پانامہ پیپرز کے افشاءکے بعد وزیراعظم نوازشریف اور انکے
خاندان کے متعلقہ افراد نے تو خود کو رضاکارانہ طور پر احتساب کیلئے پیش کر
دیا جس کی خاطر وزیراعظم نے پہلے کسی سابق جج کی سربراہی میں انکوائری
کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا تاہم جب اس کیخلاف اپوزیشن بالخصوص عمران
خان کی جانب سے جارحانہ سیاست شروع کی گئی اور وزیراعظم اور انکے خاندان پر
الزام تراشیوں کا نیا سلسلہ شروع کرتے ہوئے وزیراعظم کے مستعفی ہونے کا
تقاضا کیا جانے لگا تو وزیراعظم نوازشریف نے لندن میں اپنے طبی چیک اپ کے
بعد ملک واپس آتے ہی عدلیہ کے کسی حاضر سروس جج کی سربراہی میں جوڈیشل
کمیشن تشکیل دینے کیلئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو مراسلہ بھجوانے کا اعلان
کردیا جبکہ وزیراعظم کی نشری تقریر کے بعد وفاقی وزارت قانون کی جانب سے
چیف جسٹس سپریم کورٹ کے نام پر رجسٹرار سپریم کورٹ کو مراسلہ بھجوا بھی دیا
گیا۔ وزیراعظم نے اس مجوزہ جوڈیشل کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آر) میں
اب تک قرضے معاف کرانے والوں کیخلاف تحقیقات کا معاملہ بھی شامل کیا جس پر
تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے قائدین پھر معترض ہوئے اور ٹرمز آف ریفرنس
کو صرف وزیراعظم اور انکے خاندان تک محدود رکھنے کا تقاضا کرتے ہوئے
اپوزیشن کی جانب سے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آر) خود تیار کرنے کا اعلان
کردیا اور اسکے ساتھ ہی وزیراعظم کے مستعفی ہونے کیلئے بھی دباﺅ بڑھانا
شروع کر دیا گیا۔ وزیراعظم نوازشریف نے اپوزیشن تحریک کا دباﺅ کم کرنے
کیلئے خود کو اپنے خاندان سمیت چیف جسٹس سپریم کورٹ کے سپرد کرنے کا بھی
اعلان کردیا اور یہ بھی باور کرادیا کہ چیف جسٹس انکی ذات سے احتساب کے عمل
کا آغاز کر سکتے ہیں۔ جب اس پر بھی اپوزیشن کی انہیں دباﺅ میں رکھنے کی
حکمت عملی تبدیل نہ ہوئی تو حکمران مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور اسکے دوسرے
عہدیداروں نے عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری کی بلیم گیم کا جارحانہ
انداز میں جواب دینے کا فیصلہ کیا چنانچہ اب خود وزیراعظم بھی اپوزیشن
کیخلاف سخت جارحانہ موقف اختیار کرتے نظر آتے ہیں جنہوں نے گزشتہ روز بنوں
میں اپنی حکومتی حلیف جمعیت علماءاسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان اور
سابق وزیراعلیٰ کے پی کے محمداکرم درانی کی معیت میں جلسہ¿ عام سے خطاب
کرتے ہوئے اپنے خلاف جاری اپوزیشن کی بلیم گیم کو چیلنج کیا اور باور کراتے
ہوئے درست کہا کہ میں انکے کہنے پر گھر چلا جاﺅں؟ یہ منہ اور مسور کی دال۔
پھر انہوں نے یہ بھی درست کہا کہ مخالف نہیں جانتے‘ ان کا کس سے پالا پڑا
ہے۔ پانامہ پیپرز کے افشاءکے بعد حقیقی اور بے لاگ احتساب کیلئے ہموار
ہونیوالی فضا کو اپوزیشن نے صرف حکمران خاندان کو فوکس کرکے خود ہی خراب کر
دیا ہے۔ اس وقت اپوزیشن اور حکمران جماعتیں جس طرح باہمی کشیدگی اور ٹکراﺅ
کی سیاست کی راہ اختیار کررہی ہیں اسکے پیش نظر بے لاگ احتساب کا تقاضا تو
شاید ہی کبھی پورا ہو پائے گا۔ اپوزیشن کی جانب سے متفقہ طور پر جوڈیشل
کمیشن کے ٹی او آرز مرتب کرلئے گئے ہیں تاہم وزیراعظم کے استعفے کے ایشو پر
اپوزیشن کی متعدد جماعتوں اور خود پیپلزپارٹی کے اندر بھی اتفاق رائے نہیں
ہو سکا چنانچہ جارحانہ تحریک کے ذریعے وزیراعظم اور انکی حکومت کو دباﺅ میں
رکھنے کی حکمت عملی تو اب کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی جبکہ بااختیار جوڈیشل
کمیشن کیلئے پارلیمنٹ سے باضابطہ طور پر قانون سازی کرانے کا تقاضا کرکے
اپوزیشن نے کمیشن کی تشکیل کا معاملہ بھی لٹکادیا ہے۔ عمران خان کی الزام
تراشی کی سیاست کے باعث چیف جسٹس خود بھی جوڈیشل کمیشن کیلئے عدلیہ میں سے
کوئی فاضل جج دینے کے معاملہ میں خاصے محتاط ہیں جو پہلے ہی ایک کیس کی
سماعت کے دوران ریمارکس دے چکے ہیں کہ حکومت کے پاس کسی معاملہ کی انکوائری
کیلئے عدلیہ کے علاوہ دوسرے ادارے بھی موجود ہیں۔ اپوزیشن نے جوڈیشل کمیشن
کیلئے پارلیمنٹ میں قانون سازی کا تقاضا کرکے کمیشن کی فوری تشکیل کا امکان
معدوم کردیا ہے۔ اب مجوزہ ایکٹ کی دونوں ایوانوں میں منظوری ہو گی تو وہ
ایکٹ کی شکل میں نافذ ہو پائے گا۔ کیا محاذآرائی کی موجودہ فضاءمیں اپوزیشن
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں مجوزہ ایکٹ کی منظوری کی راہ ہموار ھو پائے
گی‘ فی الحال تو یہ ناممکنات میں نظر آتا ہے۔ |