مامی مجھ سے اتنی نفرت کیوں کرتی ہے میں تو
سارا دن اس کی ساتھ گھر کا کام کرتی رہتی ہوں خیر کوئی بات نہیں میں ایک دن
اس کی دل ضرور جیت لوگی اس وقت مامی میری پاس ایی اور کہنے لگی فاریہ اگر
تم برا نہ مانو تو ایک بات کہوں میں نے کہا ہاں مامی کیوں نہیں کیا کہنا
چاہتے ہو بھولوں فاریہ تم تو دیکھ رہی ہو کی تمہارا ماموں بھی ہر وقت بیمار
رہتا ہے اور میرے دونوں بیٹیاں ماریہ اور فاطمہ ابھی پڑھ رہی ہے اس کی
اسکول کی بھی بہت زیادہ خرچ ہے اور ماجد بھی بہت چھوٹا ہے اس وجہ سے میں
اور تمہارے ماموں سوچ رہے تھے کہ تم وہ ہمارے سامنے والے گلی میں ڈاکٹر
عمران صاحب کی گھر میں ایک ملزم کی ضرورت ہے تم جاکر وہاں کام کرنا وہ بہت
اچھا انسان ہے وہ تمہیں بہت اچھا تنخواہ بھی دینا چاہتا ہے پوری تین ہزار
روپے لیکن مامی میں مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں کسی کی گھر جاکر کام کروں
اور تمہیں تو پتا ہے کہ میں اج تک باہر نہیں نکلی ہو ں نہ کبھی میں کسی کی
گھر گئی ہوں صرف اس وجہ سے کی میں اپنی ماں کی طرح نیک اور پردہ کرنے والی
ہوں نہیں مامی سوری میں کسی غیر کی گھر جاکر کام نہیں کرسکتی مامی نے غصے
میں اکر کہا کیوں نہیں کرسکتی پھر جاکر کہی اور رہنا ہمارے گھر میں کیوں
مصیبت بن کر ایی ہو اج شام تک تیاری کر کے میری گھر سے نکل جانا ورنہ میں
خود تمہیں نکال دوگی ماموں نے اکر کہا کیا ہوا کیوں فاریہ کو تنگ کر رہی ہو
میں ماموں کی پاس جاکر رونے لگے اور میں نے ماموں کو سب کچھ بتادیا ماموں
بھی خاموش ہوا اس نے کہا فاریہ تمہاری مامی ٹھیک کہہ رہی ہمارے گھر کا
حالات بہت خراب ہیں میں بھی اج کل بیمار رہتا ہوں اگر تم ہمارے ساتھ کچھ
مدد کروگی تو ہم سب کیلئے اچھا ہو گا مامی نے کہا دیکھ لیا تیرے ماموں کا
بھی یہ فیصلہ ہے وہ لوگ تو وہاں سے چلے گئے لیکن میں بہت دیر تک روتی رہی
اور سوچتی رہی کی اب کیا ہوگا یہ گھر چھوڑ کر چلی جاوں یا پھر ان لوگوں کی
بات مان لوں قسط نمبر ٢ |