جن عدالتوں کو بغاوت کا مطلب ہی پتہ نہیں․․․․
(Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed, Karachi)
بنگلہ دیش جس کے معنی بنگالیوں کا ملک
ہے۔یہ بنگالی اور ان کا یہ ملک کبھی پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہوا کرتے
تھے۔جن کی قربانیاں بھی ہم پاکستانیوں جیسی ہی میرے وطن کے لئے تھیں۔مگر
حوسِ اقتد ا رکے بھوکے لوگوں کو ان کی حوث نے اندھا کر دیا۔اس میں کوئی شک
نہیں کہ مجیب الرحمان کو کرسیِ اقتدار پر بٹھایا جانا چاہئے تھا۔کیونکہ وہ
جمہوری اکثریت کا مالک تھا۔ جس کویہاں کے حوس پرستوں نے عملی شکل اختیار
کرنے ہی نہیں دی۔سب سے زیادہ حوسِ اقتدار مسٹر ذوالفقارعلی بھٹو کے اندر
تھی۔ جس نے مجیب الرحمٰن کی اقتدار کی سیج سجنے ہی نہیں دی تھی۔جس کا نتیجہ
ضد اور ہٹ دھرمی کی شکل میں نمودار ہوا۔جس میں جیت بھی ضد اور ہٹ دھرمی کی
ہی ہوئی ۔جہاں اصول اخلاقیات اور قانون سب دھرے کے دھرے رہ گئے۔جس کے نتیجے
میں یہاں ’’را‘‘ نے اپنا باریک کام کر دکھا دیا اور مشرقی پاکستان کو آسانی
کے ساتھ بنگلہ دیش بنا کر، دنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت کے روپ میں
نمودار کرا کے سکون محسو س کیا۔اور اس کھیل کے تین مین کردار مجیب الرحمٰن
،ذوالفقار علی بھٹو اور اندراگاندھی نے اپنا اپنا پار ٹ بڑے سلیقے سے پلے
کر کے تینوں قدرت کے انتقام کے نتیجے میں نشانِ عبرت بن کردنیا کی تاریخ
میں کا حصہ بن گئے اور تینوں کرداروں کے لئے نسل آگے بڑھانے کا راستہ ہی
قدرت نے روکر اپنامکافات عمل کامعاملہ کر دکھا دیا۔
مگر ان تینوں ملکوں اور خاص طور پر پاکستان اور بنگلہ دیش کی ایلیٹ کلاس
نیان معاملات سے کوئی سبق وبق نہیں سیکھا۔بنگلہ دیش کی حکمران حسینہ نیسب
سے زیادہخطر ناک کھیل بنگالہ دیش میں کھیلا کہ ماضی کے اپنے حلیف جوان کے
دور میں بہت اہم وزیر بھی رہے تھے۔ کواپنے غیض و غضب کے اظہار کے لئیمنتخب
کر کے اپنے مستقبل کے لئے کانٹوں کی سیج کی تیاری شروع کر دی ہے۔مکتی باہنی
کے غنڈوں کے مطالبے پر اس ناعاقبت اندیش بنگالن نے بنگلہ دیش کے محب اور
بنگلہ دیش جماعت ِاسلامی کے سربرہ مطیع الرحمٰن نظامی جوعمر کے اُس حصے
(73سال کی عمر )میں تھے ۔جس پر ظالم سے ظالم معاشرے کو بھی تشدد کرتے ہوئے
حیا آتی ہے۔مگر یہ کیسا ٹریبیونل ہے کہ جس میں بیٹھے لوگوں کو یہ تک پتہ
نہیں ہے کہ غداری کی تعریف کیا ہے؟ہمیں تو تعجب سُپریم کورٹ میں بیٹھے اُن
ججوں پر بھی جنہوں نے مطیع الرحمٰن کی اپیلو کو مسترد کر کے اپنے تعصب کا
کھل کر دنیا کے سامنے اظہار کر دیا ہے!!! ہم ان جعلی ججز سے پوچھتے ہیں کہ
بتائیں اگر کوئی بنگالی بنگلہ دیش کے خلاف دشمن سے ساز باز کر کے بنگلہ دیش
سے علیحدگی کا ارتکاب کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بنگلہ دیش کے محب اس کے
خلاف سینہ سپر ہوجاتے ہیں تو ان میں غدار وطن کس کوکہیں گے؟؟؟کیا وہ لوگ
غدار ہیں جو غدارِ وطن کے خلاف اپنے وطن کی یکجہتی کیلئے جدوجہد کر رہے
ہیں؟اسی لئے تو ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’’ ان عقل کے اندھوں کو اُلٹا
نظر آتا ہے مجنوں نظر آتی ہے لیلٰی نظر آتا ہے‘‘ جو غداری کے مفہوم سے ہی
نا واقف ہیں اور منصف بنے بیٹھے ہیں۔
بنگلہ دیش کی حکومت 12، افراد کو غداری کے مصنوئی الزام میں کال کوٹھڑی میں
ڈالے ہوئی تھی۔جن میں سے پاینچ بزرگ سیاست دانوں کو حسینہ واجد کی سفاک
حکومت نے تختہِ دار پر لٹکا کر اپنے مرے ہوئے باپ کا انتقا م لے کر تسکین
محسوس کر رہی ہونگی۔کیا 2008 میں مطیع الرحمٰن غدار نہیں تھے جب موجودہ
وزیرِ اعظم نے انہیں اپنی کا بینہ کا حصہ بنایا ہوا تھا اور ان کو جماعتِ
اسلامی کے کندھوں کی اقتدار میں رہنے کیلئے ضرورت تھی؟؟؟
بنگلہ دیش میں مطیع الرحمٰن کی تدفین میں ہزاروں افراد کے جمِ غفیر نے شرکت
کر کے حسینہ واجد کو آئینہ دکھا دیا اور بنگلہ دیش کے اکثر شہروں میں اس
سفاکانہ قتل کے خلاف لوگوں نے اپنے بھر پور غم و غصے کا اظہار کیا۔جن کی
ڈھاکہ، چٹاگانگ راجشاہی سمیت اکثر شہروں میں غائبانہ نمازِ جنازہ بھی ادا
کی گئی۔پولیس نے جماعتِ اسلامی بنگلہ دیش کے بے شمار کار کنوں کو بھی
گرفتار کرر لیا تاکہ مزید ایجی ٹیشن سے حسینہ واجد کی حکومت کو بچایا جا
سکے۔
مولانا مطیع الرحمٰن کی شہادت سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں بد
نظمی کے آثار بالکل نمایاں ہو گئے ہیں۔حکومتِ پاکستان نے بنگال کی حکومت کی
اس سفاکی پر بنگلہ دیش کے سفیر کو دفتر وزا ر تِ خارجہ میں طلب کر کے شدید
احتجاج کیا جس پربنگلہ دیشی حکومت نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے پاکستان کے
سفیر کو ایکجانب دفترِخارجہ طلب کر کے اں کے ساتھ مس بیہیو کیا اور
پاکستانی اسکول کی پرنسپل کو بھی گرفتار کر لیا۔جمعرات کو پاکستان میں
بنگلہ دیش کے ناظم الامور کو دفترِ خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ 1971 سے
قبل سر زد ہونے والے مبینہ جرائم پر امیر جماعتِ اسلامی کی شہادت پر احتجاج
کے ساتھ ہی پاکستان کے دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ
اسلام آباد کی ڈھاکہ کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو فروغ دینے کی خوہش کے
باوجود بنگلہ دیش پاکستان کو بد نام کرنے کی کوششیں انتہائی افسوسنا ک
ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ 1974 کا سہ فریقی معاہدہ دونوں ممالک کے تعلقات
کا سنگِ میل ہے۔جس کے مطابق بنگلہ دیش کی حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ
’’معاٖفی کے عمل کے تحت مقدمات پر مزید کار وائی نہیں کی جائے گی‘‘ جماعت
اسلامی کے رہنما ؤں کی سزائیں اُس معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
دوسری جانب پاکستان کا انتہائی مخلص دوست ترکی ہے۔ جس نے مطیع الرحمٰن کی
پھانسی پر احتجاج کرتے ہوئے بنگلہ دیش سے اپنا سفیر بھی واپس بلا لیا
ہے۔ترک صدررجب طیب اردوان کاکہنا تھا کہ ایک مسلمان کی پھانسی پر پوری
یورپی یونین کیوں خاموش ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ عیسائی مملکتوں کا ہمیشہ سے
مسلمانوں کے خلاف معاندانہ رویہ رہا ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا
یہ انسانی حقوق کا مسئلہ نہ تھا کہ یورپ کے ملکوں کی حکومتوں کو سانپ سونگھ
گیا ہے۔
مگر اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون نے اپنے عہدے کی لاج رکھتے
ہوئے واضح الفاط میں کہہ دیا کہ ہم مطیع الرحمٰن کی پھانسی کی مذمت کرتے
ہیں۔انہوں نے احتجاج کرتے ہوئے بنگلہ دیش کی حکومت کو اقوم متحدہ کی تشویش
سے آگاہ کر دیا ہے۔چاہئے تو ہماری حکومت کو بھی تھا کہ بنگلہ دیش کی ان
ظالمانہ کاروائیوں پر احتجاج کرتے ہوئے اپنے سفیر کو فوری طور پر ڈھاکہ سے
بلا لیا جاتا جس سے ہمارا نقطہِ نظر دنیا پر بالکل واضح ہوجا تا۔اس بات سے
ساری دنیا کو با خبر ہونا چاہئے کہ جس ٹریبیونل کے منصفوں نے اس قسم کے
فیصلے دیئے ہیں شائد انہیں اور ان کی سُپریم کورٹ کے ججوں کو غدار ی کا
مفہوم ہی پتہ نہیں ہے۔ان میں سے اکثریت مکتی باہنی کے غنڈوں کی ہے جن کو
دعدالتوں میں منصف بنا کر بیٹھا دیا گیا ہے۔
|
|