حیرت ہے؟ کوئی پاکستان حکمران 62 سالوں میں خطِ غربت بھی نہ مٹا سکا

اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک پاکستان جس کے عوام اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں..
حکمرانوں کی عیاشیوں کے آگے عوام بے بس ہے....

یقیناً یہ اہلِ پاکستان کے لئے بڑی حیرت کی بات ہوگی کہ جس کا انکشاف ملک کی پہلی اور دنیا کی انوکھی فرینڈلی اپوزیشن جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحاق ڈار نے کیا ہے کہ پاکستان میں 75فیصد عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور اِسی طرح پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ایک رہنما اور پرویز مشرف حکومت کے سرگرم رکن طارق عظیم نے بھی موجودہ حکومت کی کارستانی پر شدید تنقید کرتے ہوئے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں کہا ہے کہ بیرونی قرضے دوگنا ہوگئے ہیں اور حکومت مزدوروں کے فنڈ سے اپنی تشہر کررہی ہے “میں سمجھتا ہوں کہ اِن دونوں ہی باتوں سے انکار نہیں کہ پاکستان میں 75فیصد عوام خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور موجودہ حکومت مزدوروں کے فنڈ سے اپنی تشہر بھی کر رہی ہے...... اِس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت ایسا کر بھی رہی ہو کیونکہ گزشتہ ہی دنوں ایک خبر یہ بھی آئی تھی کہ وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کے جی پی (جنرل پروویڈنٹ) فنڈ کے لئے منافع (مارک اَپ) کی شرح میں ایک فیصد کی کمی کردی ہے اور اِس ضمن میں یہ بھی اطلاع ہے کہ وزارت ِ خزانہ نے اِس کا ترنت نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا ہے جس کے مطابق وفاقی حکومت نے رواں مالی سال 2009-10کے لئے سرکاری ملازمین کے جی پی فنڈ پر منافع کی شرح 14فیصد مقرر کی ہے جو گزشتہ مالی سال 2008-09میں یہ شرح خالِصتاً 15فیصد تھی ممکن ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنی تشہر کے لئے مزدوروں کے فنڈ سے ہی اپنا یہ نیک کام چلانے کے لئے جی پی فنڈ میں ایک فیصد کمی کی ہو۔ اِس کا اَب کوئی تسلی بخش جواب تو حکومت ہی دے سکتی ہے کہ اُس نے ایسا کیوں ....؟اور کس کے کہنے پر کیا ہے....؟

بہرحال! اِن ساری باتوں کے باوجود یہاں سب سے زیادہ حیرت اور کان کو ہاتھ لگانے کا مقام تو یہ ہے کہ حکومت آخر ایسا کب تک کرتی رہے گی...؟ اور اِس کے ساتھ ہی یہاں سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں 62سالوں میں کوئی بھی ایسا حکمران نہیں آیا کہ جس نے قومی خزانے سے دولت اپنے ذاتی استعمال کے لئے خرچ نہ کی ہو....؟اور وہ ملک اور قوم کے لئے مخلص رہا ہو.....؟اور اُس نے اپنے اقدامات سے ملک کے غریب عوام کی حالات ِ زندگی بہتر بنانے کا کچھ سوچا ہو ....؟اور اِسی طرح کیا کسی حکمران نے خطِ غربت کو بھی مٹانے کے لئے کوئی ایسا کام نہیں کیا .....؟کہ جس سے ملک میں کھینچی گئی خط ِ غربت ہی مٹ جاتی ...... اور یہ پاکستان جو آج اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک ہونے کا دعویدار بنا پھرتا ہے اِس ملک کے عوام سستی دال، روٹی کے حصول سے بھی یوں محروم نہ ہوتے کہ جیسے آج ہیں...... اور قومی خزانے سے لوٹی گئی دولت سے عیاشیوں میں مگن اِن حکمرانوں کے آگے آج ملک کے عوام بے بس ہیں اور یقیناً یہی وجہ ہے کہ آج اسلامی دنیا کے پہلے ایٹمی ملک پاکستان کے خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے والے عوام اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اپنے بچوں کو بھی فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔

اِس طرح شائد ہمارے حکمرانوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ غربت کا بہانہ کر کے بچوں کو فروخت کرنے کی ہمارے یہاں کی ایک روایت بن چکی ہے تب ہی تو ہمارے بے حِس اور عیاش حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے کہ غربت کے مارے ہوئے مجبور اور مفلوک الحال لوگوں کے اِس عمل اِن پر کوئی اثر ہو۔

جبکہ دوسری جانب مجھ سمیت کروڑوں پاکستانی ایسے بھی ملک میں موجود ہوں گے کہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کا عوامی اجتماعات، اخبارات اور ٹی وی پروگراموں میں آکر ایسے اعداد و شمار پیش کرنا بھی ایک فیشن بن چکا ہے کہ جیسے ملک سے غربت کے خاتمے کی فکر اِنہیں ہی سب سے زیادہ ہے اور یہ لوگ ایسے ایسے اعداد و شمار پیش کرتے ہیں اور اپنی جدوجہد میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہیں کہ جیسے اِن کے اِس عمل اور اِن کی جانب سے چونکا دینے والے اعداد و شمار یوں پیش کئے جانے سے پاکستان کے حالات سُدھر جائیں گے...؟جبکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہونا تو یہ چاہئے کہ ملک کو اِس حالت سے نکالنے کے لئے اپوزیشن کو بھی اپنی ذمہ داری پوری طرح سے ادا کرنی چاہئے یوں ملک کے غریبوں سے متعلق اعداد و شمار پیش کرکے غریبوں کا مذاق اڑا کر نہ تو حزبِ اختلاف اپنا سیاسی قد اُونچا کرسکتی ہے....؟ اور نہ اپنے اور کوئی پوشیدہ مقاصد ہی حاصل کرنے میں کامیاب ہوپائے گی....؟ کیونکہ حزب اقتدار کی جماعتوں پر بھی اُتنی ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جتنی اقتدار میں رہنے والی جماعت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک کے عوام کے لئے بلاتفریق بھلائی کے کاموں کے لئے کچھ کرے۔ کیونکہ کوئی ضروری نہیں کہ جو جماعت آج حزبِ اختلاف میں ہے ....تو کل وہ اقتدار میں نہیں ہوگی اور یہ بھی کہ جو گزرتے لمحوں کے ساتھ اقتدار میں ہے کل وہ حزبِ اختلاف میں نہیں ہوسکتی ...؟اِس لئے ضروری ہے کہ دونوں کو ہی عوام کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرنا چاہئے تاکہ جب ملک کے عوام خوشحال ہوں گے تو ملک بھی ترقی کرے گا اور جب ملک ترقی کرے گا تو دیگر مسائل بھی خود بخود ختم ہوتے جائیں گے۔

اور اِس کے ساتھ ہی میں یہاں اپنی پاکستانی قوم کو بیدار کرنے اور اِس کی بند آنکھیں کھولنے کے لئے ایک بڑی عمدہ مثال اپنے پڑوسی اور اُس جگری دوست ملک چین کی پیش کرنا چاہتا ہوں جس نے ہر مشکل گھڑی میں ہماری توقعات سے بڑھ کر ہمارا ساتھ دیا ہے اور ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر ہمارے حوصلے بلند کئے ہیں اِس ملک کی کامیابی کا جو طرہ اور راز ہے وہ یہ ہے کہ چین کا نعرہ ہے مزاحمت پر ثابت قدم رہو اور اطاعت پسندی کی مخالفت کرو، ترقی پر ثابت قدم رہو اور انحطاط کی مخالفت کرو اور آج یہی وجہ ہے کہ چینی قوم کا شمار دنیا کی اُن عظیم ترین بیدار قوموں میں ہوتا ہے جو اپنے اِسی جذبے کے تحت دنیا میں انقلاب برپا کرسکتی ہیں اور چینی قوم جو اپنے ہر قول و فعل میں اپنے سے زیادہ اپنے ملک کے وقار اور عظمت کی بلندی کے لئے کوشاں رہنے والی دنیا کی وہ قوم ہے جس نے اپنے اِسی عزم و ہمت سے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ یہ قوم دنیا کے کسی بھی گوشے میں رہے اِس کی اپنی ایک منفرد اور سب سے جدا پہچان ہے اور اِس کا ہر عمل اپنے ملک کی ساکھ کو بڑھانے اور اِس کی عظمت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

ڈاکٹر سن یات سین نے ایک جگہ اپنے تجربے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے چالیس برس تک خود کو قومی انقلاب کے مقصد کے لئے وقف کئے رکھا تاکہ چین کے لئے آزادی اور برابری کا درجہ حاصل کیا جاسکے اِس سوچ کے حامل اِس عظیم شخص نے بالآخر اِس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اِن چالیس برسوں کے دوران میرے تجربات نے مجھے پوری طرح اِس بات کا قائل کردیا کہ اِس مقصد کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ ہم عوام الناس کو تیزی سے بیدار کریں۔ اور اِس سے قطعاً انکار نہیں کہ چینی قوم دنیا کی ایک بیدار اور عظیم قوم ہے جو اپنے عزم و ہمت سے دنیا کا نقشہ بدلنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔

اور دوسری طرف دنیا کے سامنے ایک پاکستانی قوم ہے جس کے بانی حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اﷲ علیہ نے آج سے 62برس قبل فرما دیا تھا کہ” اے نوجوانوں!خدمت، ہمت اور برداشت کے سچےّ جذبات کا اظہار کرو اور ایسی شریفانہ اور بلند مثالیں قائم کرو کہ آپ کے ہم عصر اور آنے والی نسلیں آپ کی پیروی کریں“مگر مجھے پورا یقین ہے کہ ہماری قوم کے لوگوں نے اپنے قائد کے اِس فرمان کو ایک کان سے سُنا اور دوسرے سے نکال دیا اگر واقعی ہماری قوم اپنے قائد کے اِس سُنہرے قول کو اپنی گراہ سے باندھ لیتی تو آج ہماری یہ قوم جو دنیا کی ہر نعمت سے مالا مال ہے دنیا کے آگے یوں فقیروں سے بھی بدتر حالات میں زندگی نہ گزارتی کہ دنیا کے لوگ اِس کی حالت دیکھ کر اِس کا مذاق اُڑاتے اور اِس کی مختلف حیلے بہانوں سے ڈالروں کے عوض مدد کر کے اور اِسے امداد دے کر اِسے اپنے گھناؤنے مقاصد کے لئے ہرگز اِسے استعمال نہ کرتے جیسے آج (امریکا، برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں اِسے سامنے رکھ کراپنا الّو سیدھا کر رہے ہیں)اور ہمارے ہی لوگوں کو ہماری ہی افواج کے ہاتھوں مروا کر ملک میں عدم توازن کی فضا قائم کر رہے ہیں۔

بہرکیف! ہمارے یہاں آج جو کچھ بھی ہو رہا ہے اِس میں اپنے سے زیادہ اغیار کار فرما ہیں جو اپنی جنگ ہمیں چند ڈالرز دے کر ہمارے ملک میں لڑ رہے ہیں یہ اور بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی آنکھوں پہ جو پٹی بندھی ہے وہ اِسے خود ہٹانے کو روادار نہیں ہیں کیونکہ ہمارے حکمران یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگر اِس پٹی کے بدلے ہمیں ڈالر مل رہے ہیں تو کیا حرج ہے....؟کہ ہم اپنی آنکھ پر بندھی پٹی کو ہٹا کر اچھے بھلے آتے ہوئے ڈالروں سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور وقتاً فوقتاً ڈالروں کی ہاتھ آتی ہوئی تھیلی بھی ہاتھ سے چھوٹ جائے اور ہم کفِ افسوس ملتے رہ جائیں۔ مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے سوائے اپنے قیام کے ابتدائی چند سالوں کے ہمارے ملک پر اپنے حکمرانوں سے زیادہ اغیار کی مرضی کا عمل دخل رہا اور اِنہی کے احکامات چلے ہیں اور ہمارا ہر حکمران اِن کے احکامات کو ماننے اور اِن کی مرضی کے مطابق کام کرنے کا پابند رہا ہے اور آج بھی حالات اِس سے کچھ مختلف نہیں رہے ہیں بلکہ آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے جیسا پہلے سے چلا آ رہا ہے۔ اور خدا جانے کب تک ایسا ہوتا رہے....؟ لہٰذا اَب اگر ہم بھی اپنے ملک ِپاکستان کو کامیابیوں کی منزلوں تک لے جانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ساری پاکستانی قوم خود کو اپنے چینی دوستوں کی خصلت میں پورا کا پورا ڈھال لے تب ہم بھی اپنے چینی دوستوں کی طرح اپنے ملکِ پاکستان سے حقیقی محبت کریں جس طرح چینی اپنے ملک چین سے کرتے ہیں اور یہ ساری دنیا میں اپنے ملک کی عزت اور وقار کے لئے انسانیت کی فلاح کا کام کرتے ہیں۔(ختم شد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 975161 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.