ایک اور ماورائے عدالت قتل

یکم مئی 2016 کوکراچی سے گرفتار ایم کیو ایم کے سینئر ڈپٹی کنوینر فاروق ستار کے کو آرڈینٹر آفتاب احمد کو فیڈرل بی ایریا سے سندھ رینجرز نے گرفتار کیا اور اگلے روز عدالت میں پیش کرکے90 روز کا ریمانڈحاصل کیا گیا مگر رینجرز کی حراست میں پہلی ہی رات آفتاب احمد کی موت واقع ہوگئی۔رینجرز نے موت کی وجہ دل کا دورہ قرار دیا اور ان کی بیان کی مطابق آفتاب احمد نے صبح سویرے سینے میں تکلیف کی شکایت کے اور انہیں جناح ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹرز نے ان کے انتقال کی تصدیق کردی۔ یہ تو تھا رینجرز کا بیان مگر۔۔ہسپتال میں موجود ڈاکٹرز کے مطابق جب آفتاب احمدکو ہسپتال لایا گیا اس وقت وہ مرچکے تھے-بعد میں جب میت ورثاکے حوالے کی گئی تو مردہ جسم کوئی اور ہی کہانی سنا رہا تھاآفتاب احمد پر بدترین تشدد کیا گیا تھا جس کے نشانات جسم کے کم وبیش چالیس فیصدحصہ پر تھے، 5مئی کو جناح ہسپتال میں مجسٹریٹ کلیم اللہ کلہوڑو کی زیرنگرانی ہونے والے پوسٹمارٹم کی رپورٹ میں آفتاب احمد پر بدترین تشدد کی تصدیق ہوگئی۔

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف صاحب نے بھی اس بہیمانہ فعل کی حساسیت کو اہم جانتے ہوئے اس پر انکوائری کے احکامات جاری کردئیے ہیں جوکہ ایک مستحسن قدم ہے۔یہ معاملہ صرف ایک زیر حراست قتل پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس عمل سے انتہائی اہم کراچی آپریشن پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں اور گزشتہ دو سال سے جاری اس آپریشن میں رینجرز کی حاصل شدہ تمام کامیابیوں پر پانی پھر سکتا ہے اور ہمیشہ کی طرح یہ آپریشن بھی تنازعات کا شکار ہوکر اپنی افادیت اور عوام میں حمایت کھو سکتا ہے،اور کراچی کے عوام جوکہ طویل عرصے سے دہشت گردی اور بد امنی کا شکار تھے اور اس آپریشن کے بعد سکھ کا سانس لینے کے قابل ہوئے تھے دوبارہ اسی دور ابتلا میں جاسکتے ہیں جہاں روزانہ کی بنیاد پر پندرہ سے بیس افراد قتل ہورہے تھے۔رینجرز کراچی میں 1989 سے موجود ہیں مگر ان کی کارکردگی صرف گذشتہ دو سالوں میں نظر آئی ہے ایک تو ان کو دئیے گئے اختیارات اور دوسری وجہ 1101رینجرز ہیلپ لائن پر دی گئی وہ اطلاعات ہیں جوکہ خالصتا کراچی کے عوام نے انہیں دہشت گردوں کی موجودگی اور نقل و حرکت سے متعلق فراہم کیں اور ان اطلاعات و معلومات کی بنیاد پر وہ کامیاب کاروائیا ں کرنے کے قابل ہوسکے،لہذا آپریشن کی کامیابی اور امن و امان کی بحالی کا کریڈٹ صرف رینجرز کو نہیں جاتا بلکہ کراچی کے وہ قانون پسند اور محب وطن عام شہری بھی اس میں اتنا ہی اہم رول ادا کررہے ہیں جتنا کہ رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اور یہ کامیابی عوام اوررینجرز کے مشترکہ کامیابی ہے-مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس طرح تشدد اورتھرڈ ڈگری ٹارچر کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہوسکتا –

دوسر ا اہم معاملہ یہ ہے کہ جن فورسز کو شہروں میں قیام امن کی لئے تعینات کیا جاتا ہے ان کی عسکری تربیت کی ساتھ ، ساتھ اخلاقی تربیت بھی بہت ضروری ہے اور انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تعلیم یافتہ ،مہذب اور شریف شہریوں سے کس طرح ڈیل کرنا ہے اور کس لب لہجے میں گفتگو کرنی ہے بڑے افسران تو بہت مہذب گفتگو کرتے ہیں مگر سڑکوں پر موجود رینجرز کے سپاہی بہت درشت ،اور توہین آمیز طریقے سے شریف لوگوں سے پیش آتے ہیں اور شریف اور مہذب لوگ چاہتے ہوے بھی ان کی بدتمیزی کی وجہ سے ان کی ساتھ تعاون کرنے سے کتراتے ہیں-برائے مہربانی اس رویےکو بھی رینجرز کے اعلی تعلیم یافتہ افسران درست کریں-کراچی کوئی مفتوحہ علاقہ نہیں بلکہ اس ملک کو 70 فیصد ریونیو دینے والا معاشی حب ہےاوراس شہر میں اکثریت محب وطن افرد کی ہےاور تمام سرکاری ملازمین بشمول فوج اور رینجرز کو تنخواہ اسی پیسے سے ملتی ہے جو کراچی بطور ٹیکس قومی خزانے میں جمع کرواتا ہے لہذا دوسرے علاقوں کی نسبت کراچی کے شہری اس ملک اور اس کے ادروں کو چلانے والے اور اس ملک کا خرچہ اٹھانے والے ہیں خصوصی احترام کے حقدار ہیں-

کراچی آپریشن ، جوکہ آپریشن ضرب عضب کا ہی ایک ضمنی حصہ ہے اور عالمی سطح پر جو داد و تحسین سمیٹ رہا ہے اور اس کی کامیابی سے پاک فوج کو عالمی سطح پر جو عزت و وقار نصیب ہوا ہے اسے برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں اور پاک فوج کی اجتماعی عزت و احترام کو چند لوگ اپنی ذاتی متعصبانہ سوچ اور حرکتوں کی وجہ سے برباد نہ کردیں چاہے وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر ہی ہوں –معاشرے صرف قانون کی عملداری سے ہی مہذب اور غیر مہذب میں تقسیم کیے جاتے ہیں اور قانون کی عملداری ہی ترقی اور استحکام کی بنیاد ہوا کرتی ہے،کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کی نظر میں داد و تحسین سمیٹنے والا آپریشن اپنے ملک کے قانون پسند شہریوں کی نظر میں متنازعہ ، متعصبانہ اور مشکوک ہو جائے اور ملک پھر بد امنی اور انارکی کی آگ میں جلنے لگے-
Kaleem Ahmed Shaikh
About the Author: Kaleem Ahmed Shaikh Read More Articles by Kaleem Ahmed Shaikh: 11 Articles with 8135 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.