ماہ شعبان میں رسول ﷺ و اصحاب رسول کے معمولات اور ہمارا کردار
(Ata Ur Rehman Noori, India)
ماہ شعبان میں سال بھر میں ہونے والے
تمام امورکائنات کی فہرست مرتب کی جاتی ہے
گھِرآیا ابر ِرحمت بام ِگردوں پر
سروں پرسایۂ لطف خدا کاوقت آیاہے
ماہ شعبان المعظم رمضان المبارک کا پڑوسی مہینہ ہے۔ رسول اکرم ﷺاس مبارک
مہینے کا چاندبطور خاص ملاحظہ فرماتے۔اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ
عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ شعبان کااس قدر تحفظ (اہتمام)فرماتے کہ اتنا
کسی کانہ کرتے۔(ابوداؤد)ماہِ شعبان کی اہمیت وافادیت کا اندازہ اس حدیث
مبارکہ سے بخوبی لگایاجاسکتاہے۔شاہکار دست قدرت مصطفی جان رحمت ﷺفرماتے
ہیں:رمضان اﷲ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے،شعبان پاک کرنے والاہے
اور رمضان گناہ مٹانے والاہے۔ماہ شعبان کے یہ خصائص کس قدر اہم ہیں اور شب
برأ ت کافضل وشرف بھی کتنا عظیم۔اسی ماہ میں سال بھر میں ہونے والے تمام
امورکائنات ،عروج وزوال،ادبار واقبال،فتح وشکست،فراخی وتنگی،موت وحیات اور
کارخانۂ قدرت کے دوسرے شعبہ جات کی فہرست مرتب کی جاتی ہے۔
اپنا مہینہ بولنے کی وجہ:شعبان المعظم کو حضورﷺنے اپنامہینہ بتایا اس کی
کئی وجوہات ہیں۔ایک یہ کہ اس مہینے میں قیام وروزوں کاحکم حضور ﷺنے دیا اور
دوسرے یہ کہ اسی مہینے میں آیت درود نازل ہوئی۔حضور ﷺاس ماہ کے لیے خصوصیت
کے ساتھ اس دعاکااہتمام فرماتے،’’اے اﷲ!ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت
دے اور رمضان تک پہنچا دے۔‘‘(بیہقی)حضور رحمت عالم ﷺنے فرمایا:رجب اور
رمضان کے درمیان شعبان کامہینہ ہے۔لوگ اس کی طرف سے غفلت کرتے ہیں حالاں کہ
اس ماہ میں بندوں کے اعمال رب العالمین کے حضور پیش کئے جاتے ہیں اس لیے
میں پسند کرتاہوں کہ میرے اعمال اﷲ کے حضور میں اس طرح پیش ہوں کہ میراروزہ
ہو۔(غنیتہ الطالبین )اس حدیث مبارکہ سے پیغمبر اسلام ﷺکی انکساری کااظہار
ہوتاہے کہ دوجہاں کے مالک ومختار ﷺبارگاہ صمدیت کے متعلق کس قدر فکرمند
اورنیکیوں میں کس قدرحساس ہیں۔اس سے ہمیں درس حاصل کرنا چاہیے کہ ہم
اُمتیوں کو کس قدر آخرت کاخیال اور نیکیوں کی فکر دامن گیر ہونی
چاہیے،بالخصوص ماہ شعبان میں۔
رسول اکرمﷺکامعمول:یوں تو ہمارے نبی کی حیات کاہر ہرلمحہ عبادت ونیکیوں سے
پُر ہیں ،باوجوداس کہ آپ ﷺماہ شعبان میں عبادت وریاضت اورنماز وروزوں کا
خصوصی اہتمام فرماتے۔چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہافرماتی ہیں کہ
رسول اکرمﷺماہ شعبان کے روزے اس طرح رکھتے تھے کہ ہم کہتے تھے حضورﷺ اب
کوئی دن ناغہ نہیں فرمائیں گے اور میں نے کبھی نہیں دیکھاکہ سوائے ماہ
رمضان کے رسول اﷲ ﷺنے کسی مہینے کے پورے روزے رکھے ہوں اور میں نے یہ بھی
نہیں دیکھا کہ حضور ﷺنے شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھے ہوں۔(بخاری
)
اصحاب رسول کا معمول:حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس
ﷺنے فرمایارجب کاشرف اور فضیلت باقی مہینوں پرایسی ہے جیسے دوسرے کلاموں پر
قرآن مجید کی فضیلت اور تمام مہینوں پر شعبان کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام
انبیاء پر میری فضیلت ہے ۔آپ ہی سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺکے اصحاب جب شعبا
ن کاچاند دیکھ لیتے تو کلام مجید کی تلاوت میں منہمک ہوجاتے،مسلمان اپنے
اموال کی زکوٰۃ نکالتے تاکہ مسکین اور غریب مسلمانوں میں بھی روزہ رکھنے کی
سکت پیدا ہوجائے۔حکام قیدیوں کوطلب کرتے جس پر حد قائم کرناہوتی اس پر حد
قائم کرتے باقی مجرموں کوآزاد کردیتے،سوداگر اپنے قرض اداکردیتے،دوسروں سے
اپنا قرض وصول کرلیتے اور جب رمضان شریف کاچاند ان کونظر آجاتا تو( دنیاکے
تمام کاموں سے فارغ ہوکر) اعتکا ف میں بیٹھ جاتے۔(غنیتہ الطالبین)حکیم
الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:صوفیائے کرام فرماتے
ہیں،رجب بیج بونے کامہینہ ہے، شعبان پانی دینے کا اور ماہِ رمضان پھل کاٹنے
کا،یعنی کہ رجب میں نوافل میں خوب کوشش کرو،شعبان میں اپنے گناہوں پر روؤ
اور رمضان میں روزہ رکھ کر رب کی رضا حاصل کرکے اس کھیت کوخیریت سے
کاٹو۔(مرات شرح مشکوٰۃ)یعنی رجب میں اپنی زندگی کے کھیت میں نیکی کابیج
لگاؤ،شعبان میں اس کی پرورش کرو اور رمضان میں پھل کاٹویعنی ایک نیکی پر
ستر نیکیوں کاثواب حاصل کرو۔
ماہ شعبان کوغنیمت جانو:ہر دانش مند مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مبارک
مہینے میں غافل نہ رہے بلکہ ماہ رمضان کی تیاری شروع کردے،گزشتہ اعمال سے
توبہ کرکے گناہوں سے پاک ہوجائے،اسی ماہ میں اﷲ کی بارگاہ میں گریہ وزاری
کرے تاکہ دل کی خرابیاں دور ہوجائے اور دل کی بیماری کا علاج ہوجائے۔اس
سلسلہ میں تاخیر ولیت ولعل سے کام نہ لے،یہ نہ کہے کہ کل کرلوں گااس لیے کہ
دن تو صرف تین ہیں،ایک کل جو گزر گیا،ایک آج جوعمل کادن ہے اور ایک آنے
والاکل جس کے آنے کی امید ہے یقین سے کہانہیں جاسکتاکہ وہ اس کے لیے آئے
گایانہیں۔اسی طرح مہینے تین ہیں،رجب توگزر گیا وہ لوٹ کر نہیں آئے گا،ماہ
رمضان کا انتظار ہے معلوم نہیں کہ اس مہینے تک زندہ رہے یانہ رہے۔بس شعبا ن
ہی ان دونوں کے درمیان ہے اس لیے اس میں طاعت وبندگی کوغنیمت سمجھنا
چاہیے۔اﷲ پاک ہمیں اس ماہ کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ |
|