تھرپارکر میں مرنے والے بچوں کی
تعداد بڑھ رہی ہے۔ جنوری سے مئی تک یہاں 310بچوں کی موت کی تصدیق ہوئی ہے۔
چار ماہ میں 30ہزار بچے تھرکے ہسپتالوں میں داخل کئے گئے۔کوئی نہیں جانتا
10ارب سے بھی زیادہ رقم کہاں خرچ کی گئی۔ اس میں سے 4ارب روپے سے زیادہ صرف
مفت گندم تقسیم کرنے کے لئے جاری کئے گئے تھے۔سینیٹر محسن لغاری کہتے ہیں
کہ ریلیف تھر نہیں پہنچی مگر ان کے انکشافات کی طرف کوئی متوجہ نہیں ہوتا۔
یہ کرپشن کوئی نہیں دیکھ رہا ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ یہاں 5ارب روپے پانی
کی سکیمو ں پر خرچ کئے گئے۔ مگر اب بھی خواتین کئی کلومیٹر دور سے پانی
لانے پر مجبور ہیں۔ مرنے والے زیادہ ترنو زائیدہ شیر خوار بچے ہیں۔ان کے بے
موت لقمہ اجل بننے کی وجہ قحط سالی ہے۔ ہسپتالوں میں علاج و معالجہ سہولیات
کے فقدان سے بھی ان کی جان گئی۔ تھر میں موت کا یہ رقص گزشتہ کئی برسوں سے
جاری ہے۔ لیکن سندھ کے اس غریب ضلع کے 13لاکھ سے زیادہ عوام کی پکار کوئی
نہیں سنتا۔ سندھ کے وزراء میڈیا پر جھوٹ رپورٹ کرنے کا الزام لگاتے رہتے
ہیں۔ اس طرح وہصاف بچ نکتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ کرپشن اور 10ارب روپے میں خرد
برد بھی ان ہلاکتوں کی ذمہ دار ہے۔
تھرپارکر سمیت سندھ کے کئی اضلاع بارانی ہیں۔ بارش ہو گی تو یہاں زندگی کا
پیہہ چلے گا۔ سارا انحصار بارشوں پر ہے۔ کوئی تالاب، بندھ، نہر، حوض بنانے
کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔مگر جعلی سکیموں پر رقم ہڑپ کی جاتی ہے۔ یہاں
قحط سالی ہے۔ کم غذا کی وجہ سے زیادہ تر بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
سیکڑوں اب بھی ہسپتالوں میں ہیں۔ میڈیا کے مقامی نمائیندے ہر روز درد بھری
داستانیں سنا رہے ہیں۔۔ لیکن حکمران اسے سیاسی پروپگنڈہ قرار دے کر بچ
نکلتے ہیں۔ یہاں یہ ریت و رواج بن چکا ہے کہ کسی مسلے سے بچنا ہو تو صاف
کہہ دیا جاتا ہے یہ سیاسی کھیل ہے۔ سچائی کو یوں چھپا دیاجاتا ہے۔ حکمران
سیاست چمکا رہے ہیں۔ کوئی کرسی کا تحٖظ کرتا ہے اور کوئی اسے چھین لینا
چاہتا ہے۔
سندھ حکومت صاف انکار کر رہی ہے کہ تھر میں قحط سالی نہیں۔ وہ یہ بھی کہہ
رہی ہے کہ ہسپتالوں میں ادویات کی قلت بھی نہیں اور نہ ہی طبی سہولیات کی
کوئی کمی ہے۔ صوبائی وزراء کا کہنا ہے کہ حکومت تھر کے لوگوں کی بہتری کے
لئے جان توڑ کوششیں کر رہی ہے۔ یہاں کوئی قحط نہیں اور نہ ہی خوراک کی کمی
ہے۔وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو، سینیٹر سعید غنی، رکن
اسمبلی ڈاکٹر سکندر شورو، لال چند اور دیگر کا اعتراف ہے کہ بچوں کی
ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ مگر یہ ہلاکتیں ان کے طبی مراکز پر دیر سے پہنچنے اور ان
کو معلومات کی کمی کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ یہ کہتے ہیں اﷲ کی مرضی سے بچے مر
رہے ہیں۔
اگر یہ لوگ سچ فرما رہے ہیں تو گزشتہ کئی سال سے جو سیکڑوں بچے موت کے منہ
میں گئے ہیں ، انہیں معلومات کی کمی اور دیر سے علاج تک رسائی کا ذمہ دار
کون ہو سکتا ہے۔ یہ کسی ایک بچے کی بات نہٰیں۔ سیکڑوں بچوں کی تڑپ کر موت
کے منہ میں جانے کی دردناک کہانی ہے۔ ان کا قاتل کون ہے۔کوئی کہتا ہے کہ
معلومات نہ ہونے کی وجہ بھی ہلاکتوں کا باعث بنی اور کسی کا فرمانا ہے کہ
تھر میں اگر بچے مر جائیں تو اس کے لئے سندھ حکومت ذمہ دار نہیں ہو سکتی
ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سب اﷲ کا کرنا ہے۔ حکومت ذمہ دار نہیں۔میڈٰیا پر ہی
الزام لگایا جا رہا ہے ۔ اگر دور دراز گاؤں میں کوئی بچہ مر جائے تو ہم کیا
کریں۔
ہمارے لوگ اس اہم ایشو کو نظر انداز کر رہے ہیں۔اس لئے گزشتہ برسوں کی طرح
مستقبل میں بھی بچے مرتے رہیں گے۔ اور ہم سب اﷲ تعالیٰ کی مرضی اور دوسرے
بہانوں سے بچتے رہیں گے۔قحط سالی سے نپٹنے کی طرف بھی کوئی توجہ نہ دے گا
اور نہ ہی ہسپتالوں میں ادویات کی کمی پوری ہو گی۔ ان گاؤں میں چوکیدار
بدستور ڈاکٹری خدمات انجام دیتا رہے گا۔ جب وفاقی دارلحکومت سمیت بڑے شہروں
میں مریض لاعلاج مر رہے ہوں تو پھر ان دیہات کی کسے فکر ہو گی۔ آپ کے پاس
پیسہ ہے تو علاج ہو سکتا ہے۔ دوئیاں خریدی جا سکتی ہیں۔ ڈاکٹر آپ کے مریض
کے آپریشن کے لئے سرکاری ہسپتال میں مہینوں کی تاریخ نہیں دے گا۔ بلکہ ایک
دن میں اپنے کلنک پر آپریشن کرے گا۔
بلا شبہ موت اﷲ کے حکم سے آتی ہے۔ مگر خود کشی حرام ہے۔ حکومت بہانے بنا کر
عوام کو خاص کر معصوم بچوں کو تڑپ تڑپ کر مرنے کے لئے نہیں چھوڑ سکتی۔ پھر
حکمران بھی زکام ہونے پر ولایت سے علاج کرانے کے نام پر سیر سپاٹے کس منہ
سے کر پائیں گے۔ کچھ اﷲ کا خوف کریں۔ اﷲ کی مرضی سے موت ہر ایک کو آنی ہے۔
جو بچے تھر کے ہسپتالوں میں تڑپ رہے ہیں۔ کم ازکم ان کے علاج کی فکر کریں۔
جو لوگ بروقت ہسپتال نہیں پہنچ سکتے یا جنھیں معلومات نہیں ، ان کے لئے ہی
کچھ کیا جائے۔ قحط سالی کا مقابلہ کرنے کے بجائے اور عوام کو بے موت مرنے
سے بچانے کے بجائے ہمارے حکمران بہانے اور جواز پیدا کر رہے ہیں۔ تحقیقات
اور انکوائریاں بٹھا کر معاملات کو طول دیا جا رہا ہے۔ معصوم بچوں کے ساتھ
یہ مذاق نہ کیا جائے۔
اگر 10.3ارب روپے خوراک، صحت اور ریلیف پر خرچ کئے گئے ہیں تو پھر یہ بحران
کیوں شدت اختیار کر رہا ہے۔ سینٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے تھر کے اس
بحران کو زیر غور لایا ہے۔ کرپشن بھی محسوس کی ہے۔ اگر سوا چار ارب روپے کی
گندم لوگوں میں تقسیم کی گئی تو پھر بچے بھوک سے کیوں مر رہے ہیں ۔ سندھ
حکومت نے اربوں روپے تھر میں ریلیف پر خرچ کئے۔ مگر اس کا کوئی ریکارڈ
نہیں۔ |