رویے اور روایات!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے
قوم کے جس اجتماعی رویے اور عمل کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ قابلِ غور ہی نہیں
فکر انگیز بھی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’’ اہم معاملات میں ہماری حکومت،
اپوزیشن اور عوام مل کر بھی متفقہ لائحہ عمل تیار نہیں کرسکتے،یہ ایک المیہ
ہی ہے ․․․․ الزام تراشی کا کلچر بڑھ رہا ہے، ہر شخص حقوق کی بات تو کرتا ہے،
مگر اپنے فرائض کی طرف نہیں دیکھتا ۔ ملک میں طویل مدتی منصوبہ بندی کی
روایت موجود نہیں ․․․‘‘۔ اپنے ہاں تو یہی رواج ہے کہ اگر حکومت نے کوئی بات
کی ہے تو اپوزیشن کی جانب سے اس کی مخالفت کرنا ہی سیاست کا چلن ہے اور یہی
روایت۔ دوسری طرف اگر اپوزیشن نے کوئی مثبت تنقید بھی کردی ہے تو حکومت اور
اس کے وزراء نے ان کی مخالفت کرنا اپنا فرضِ عین جان لیا ہے، خواہ اس پر
عمل سے ملک وقوم کا بھلا ہی نکلتا ہو۔ اگر ہماری حکومت، اپوزیشن، عوام اور
دیگر ادارے ملک میں دہشت گردی کے خلاف متحد ہوئے ہیں تو ان کا نہیں، فوج کا
کمال ہے۔ اب ملک میں کرپشن کے خلاف مہمات کی کہانی چلی تھی تو کسی کے کان
پر جوں تک نہیں رینگی۔ اس کی بڑی اور اہم وجہ یہی ہے کہ کرپشن اوپر سے نیچے
تک مقتدر لوگوں کے خون میں رچ بس چکی ہے۔جولوگ کرپشن سے محفوظ ہیں ان کی
تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔
اگر کرپشن کا ذکر ہے تو اس کاحل بھی نکلنا چاہیے۔ جب حل نکالنے اور کرپٹ
مافیا کو پکڑنے کی بات ہوتی ہے، تو ہر فرد دوسرے کو پکڑنے کی بات کرتا ہے۔
پانامہ لیکس کی کہانی کیا رنگ لائے گی، کسی کو خبر نہیں، تاہم وزیراعلیٰ
پنجاب ہمیشہ بہت ہی زور دے کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک پائی کی کرپشن بھی
ثابت ہوجائے تو میرا نام تبدیل کردیں، یا مجھے پھانسی دے دیں (وغیرہ) مگر
کون سادفتر یا محکمہ ہے جہاں کرپشن کا بازار جوں کا توں گرم نہیں؟ پٹواری
سے سیکریٹری تک بھاری اکثریت اس دھندے میں ملوث ہوتی ہے، مگر حکمران ہیں کہ
مان کر نہیں دے رہے۔ پانامہ لیکس کے سلسلے میں ایک جانب سے اپوزیشن کا دباؤ
ہے تو دوسری طرف حکومت نے نیا لائحہ عمل یہ تیار کیا ہے اور فیصلہ کیا ہے
کہ وزیراعظم پارلیمنٹ میں پانامہ لیکس کے بارے میں وضاحت نہیں کریں گے،
تاہم ان کے بچے کمیشن کے سامنے پیش ہوں گے۔ حیرت کی بات ہے کہ وزیراعظم نے
پانامہ لیکس کا دباؤ کم کرنے کے لئے ٹی وی پر قوم سے خطاب کیا، انہوں نے
مخالفین کے مقابلے میں مختلف شہروں میں جلسے کردیئے، ان کے وزراء بیانات دے
رہے ہیں، مہینوں بعد کابینہ کا اجلاس منعقد ہوگیا، اتحادی جماعتوں سے
مشاورت ہورہی ہے، مگر پارلیمنٹ میں وضاحت نہیں ہوگی۔ حیرت اس بات پر بھی ہے
کہ اگر کوئی مخالف جلسہ کرے یا دھرنا دے،یا احتجاج کرے تو کہا جاتا ہے کہ
جو مسئلہ ہے وہ پارلیمنٹ میں آکر بیان کیا جائے، مگر جب اپنی باری آتی ہے
تو بتایا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ کے سامنے وضاحت نہیں کی جائے گی(؟)
چیف جسٹس نے قانون پر عمل داری کی ذمہ داری کی بات کی ہے۔ اپنے ہاں قانون
کی کہانی بھی عجیب ہی ہے، قانون کا وجود ہے تو سہی، مگر یہ دوسروں اور
غریبوں کے لئے ہے، طاقتور جس طرف چاہتا ہے قانون کا رخ موڑ لیتا ہے، یہاں
تو قتل بھی کرکے بدنام کوئی نہیں ہوتا اور غریب معمولی جرم میں ڈھک دیا
جاتا ہے۔ اس صورت حال کے مطابق قانون پر عمل درآمد تو دور کی بات ہے، یہاں
قانون شکنی بھی ایک فیشن ہے، وہ یا تو کوئی کسی زعم میں کرتا ہے یا بہت سے
لوگ انتقاماً جرم کرتے ہیں یا جہالت کی بنا پر قانون شکنی کی جاتی ہے۔ یہ
تمام قانون شکنیاں جب زیادہ بڑھ جاتی ہیں، تو پورا معاشرہ الجھ کر رہ جاتا
ہے۔ بہ حیثیت معاشرہ ہم اپنے فرائض سے بھی غافل ہیں، دوسروں سے ہم صفائی،
ایمانداری اور بہتری کی توقع رکھتے ہیں، خود ہم گندگی بکھیرتے، بے ایمانی
کرتے اور دوسروں کو عملی نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ اگر ہم سب لوگ مل کر تہیہ
کرلیں کہ اپنی گلی محلے میں گندگی نہیں گرانی، دوسروں کی تکالیف کا خیال
رکھنا ہے، کسی کو نقصان نہیں پہنچانا، غریبوں کی مدد کرنا ہے، غریبوں کی
مدد کرکے ان کے بچوں کو تعلیم دلوانے اور ان کے علاج وغیرہ میں ان کا ساتھ
دینا ہے، تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرہ مثالی نہ بن جائے۔ اور اگر اپنے مقتدر
طبقے یہ فیصلہ کرلیں کہ کرپشن کی بجائے ہم نے خدمت کرنا ہے تو معاشرے میں
امن قائم ہو جائے۔ اسی طرح حکومتیں بھی طویل مدتی منصوبے بغیر کرپشن کے
مکمل کریں تو ملک خوشحالی اور امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
|
|