بھئی بہت خوب کیا کہنے ہیں ہمارے
عزیز سیاستدانوں کے، کتنی اچھی بات کہی ہے جناب ریاض پیر زادہ فرام قاف لیگ
نے۔ موصوف نے گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں گفتگو کرتے عوام کی
خودکشیوں کے حوالے سے یوں گوہر افشانی کی ہے کہ “ جو پیدا ہوا ہے اسے مرنا
بھی ہے ہم اللہ کے کاموں میں کیوں دخل دیں “ واقعی بات تو بالکل درست ہے کہ
اللہ کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے۔ یہ بھی بالکل درست ہے کہ جو پیدا
ہوا ہے اسے مرنا بھی ہے۔ آپ کی یہ بات بھی بالکل بجا ہے بھلا بتائیں تو سہی
کونسا انسان ہے جو کہہ سکتا ہے کہ میں قیامت تک زندہ رہوں گا۔ بھئی قیامت
تک تو کوئی بھی زندہ نہیں رہ سکتا نا اب اگر کسی کے نصیب میں خودکشی سے
مرنا لکھا ہے تو پھر ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اس پر کوئی بات کریں یہ اس کا
مقدر تھا۔
کئی سال پہلے ہمارے ایک سینئر ساتھی نے ایک واقعہ سنایا تھا وہ واقعہ ہم آپ
لوگوں کو بھی سناتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ “ ایک دفعہ ایک مجذوب سے بزرگ
ایک وجد کی کیفیت میں بازار سے یہ کہتے ہوئے گزر رہے تھے کہ جو کرتا ہے
اللہ ہی کرتا ہے، جو کرتا ہے اللہ ہی کرتا ہے۔ لوگ حیرت سے ان کی بات سن
رہے تھے کچھ لوگ مسکرا رہے تھے۔ اس بازار میں ایک دہریہ نہیں نہیں یہ لفظ
تو شائد بہت سخت ہوجائے گا اس کو بدل دیتے ہیں ہاں ایک جدید تعلیم یافتہ
مغربی تہذیب کی روشنی سے بہرہ مند ایک روشن خیال شخص بھی اس وقت وہاں موجود
تھا، اس نے جب مجذوب بزرگ کی یہ بات سنی تو اس کو مذاق سوجھا اور اس نے آگر
بڑھ کر ان بزرگ کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ رسید کردیا، اس طمانچے کی شدت
سے ان بزرگ کے گال سرخ ہوگئے اور وہ یکبارگی چونک کر اس روشن خیال شخص کو
غور سے دیکھنے لگے۔ روشن خیال نے نہایت گستاخی سے بزرگ سے کہا “ بڑے میاں
اب دیکھ کیا رہے ہو تم نے ہی تو کہا تھا کہ جو کرتا ہے اللہ ہی کرتا ہے۔ تو
بس یہ بھی اللہ نے ہی کیا ہے اس میں میرا کیا دوش ہے؟ بزرگ نے مسکرا کر
جواب دیا “ میاں میں اب بھی اپنی بات پر قائم ہوں کہ جو بھی کرتا ہے اللہ
ہی کرتا ہے لیکن دنیا میں اللہ کچھ لوگوں کا منہ کالا کرتا اور کچھ کا منہ
روشن کرتا ہے بےشک یہ طمانچہ جو میرے منہ پر مارا گیا ہے اس میں میرے رب کی
مرضی شامل ہے لیکن میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ اللہ نے کس کا منہ کالا کیا
۔“
بات تو بالکل درست ہے کہ ہر کام میں اللہ ہی کی مرضی شامل ہوتی ہے لیکن
اللہ تعالیٰ نے اس فانی انسان کو کچھ محدود بلکہ بہت ہی محدود سی آزادی دی
ہے اس ارادے کی کہ وہ نیکی اور بدی میں سے کوئی ایک راستہ اختیار کرلے ،جو
لوگ خودکشیاں کررہے ہیں یقیناَ َ ان کی موت بھی منجانب اللہ ہی ہے لیکن ان
کی خودکشی کے عمل میں بھی دو قسم کے کردار سامنے آتے ہیں ایک وہ جنہوں نے
اس کو اس حال میں پہنچایا کہ وہ مایوس ہوکر وہ خودکشی کر بیٹھے اور دوسرے
وہ جنہوں نے مرنے والوں کی مدد کرنے کی کوشش کی ہوگی، ان کے حالات کو بہتر
بنانے کی کوشش کی ہوگی۔ ان کو اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی ہوگی۔یقیناَ
َ دونوں قسم کے کرداروں کے چہروں پر مختلف تاثر ہوگا اول قسم کے کرداروں کے
منہ دنیا اور آخرت میں سیاہ ہونگے اور دوسری قسم کے کرداروں کے منہ دنیا
اور آخرت میں روشن ہونگے۔
ویسے اطلاع کے مطابق ریاض پیرزادہ صاحب نے قومی اسمبلی میں اسلامی نظریاتی
کونسل، شرعی عدالتوں اور شرعی قوانین کی مخالفت بھی کی ہے اس سے اندازہ
لگایا جاسکتا ہے کہ دین کے معاملے میں ان کا علم کس قدر َ َ وسیع َ َ ہوگا
اور یقیناَ َ اسی وجہ سے وہ خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور
حکمرانی کی خصوصیات سے واقف نہیں ہونگے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ
فرماتے تھے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مرگیا تو اس
کی ذمہ داری مجھ پر ہوگیَ َ شائد ریاض پیرزادہ صاحب یہ بھی نہیں جانتے
ہونگے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں راتوں کو بھیس
بدل کر مدینے کی گلیوں میں گشت کیا کرتے تھے تاکہ رعایا کے حالات سے واقف
رہ سکیں۔ اور زرا یہ واقعہ بھی سنیے حضرت حسن ابن علی رضی اللہ عنہ سے ایک
دفعہ ایک شخص نے اپنی کسی ضرورت کے لئے قرض مانگا، انہوں نے فوراَ َ گھر سے
رقم لاکر اس کو دی اور پھر گھر آکر رونے لگے اہلیہ نے کہا َ َ اگر دولت سے
اتنی ہی محبت تھی تو اس شخص کو رقم نہ دیتےَ َ فرمایا مجھے رقم کا دکھ نہیں
ہے بلکہ افسوس اس بات کا ہے کہ میں اس فرد کے حالات سے اتنا بے خبر رہا کہ
میرے بھائی کو میرے سامنے دست سوال دراز کرنا پڑا، میں نے خود کیوں نہ بڑھ
کر اس کی مدد کی۔
ویسے جناب ریاض صاحب چلیں ان سب باتوں کو چھوڑیں اس سے آپ کا موڈ خراب
ہوجائے گا۔ آپ صرف یہ کریں کہ اپنی بات کا دائرہ ذرا وسیع کرلیں وہ اس طرح
کہ صرف خودکشی ہی اللہ کی رضا نہیں ہے بلکہ ہر کام منجانب اللہ ہوتا ہے اس
لئے براہ مہربانی آپ پنجاب میں موجودہ ن لیگ کی حکومت کو اللہ کی رضا سمجھ
کر چھوڑ دیں اور اس کو پانچ سال تک سکون سے حکومت کرنے دیں، ارے بھئی یہ
اللہ کی رضا ہے اور اب اگر آپ نے اس کی مخالفت کی تو اس کا مطلب آپ اللہ کے
کاموں میں دخل دیں گے۔ اور ذرا ایک مشورہ پی پی پی حکومت کو بھی دیدیں کہ
کیوں گڑے مردے اکھاڑتے ہو ارے بھئی بی بی کے نصیب میں اسی طرح لکھا تھا کہ
وہ کسی کی گولی کا نشانہ بنیں اس لئے اب انکے قاتلوں کے بارے میں تفتیش
کرنا،اس کی تحقیقات کرنا اس پر قوم کا پیسہ ضائع کرنا غلط ہے۔ اور پھر یہ
بھی کریں کہ اسمبلی کے فورم پر یہ بات بھی کریں کہ کیوں دہشتگردی کی ہر
واردات کے بعد یہ حکومت والے موقع واردات پر پہنچ کر قاتلوں کی گرفتاری کی
بات کرتے ہیں، کیوں مرنے والوں کے ورثاء کو معاوضہ دیتے ہیں۔اب ان کو اپنا
فلسفہ سمجھائیں کہ بھئی ان لوگوں کی قسمت میں اسی طرح مرنا لکھا تھا اب
کیوں قوم کا پیسہ برباد کررہے ہیں۔
اور پھر آپ اپنے اس انقلابی منشور کر مزید آگے بڑھائیں اور صرف شرعی قوانین
کی مخالفت نہ کریں بلکہ ملک بھر کے تھانے، عدالتیں، کچہریاں، سرکاری دفاتر
بند کرادیں کہ یہ قوم کا پیسہ برباد کرنے کے مترادف ہے آپ اسمبلی کے ارکان
کو قائل کریں کہ َ َبھئی کسی کے گھر میں چوری ہوتی ہے،کسی کا بچہ اغوا ہوتا
ہے، یا کسی کا کوئی عزیز قتل ہوتا ہے تو اس میں اللہ کی رضا شامل ہے ہم
کیوں خدائی کاموں میں دخل دیں جو ہورہا ہے وہ ہونے دیں، بلا وجہ خزانے پر
پولیس اور عدالتوں کا اتنا بوجھ ڈال دیا گیا۔ اور سب سے بڑی بات ( جو کہ آپ
جیسے لوگ کبھی بھی نہیں کرسکتے ) کہ آرمی چیف کو ایک درخواست لکھیں اور اس
میں اپنے اس انقلابی فلسفے کی روشنی میں ان کو کہیں کہ َ َ اگر بھارت یا
کوئی دوسرا ملک ہمارے اوپر حملہ کرتا ہے تو یہ اللہ کی رضا ہے اس لئے براہ
مہربانی آپ فوج کا محکمہ ختم کردیں اور تمام کام اللہ کی مصلحت پر چھوڑ
دیں۔ اور پھر اخلاقی طور پر آپ کو اپنی یہ سیٹ بھی چھوڑ دینی چاہیے کہ ملک
می جو کچھ بھی ہورہا وہ اللہ کی مرضی ہے اس لئے آپ بلا وجہ اسمبلی میں جا
کر کسی قانون کے حق میں اور کسی قانون کی مخالفت میں بات کرکے اللہ کی رضا
کے خلاف کام کریں گے اس لئے ہم منتظر ہیں اس خبر کے کہ آپ کب اپنا ستعفیٰ
پیش کرتے ہیں۔
دکھ ہوتا ہے ہمیں جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیسے کیسے لوگ ہمارے اوپر حکمران
بن بیٹھے ہیں۔ محترم ریاض پیرزادہ صاحب یقیناَ َ ہر کام اللہ کی مرضی سے
ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ نظام ہے کہ وہ اس کام کو بندوں کے ذریعے ہی
انجام دلاتا ہے اور اس کے ذریعے کرداروں کو سامنے لاتا ہے ( جیسا کہ ہم نے
اوپر بیان کیا تھا ) تھوڑا سا عقل استعمال کریں تو آپ کی بہت سی چیزیں سمجھ
آجائیں گی۔ کیا نعوذ باللہ اللہ کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ دین اسلام کو
براہ راست نافذ کردیتا؟ کوئی بدر و حنین کا واقعہ نہیں ہوتا،نبی مہربان صلی
اللہ علیہ وسلم کو طائف کی وادی میں پتھر نہ کھانے پڑتے،شعب ابی طالب میں
محصور نہ ہونا پڑتا،اپنا عزیز شہر مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت نہ کرنی پڑتی،
اپنوں کے طعنے نہ سننے پڑتے، احد کا سخت معرکہ بھی پیش نہ آتا کیوں کہ اللہ
رب العالمیں تو جب کسی چیز کو کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو وہ کہتے ہوجا اور
وہ ہوجاتی ہے (کُن فیکن )۔ لیکن یہ اللہ کی مصلحت ہے کہ اس نے انسانوں کو
دنیا میں میں آزمائش کے لئے بھیجا ہے اور وہ وہ اس کے ذریعے دیکھتا ہے کون
ثابت قدم رہتا ہے اور کون اللہ کے راستے سے پھر جاتا ہے۔ نبی مہربان صلی
اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک ہے دنیا آخرت کی کھیتی ہے یعنی یہاں انسان جو
بیج بوئے گا اس کی فصل اس کو آخرت میں کاٹنی ہوگی۔ لیکن یہ تو یقین کی بات
ہے نہ۔ جو لوگ شرعی قوانین ہی کو نہ مانتے ہوں ان سے یہ امید کرنا کہ وہ
کوئی اچھا کریں گے تو یہ ایک خیال خام ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہر کام کے لئے جہد اور سعی کو لازم قرار دیا ہے یہ بالکل
ممکن ہے میں اللہ سے سفر حج کی دعا کروں اور اللہ تعالیٰ چاہے تو مجھے
یکبارگی اٹھا کر دیار نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پہنچا دیں لیکن یہ
اللہ کا طریقہ کار نہیں ہے اللہ نے اس کے لئے جو طریقہ کار ہے اس کو اختیار
کرنے کا حکم دیا ہے اور مجھے باقاعدہ پاسپورٹ بنوانا پڑے گا، ویزہ لگوانا
پڑے گا، اور ٹکٹ لینا ہوگا اور اس کے بعد ہی میں اپنی منزل پر پہنچ پاؤں
گا۔ ہاں اس میں یہ ضرور ہوگا کہ جب میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرونگا تو اللہ
اس سفر کے اسباب مہیا کریں گے،اس سفر کے راستے کی رکاوٹیں دور کریں گے اور
اس سفر کو میرے لئے آسان بنائیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ کار ہے۔ اللہ
تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے گناہوں سے درگزر کرتے ہوئے ہم سے آسانی کا
معاملہ فرمائے اور ہمیں اچھے اور نیک حکمران عطا فرمائے۔ |