی اور دیگر شخصیات تھی جو ایک دوسرے کے گہرے دوست تھے۔وزیر صحت سردار قمر الزمان نے اپنی دوستی کا حق اداء کرتے ہوئے باغ کے شہریوں کے مطالبے پر کمیونٹی ہال کو خواجہ جاوید اقبال کے نام سے منصوب کیا۔خواجہ جاوید اقبال کی کمی آج بھی شدت سے محسوس ہو رہی ہے ۔جبکہ باغ کی تعمیر و ترقی کے لیے13ارب روپے آئے وہ بھی کرپشن کی نذر ہو گئے۔جس کا احتساب کون کرئے گا۔۔۔؟ اگر خواجہ جاوید اگر ہم میں موجود ہوتے تو باغ کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔میں اور ڈاکٹر عتیق احمد زاہد اکثر خواجہ جاوید اقبال کی عیادت کے لیے جاتے اور باغ کی سیاسی امور پر بھی گفتگو رہتی۔2005کے زلزلہ کے بعد ہم نے35نکات پر مشتمل باغ ماسٹر پلان تجویز کیا ۔مگر اس ماسٹر پلان پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔اگر عمل ہوتا تو باغ کی حالت مذید بہتر ہوتی۔خواجہ جاوید اقبال کا تعلق مسلم کانفرنس سے تھا ۔انھوں نے اپنی ساری زندگی اس جماعت کو باغ میں مظبوط بنانے میں صرف کی۔ان کا مجاہد اول سردار عبد القیوم خان سے دلی لگاؤ تھا وہ ان کا دل سے احترام و عزت کرتے تھے۔یہ بات تھی کہ وہ ساری زندگی مسلم کانفرنس کے نظریاتی رشتے سے وابسطہ رہے۔خواجہ جاوید اقبال کو اپنی ماں سے بہت پیار تھا ۔وہ ان کی صحت کے بارے میں فکر مند رہتے۔اور ان کو تکلیف نہیں ہونے دیتے۔ماں کا حکم ان کے لیے آخری قلم تھا۔خواجہ جاوید اقبال کی کامیابی میں ان کی شریک حیات کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ان کی سربراہی میں خاندان متحد و منظم تھا۔خواجہ جاوید اقبال اپنے فائدے کو دوسروں کی ضروریات پر قربان کرتے۔خواجہ جاوید اقبال میں یہ خوبی تھی کہ ان کی طبیعت میں مزاح کا عنصر موجود تھا۔وہ محفل کی جان تھے۔جس محفل میں وہ ہوتے اس محفل کی رونقیں دوبالا ہو جاتی۔مجھے اکثر وہ پیجا کہہ کر پکارتے تھے۔میری اکثر ان کے ساتھ سیاست اور دیگر امور پر بحث کے دوران لڑائی ہوتی میں اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا لیکن وہ دور اندیش آدمی تھا جس کا احساس ہمیں آج ہو رہا ہے۔خواجہ جاوید اقبال کی اہل بعیت کے ساتھ انتہاء درجے کی عقیدت تھی۔وہ پیر سید جنید شاہ صاحب پانیولہ شریف کے مرید تھے۔محرم الحرام کے جلوسوں میں بھی وہ بھرپور انداز میں جلوس کے ساتھ ساتھ رہتے اور باغ کی فضا کو پر امن رکھنے میں بھی ان کا بڑا کردار ہے۔خواجہ جاوید اقبال کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا ۔جو ایک بار ان سے ملتا ان کا گرویدہ ہو جاتا۔بیورو کریسی،آرمی،ضلعی انتظامیہ کے علاوہ سیاسی شخصیات بھی ان کے ساتھ رابطے میں رہتے۔آج خواجہ جاوید اقبال کو ہم سے بچھڑے5برس ہو گئے۔لیکن انھیں باغ کی عوام اور حلقہ احباب اسی طرح یاد کرتے ہیں۔کون کہتا ہیکہ جاوید مر گیا۔وہ تو مر کر بھی امر ہو گیا۔5سال قبل 14اپریل کو مرکزی جامع مسجد سے اعلان ہوا کہ باغ کی ہر دلعزیز شخصیت خواجہ جاوید اقبال انتقال کر گئے ہیں ۔یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔اور ہر شخص کی زبان پر افسوس کے کلمات تھے۔مرحوم کی نماز جنازہ گورنمنٹ پائیلٹ ہائی سکول میں اداء کی گئی ۔نماز جنازہ سے قبل تعزیتی ریفرنس کا انعقاد ہوا ۔انھیں سینکڑوں سوگواران کی موجودگی میں آبائی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔وہ عظیم شخص ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا لیکن ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔خواجہ جاوید اقبال کے دو فرذند ہیں جن میں ایک برطانیہ میں مقیم ہیں اور دوسرے باغ میں ہیں۔مجھے خوشی ہیکہ ان کے خاندان کے ساتھ ان کے بیٹے خواجہ ارشد جاوید نے بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چل کر اور ان کے اصولوں کے تحت چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اور امید کرتے ہیں کہ باغ میں اتحاد کی فضاء قائم کرنے اور دیگر معاملات میں وہ اور ان کا خاندان اپنا روائیتی کردار اداء کرتا رہے گا۔
Parvaiz Ul Hasan Tahir
About the Author: Parvaiz Ul Hasan Tahir Read More Articles by Parvaiz Ul Hasan Tahir: 2 Articles with 1414 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.