حسینہ کا بھیانک چہرہ
(Saeed Ullah Saeed, Sawat)
چلیں تھوڑی دیر کے لیے تسلیم کرلیتے ہیں کہ
وہ ایک غدار اور سفاک انسان تھا لیکن سوال یہ ہے کہ اس نے غداری آخر کی کس
سے ۔ بنگلہ دیش سے؟ تو بھائی گزارش یہ ہے کہ جس وطن سے غداری کے الزامات
شہید مطیع الراحمٰن نظامی پر لگا ئے گئے تھے، اس وقت تو اس وطن کا کوئی
وجود ہی نہیں تھابلکہ اس وقت وہ ایک ایسی جنگ میں دفاع وطن کا فریضہ انجام
دے رہے تھے جو غدار ملت شیخ مجیب الرحمن کی جانب سے ملک توڑنے کے لیے شروع
کی گئی تھی۔ لہٰذا آزمائش کے اس موقع پر مطیع الرحمان(شہید) دفاع وطن کا جو
فریضہ انجام دے ہا تھا وہ وقت کا تقاضہ اور ان کا دینی اور قومی فریضہ تھا۔
یہ ہماری بدقسمتی تھی کہ وہ اور ان کے دیگر رفقا ء اپنے مشن میں کامیاب نہ
ہوسکے اور پاکستان کا وہ بازو ٹوٹ کر بنگلہ دیش بن گیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ
بنگلہ دیش بننے کے بعد جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے اپنی تمام تر صلاحیتیں
بنگلہ دیش کی ترقی میں صرف کردیے کیونکہ اب وہی ان کا وطن تھااور وطن سے
غداری جیسے الفاط جماعت اسلامی جیسی جماعت کے ڈکشنری میں موجود نہیں۔ یہی
وجہ رہی کہ بنگالی عوام نے ہرموقع پر جماعت اسلامی پرمکمل اعتماد کا اظہار
کیا ۔جس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جماعت اسلامی مختلف وقتوں
میں حکومتوں کا حصہ رہی اور ان کے وزراء نے ملکی ترقی کے لیے قابل قدر
خدمات انجام دیئے لیکن کیا کیجیے شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد کا کہ اس کو
انسانی خون کا ایسا چسکا لگا ہے کہ وہ لگاتار بے گناہ مسلمانون کا خون کر
رہی ہے اور اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ حالانکہ ہمارے اس ’’مہذب معاشرے،،
اور امن کے عالمی ٹھیکداروں کا حق بنتا ہے کہ وہ درندہ صفت حسینہ کا ہاتھ
روکے ۔کیونکہ دنیا کا ہر وہ شخص جس کا ضمیر زندہ ہو ،جانتا ہے کہ بنگال کی
حسینہ نے اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے لیے جو وار ٹریبیونلز بنائے ہے ۔ان
کا کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ یہاں تک کے اقوا م متحدہ نے بھی ان جنگی
ٹریبیونلز کے قانونی حیثیت پر کئی سوالات اٹھائے ہیں لیکن آفسوس کہ اپنے
باس ’’انڈیاِِِِ،، کو خوش کرنے اورپاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے حسینہ
مسلسل جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے اہم اور سرکردہ شخصیات کے خون سے ہاتھ رنگ
رہی ہے اور اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ کسی اور سے کیا گلہ۔ جس وطن کی دفاع
کا وہ جنگ لڑرہے تھے ۔ اس وطن کے پالیسی سازوں نے اس اہم ایشو کو وہ اہمیت
ہی نہیں دیا جو کہ دینا چاہیے تھا اگرچہ مطیع الرحمان نظامی کے شہادت کے
بعد پاکستان کے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی نے متفقہ طور پر قرارداد مذمت
منظور کی ہے جو کہ یقناً ایک اچھی بات ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مذمتی
قراردادوں سے بڑھ کر پاکستان کو کردارادا کرنا ہوگا کیونکہ بنگالی حسینہ کے
یہ اقدامات غیر منصفانہ اور ظالمانہ ہے بلکہ اس وقت پاکستان ، انڈیا اور
بنگلہ دیش کے مابین ہو نے والے معاہدے کی بھی صریح خلاف ورزی ہے ۔ جس میں
جنگی و سیاسی قیدیوں کو معافی کا اعلان کیا گیا تھا۔اس سلسلے میں حکومت
پاکستان کو چاہیے کہ وہ پہلے براہ راست حسینہ کو راہ راست پر لانے کی کوشش
کرے۔ اس سلسلے میں ہمارے سرتاج عزیز صاحب کو بنگلہ دیش کا دورہ کرنا بھی
پڑجائے تو اسے اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے، دوسراآپشن ہمارے پاس یہ بھی ہے
کہ ہم سفارتی دباؤ کے ذریعے بنگلہ دیش کو ان کے ظالمانہ اقدامات سے روکے۔
اس سلسلے میں چین ، سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک سے تعاون کی اپیل کی
جاسکتی ہے، ایک اور مگر آخری راستہ ہمارے پاس یہ بھی ہے کہ ہم بنگلہ دیش کے
ساتھ سفارتی تعلق کو منقطع کردیں اوراقوام متحدہ کی توجہ بھر پور طریقے سے
اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کریں۔ میں یہ بات یقین کے ساتھ لکھ رہاہوں کہ
نوازحکومت کو مندرجہ بالا اقدامات میں سے کسی ایک پر بھی عمل کرنی کی توفیق
مل جائے تو شیخ حسینہ کو ان کے مذموم کرتوتوں سے باز رکھا جاسکتا ہے اور یہ
کام ہمیں بہر حال کرنا ہوگا ۔کیونکہ یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ نہیں
بلکہ پاکستان کا معاملہ ہے کیونکہ اس وقت جنگ بنگلہ دیش کی نہیں بلکہ
پاکستان کی بقا کی لڑی جارہی تھی۔ لہٰذا حکومت پاکستان کو چاہیے کہ اپنے
محسنوں کو اس بھیڑیئے کی شکنجے سے چھڑانے کے لیے فی الفور میدان میں اتریں۔
جہاں تک بات ہے جماعت اسلامی پاکستان کی۔ تو ان کے لیے میرے پاس یہی تجویز
ہے کہ وہ احتجاج کے ساتھ ساتھ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اس معاملے کو
زندہ رکھے۔ اس کے علاوہ امیر جماعت ، وزیر اعظم نوازشریف سے ملاقات کرکے ان
کو یہ احساس دلائے کہ آج جن کو سولی پر لٹکایا جارہا ہے وہ کبھی ہمارے محسن
اور وطن عزیز کے بہادر وفادار سپوت تھے ۔لہٰذا ہمیں فی الفور ان کے لیے
آواز اٹھانی ہوگی تا کہ ان مظلوموں کا خون مزید نہ بہایا جا سکے۔ آخر میں
صرف اتنا کہ وطن عزیز کے ہر باشندے کو چاہیے کہ وہ اﷲ پاک کے حضور دست بدعا
ہوکر اپنے ان محسنوں کی سلامتی کے لیے خصوصی دعائیں مانگے جو کل بھی
پاکستان کے لیے مررہے تھے اور آج بھی ان کا قصور بس اتنا ہے کہ وہ پاکستان
کو بچانے کی جنگ لڑرہے تھے۔ |
|