ضابطۂ اخلاق اور معاشرتی حدود کا نفاذانسانی زندگی کیلئے
ایک بیش بہانعمت کا درجہ رکھتا ہے ، سماجی و معاشرتی زندگی کو خوشگوار اور
آسان بنانے کیلئے ڈھیروں قربانیاں مطلوب ہوتی ہیں تب کہیں جاکے ایک ایسا
مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے جس کی تمناکم و بیش ہر دل میں ہوتی ہے ،لیکن
یہ تمنائیں اسی وقت پایہ ٔ تکمیل کو پہنچ سکتی ہیںجب ہمارے دلوں میں دوسروں
کیلئے جینے کا جذبہ بیدار ہوجائے ، ہم اپنی خوشیوں کو دوسروں پر نچھاور
کرنے کا ہنر سیکھ لیں ، دوسروں کے دکھ دردبانٹنے یا انہیں کم کرنے میں ہمیں
مسرت و شادمانی محسوس ہونے لگے اور ہمارے اندریہ احساس شدت کے ساتھ جاگ
جائے کہ ہمارا وجود دوسروں کی راحت رسانی کیلئے ہے نہ کہ تکلیف پہنچانے
کیلئے ،ہمیں اس عام انسانی جبلت سے باہر نکلنا ہوگا جیسا کہ آج اکثر
معاشرے میں یہ تصورپایا جاتا ہے کہ ہمارے ساتھ جو جیسا سلوک کرے گا اس کے
ساتھ ہم بھی ویسا ہی سلوک کریں گے ، اگر ہمیں کوئی اہمیت دیتا ہے تو ہم بھی
اسے اہمیت دیں گے لیکن اگر کوئی ہمیں نظر انداز کرتا ہے تو ہم بھی بہر صورت
اسے نظر انداز ہی کریں گے بلکہ اس میںاتنی شدت پیدا کردیں گے کہ وہ تلما
اٹھے ۔یہ تو رہا نسبتاً برابری کا معاملہ اب تو صورتحال یہ ہوتی جارہی ہے
کہ اگر ہمیں کوئی نقصان پہنچاتا ہے تو ہم اسے دس گنا نقصان پہنچانے کی کوشش
کرتے ہیں ، سیر کا سوا سیر والا محاورہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا یہ محاورہ
ہمارے انہی سماجی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے جو فی الحال بڑی قوت کے ساتھ
ہمارے سارے وجود میں سرایت کرگیا ہے ۔ اس صورتحال سے بہر حال ہمیں باہر
آنا ہوگا ۔اس موقع پر حضرت نظام الدین اولیاء ؒکا وہ قول شدت سے یاد آتا
ہے کہ اگر تمہاری راہوں میں کانٹے بکھیردیئے جائیں تو انہیں ہٹادو نہ کہ
انتقاما ً تم بھی ان راہوں میں کانٹے بکھیرنے لگو کیونکہ ایسا کرنے سے تو
پھر سارے راستے کانٹوں سے بھر جائیں گے ۔یہ قول ہمیں بتاتا ہے کہ سماجی
زندگی میں خود غرضی ، مطلب پرستی ، دوسروں سے لاتعلقی اور بے رحمی کی کوئی
گنجائش نہیں ہے ، یہ راستہ ہمیں کبھی بھی امن و سلامتی کی طرف نہیں لے جا
سکتا بلکہ یہ اس جہنم کی طرف ضرور لے جاسکتا ہے جہاں بغض ، کینہ ، حسد ،
بدعنوانی و ریاکاری ، جھوٹ الزام تراشی اور نہ جانے کون کون سی برائیاں
ہمارے استقبال کو بے تاب رہتی ہیں ۔
ٹرینوں اور بسوں کے سفر کے دوران آپ پر یہ تجربہ ضرور گذرا ہوگا کہ کچھ
لوگ آپس میں انتہائی شورشرابے کے ساتھ بات چیت میں مصروف رہتے ہیں اور
انہیں قطعی یہ احساس نہیں ہوتا کہ دوسرے لوگوں کو ان کے اس عمل سے کس قدر
تکلیف محسوس ہورہی ہوگی اسی طرح موبائل پر اتنی زور سے باتیں کریں گے جیسے
کہ سامنے والا بہرہ ہو ، وہ سن رہا ہے یا نہیں یہ تو وہی جانے لیکن دوسروں
کے کانوں کے پردے ضرور جھنجھنا اٹھتے ہیں ، اک عام سی عادت یہ بھی بن گئی
ہے کہ اگر دو افراد گفتگو کررہے ہیں ، عین اسی وقت کوئی تیسرا فرد ان کی
گفتگو میں مخل ہو کر اچانک کوئی سوال جڑدیتا ہے ، اس وقت واقعی ایسا لگتا
ہے کہ اس نے سوال کے بجائے تھپڑ جڑدیا ہے ، جس سے فوری طور پر وہ دونوں
افراد ڈسٹرب ہوجاتے ہیں اور تھوڑی دیر ہی کے لئے سہی فضا مکدر ہوجاتی ہے
۔طریقہ تو یہ ہونا چاہئے کہ ہم فریقین کی گفتگو کے ختم ہونے کا انتظار کریں
پھر اپنی بات رکھیں، یہی اخلاقی تقاضا بھی ہے ۔اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ
کسی وجہ سے اگر کوئی راستہ تنگ ہو جائے یا راستے کے ایک طرف پانی بھر جائے
یا کوئی گاڑی وغیرہ کھڑی ہوگئی ہے ، آنے جانے کیلئے ایک مختصر راہداری سی
رہ گئی ہے ٹھیک اسی جگہ پر دوشخص کھڑے ہو جائیں گے اور گفتگو کا سلسلہ چل
پڑے گا ، لیجئے اب وہ تھوڑا سا راستہ بھی بند ہوگیا ، لیکن انہیں کوئی
پرواہ نہیں کہ دونوں جانب سے آمد و رفت بند ہوچکی ہے لوگ پریشان ہیں، اگر
کوئی اس غلطی کی نشاندہی کرتا ہے تو خفت محسوس کرنے کے بجائے خفگی کا اظہار
کرتے ہیں،اور اپنے ناحق کھڑے ہونے کو جائز ٹھہرانے کی طرح طرح کی تاویلیں
پیش کریں گے ، لیکن شکست نہیں تسلیم کریں گے ۔ مسجدوں میں بھی یہی صورتحال
ہوتی ہے وضو خانے میں دوران وضو گلے کی صفائی اور بلغم کے اخراج کا کام
اتنا زوروشور سے ہوتا ہے کہ بس اللہ کی پناہ ، بے حسی ایسی کہ انہیں یہ
احساس تک نہیں ہوتا کہ ہمارا یہ عمل دوسروں کے لئے کس قدر تکلیف دہ ہے ۔ہم
یہ نہیں کہتے کہ صفائی کا کا م نہ کریں ، بیشک کریں ، لیکن موقع محل دیکھ
کر کم از کم عوامی جگہوں پر توضرور گریز کریں ۔ کہیں قطار لگی ہے تو
شائستگی کے ساتھ اپنی باری کے منتظر رہیں ، کچھ لوگ تو قطار میں کھڑے رہنے
کو ہی اپنی کسرشان سمجھتے ہیں اور قطار توڑ کر دوسروں کے حقوق پامال کرتے
ہوئے بڑی بے حیائی سے فخر کا اظہار بھی کرتے ہیں ، اعتراض کرنے پر شرپسندی
کا مظاہرہ اپنا حق سمجھتے ہیں ، اسی طرح اپنے مقصد یا مراعات کے حصول کیلئے
وہ حتی الامکان ہر طرح کے اثرو رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف قانون و
آئین کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں بلکہ سماجی سطح پر اصول و ضابطوں کو بالائے
طاق رکھ کر پورے معاشرے کو غلاظت و تعفن سے بھر دیتے ہیں ، المناک پہلو یہ
بھی ہے کہ انہیںاپنے اس فعل پر کسی طرح کا احساس ندامت بھی نہیں ہوتا
کیونکہ یہی وہ احساس ہے جو انسانی زندگی میں انقلاب برپاکرتا ہے ۔احساس
ندامت ہی ہمیں ایک انسان سے دوسرے انسان میں تبدیل کرتا ہے اور یہی تبدیلی
ہمارے اندر غمخواری ، ہمدردی ، ایثار و خلوص اور محبت و رواداری جیسی اعلی
ٰ صفات کی تخلیق کرتی ہے اور یہ سارے اوصاف قطعہ ارضی کو جہنم زارنہیں
گلزار بنادیتے ہیں ۔کیا ہم اس عمل پر عہد سازی کیلئے تیار ہیں ۔ |