تحریر: سمیعہ رشید
انبیاء کرام کے بعد حضرت ابو بکر صدیق تمام لوگوں سے افضل ہیں ،ان کے بعد
حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سب سے افضل ہیں۔ آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ
عنہ نبوت کے چھٹے سال اسلام لائے - آپ رضی اللّٰہ عنہ کے قبول اسلام کے لئے
حضور صلی اﷲ علیہ السلام نے اﷲ سے دعا فرمائی،"اے اﷲ عمر بن خطاب کے ذریعے
اسلام کو غلبہ عطا فرما " حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ کا قول ہے "جب
سے عمر اسلام لائے ،دین اسلام روز بروز ترقی کرتا چلا گیا"- حضرت عمر فاروق
رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے اسلام قبول کیا تو دارارقم میں
موجود مسلمانوں نے اس زور سے تکبیر بلند کی کہ اسے تمام اہل مکہ نے سنا-
میں نے دریافت کیا کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟فرمایا:کیوں نہیں یقیناً ہم حق
پر ہیں،میں نے عرض کیا تو پھر ہم پوشیدہ کیوں رہیں ؟؟؟؟ چنانچہ وہاں سے
مسلمان دو صفیں بنا کر نکلے۔ ایک صف میں حضرت حمزہ اور ایک میں میں تھا۔ جب
ہم اس طرح مسجد الحرام میں داخل ہوئے تو کفار کو سخت ملال ہوا۔ اس دن سے
رسول اﷲ نے مجھے فاروق کا لقب عطا فرمایا،کیونکہ اسلام ظاہر ہو گیا اور حق
و باطل میں فرق نمایاں ہو گیا۔
حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کا کا ارشاد ہے ،حضرت عمرفاروق رضی اللّٰہ عنہ کے
سوا کوئی شخص نہیں جس نے اعلانیہ ہجرت کی ہو - جس وقت حضرت عمر فاروق ہجرت
کے ارادے سے نکلے ،آپ نے تلوار کی کمان شانے سے لٹکائی اور تیر پکڑ کر خانہ
کعبہ کا طواف کیا۔ پھر وہاں موجود کفار مکہ میں سے ایک ایک سے الگ الگ
فرمایا ،تمھاری صورتیں بگڑیں،تمھارا ناس ہو جائے ،ہے کوئی تم میں جو اپنی
ماں کو بیٹے سے محروم ,اپنے بیٹے کو یتیم اور اپنی بیوی کو بیوہ کرنے کا
ارادہ رکھتا ہو ،وہ آئے اور جنگل کے اس طرف آکر مجھ سے مقابلہ کرے۔ میں اس
شہر سے ہجرت کر رہا ہوں۔ " کفار کو آپ کا مقابلہ کرنے کی جرات نہ ہو سکی۔
ہمارے آقا و مولا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے "اگر میرے بعد
کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ ہوتے آپ رضی اللّٰہ عنہ سے
پانچ سو انتالیس احادیث مروی ہیں۔ آپ رضی اللّٰہ عنہ کی صاحبزادی حضرت حفضہ
کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ سیدنا عمر فاروق رضی
اللّٰہ عنہ تمام غزوات میں آقا و مولا صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ مصر
کی فتح کے بعد وہاں کے گورنر عمرو بن عاص رضی اللّٰہ عنہ نے مصریوں کو ان
کے رواج کے مطابق ایک کنوری لڑکی دریائے نیل میں بہانے کی اجازت نہ دی تو
دریائے نیل خشک ہو گیا۔ اس پر گورنر نے آپ رضی اللّٰہ عنہ کی خدمت میں تمام
ماجرہ لکھ بھیجا، آپ رضی اللّٰہ عنہ نے ایک خط لکھ کر ان سے فرمایا:خط کو
دریا میں ڈال دو ،خط میں لکھا تھا "اﷲ کے بندے امیر مومنین کی جانب سے دریاِ
نیل کے نام: اگر تو خود جاری ہوتا ہے تو مت جاری ہو اور اگر تجھے اللّٰہ
تعالیٰ جاری فرماتا ہے تو میں اللّٰہ تعالیٰ واحد القہار سے استدعا کرتا
ہوں کہ وہ تجھے جاری کر دے "-
جب یہ خط دریا میں ڈالا گیا تو دریا ایسا جاری ہوا کہ معمول سے سولہ گز
پانی زیادہ چڑھ گیا اور پھر کبھی خشک نہ ہوا۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے
ایک لشکر ساریہ نامی شخص کی سربراہی میں جنگ کے لئے نہاوند روانہ کیا - کچھ
دن بعد آپ رضی اللّٰہ عنہ نے جمعہ کے خطبہ میں ارشاد فرمایا ،"اے ساریہ
پہاڑ کی طرف "چنانچہ ہم پہاڑ کی طرف ہو گئے۔ پس جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور
ہمیں فتح نصیب ہوئی -(مشکٰوہ) آپ رضی اللّٰہ عنہ نے ہی سب سے اول ہجری
تاریخ وسن جاری کیا اور حکومتی نظم و نسق کے لئے دفاترو انتظامی شعبے قائم
کئے -آپ رضی اللّٰہ عنہ نے مساجد میں روشنی کا مناسب انتظام کیا۔ سیدنا
حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے ماہِ رمضان میں ایک مسجد میں قندیل روشن دیکھی تو
فرمایا:اللّٰہ تعالیٰ عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کی قبر کو روشن فرمائے کہ
انہوں نے ہماری مسجدوں کو روشن فرما دیا ہے۔ آپ رضی اللّٰہ عنہ صوف کا لباس
پہنتے تھے،جس میں چمڑے کے پیوند لگے ہوتے تھے۔ اسی لباس میں دْرّہ لئے ہوئے
بازار تشریف لے جاتے اور اہل بازار کو ادب و تنبہہ فرماتے تھے۔ سادہ غذا
کھاتے،عوام کے حالات جاننے کے لئے راتوں کا گشت کرتے تھے۔ جب کسی کو عامل
بناتے تو اس کے اثاثوں کی فہرست بنالیا کرتے،نیز اسے عوام کی فلاح کے لئے
نصیحتیں فرماتے اور سزا ملنے پر عاملوں کو سزائیں بھی دیتے تھے۔
آپ رضی اللّٰہ عنہ کے دور خلافت میں بیشمار فتوحات ہوئیں- دمشق ،بصرہ،اردن
،مدائن،حلب،انطالیہ ،بیت المقدس ،نیشاپور،مصر ،اسکندریہ ،آذربائیجان ،طرابلس
،اصفہان ،مکران وغیرہ متعدد علاقے آپ رضی اللّٰہ عنہ کے دور میں ہی اسلامی
سلطنت میں شامل ہوئے تھے۔ 26 ذی الحجہ 23 ہجری کو جب آپ نماز فجر پڑھانے
لگے تو ایک مجوسی ابو لولو فیروز نے آپ رضی اللّٰہ عنہ کو دو دھاری خنجر سے
حملہ کر کے شدید زخمی کردیا۔ آپ رضی اللّٰہ عنہ نے خلیفہ کے انتخاب کے لئے
ایک کمیٹی بنادی تاکہ وہ باہمی مشاورت سے خلیفہ منتخب کر لیں۔ یکم محرم
الحرام 24 ہجری کو آپ رضی اللّٰہ عنہ کی شہادت واقع ہوئی -آپ رضی اللّٰہ
عنہ کی خواہش پر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کی اجازت سے آپ رضی اللّٰہ
عنہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق کے پہلو میں دفن کئے گئے۔
|