ممبئی کی شان وکٹوریہ کی الٹی گنتی شروع

ٓج سے پانچ چھ دہائیوں قبل جب ممبئی میں ٹریفک کی اتنی بھرمار نہیں تھی ، یہ گھوڑا گاڑیاں،بڑی شان و شوکت سے چلا کرتی تھیں اور ان پر سوار لوگ خود کو کسی بادشاہ یا نواب سے کم نہیں سمجھتے تھے۔
کبھی ممبئی کی شان اور شناخت سمجھی جانے والی (وکٹوریہ ) گھوڑا گاڑی اب ۲۰۱۶ء تک ہی ممبئی کی سڑکوں یا تفریح گاہو ں پر دوڑ سکے گی کیونکہ ممبئی ہائی کورٹ نے اس پر پابندی نافذ کردی ہے اور حکومت مہاراشٹر کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایک سال کے اندر اس کا روبار سے جڑے افراد کو متبادل کاروبار کی سہولیات فراہم کرے تاکہ اس کاروبارسے متعلق ان سات سو کے قریب خاندانوں کو روزی روٹی کی فراہمی ہوسکے۔

اس وکٹوریہ یا گھوڑا گاڑی کے مختلف نام ہیں جو ذرا ذرا سے فرق اور تبدیلی کے ساتھ سمجھے اور جانے جاتے ہیں کہیں اسے بگھی کا نام دیا گیا تو کہیں اسے تانگہ اور ٹم ٹم کہتے ہیں لیکن چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبات میں اسے یکّہ بھی کہا جاتا ہے یکہ کی وجہ تسمیہ غالبا ً یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اس میں فقط ایک ہی گھوڑاجتا ہوتا تھا اور اس کی سواری مسافروں کو سستے کرائے میں حاصل ہوجاتی تھی کہیں کہیں دو گھوڑوں والا تانگہ بھی چلایا جاتا تھا جس کا کرایہ کچھ زیادہ ہوتا تھا اس کی نشست گاہیں ذرا بہتر اور آرام دہ ہوتی تھیں ،اس فرق کو آج کی سادہ بسوں اور لگژری بسوں سے بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے لیکن نوابوں اور بادشاہوں کی سواریاں اپنے معیار اور ثروت و حیثیت کے اعتبار سے کافی مختلف ہوا کرتی تھیں جن میں چار چار اور آٹھ آٹھ گھوڑے جتے ہوتے تھے ان کی بناوٹ اور سجاوٹ بھی انتہائی اعلی ٰ معیار کی ہوتی کہ دیکھ کے ہی رشک آجائے ۔

لیکن وہ جو کہتے ہیں، ؍ وقت کا کیا ہے کسی پل بھی بدل سکتا ہے ۔۔؍وہ اپنے ساتھ ساتھ چیزوں کو بھی بدل دیتا ہے اب وہ سواریاں پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی برق رفتار گاڑیوں میں تبدیل ہوچکی ہیں جو نہایت آرام دہ اور موسموں کی مناسبت سے کافی سکوں بخش ہوتی ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ اس وقت کے امراء نوابین و سلاطین اپنے آرام کے ساتھ اپنی رعایا کو بھی مسرور و شادماں رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور انہیں انصاف فراہم کرنے کیلئے سارے جتن کرڈالتے ، رشوت لینے اور دینے کے عمل کو انتہائی مہلک تصور کرتے ، یہی وجہ تھی کہ ان کے دورمیں لوگ تھوڑے پر بھی مطمئن اور خوش رہا کرتے تھے ، اس کے برعکس آج کے حکمراں اور سرکاری اہل کار عوام کی بے آرامی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے بلکہ ایسا کرکے وہ خوش بھی ہوتے ہوں گے ، تبھی تو چوربازاری ، رشوت خوری ، مہنگائی اور بدعنوانیوں کاہر طرف بازارگرم ہے اور یہ ساری گرمی بازار انہی کی سرپرستی میں آگے بڑھتی ہے ۔خود کو عوام کا خادم کہنے والے معمولی میونسپل کارپوریٹر بھی اب کسی بادشاہ سے کم نہیں ہوتے ، ایم ایل اے ، ایم پی ، بیوریوکریٹ اور منسٹروں کے آرام و آسائش کا اندازہ لگانے میں اب کیلکولیٹر بھی ناکام ہوگیا ہے پھر ہماری اور آپ کی بھلا بساط ہی کیا ہے ۔

اب یہ شاہی سواریاں تو بس یادوں کے نہاں خانوں میں ہی محفوظ رہ گئی ہیں یا پھر بچے کھچے محلات اور رجواڑوں کے یہاں روایتی تقریبات کے دوران کبھی کبھی دکھائی پڑ جاتی ہیں ۔ گذشتہ دنوں ملائم سنگھ کی سالگرہ پر اعظم خان نے لندن سے ایک بگھی منگواکر انہیں بطور تحفہ نذر کی تھی جس کی قیمت اندازاً ۷۰؍لاکھ بتائی جاتی ہے ،یہ الگ بات ہے کہ اپوزیشن نے اس پر خوب واویلا مچایا تھا ۔

آج سے پانچ چھ دہائیوں پہلے جب ممبئی میں ٹرافک کی اتنی بھر مار نہیں تھی یہ گھوڑا گاڑیاں بڑی شان و شوکت سے چلاکرتی تھیں اور ان پر سوار لوگ خود کو کسی نواب یا بادشاہ سے کم نہیں سمجھتے تھے ۔عوام کو تو جانے دیں وہ جو چاہے سمجھیں ،ان گاڑیوں کے چلانے والے کوچوان بھی خود کو کسی سے کم سمجھتے تھے امراء ، رؤساء اور اہل ثروت کو لے کر چلنے والے یہ کوچوان عموماً بڑے نباض سیاست ہوا کرتے تھے تبھی تو چودھری خلیق الزماں جو پنڈت جواہر نہرو کے ہم عصراور مسلم لیگ کے سرکردہ لیڈروں میں شمار کئے جاتے تھے ، اکثر کہا کرتے کہ ’’ نہرو سے زیادہ سیاست تو میرا کوچوان جانتا ہے ۔‘‘وہ کوچوان نہرو جی سے زیادہ سیاست جانتا تھا یا نہیں اس پر تو آج تک کوئی تحقیق نہیں کی جاسکی البتہ بعد کے حالات اورتاریخی حوالوں سے یہ علم ضرور ہوا کہ پاکستان جانے کے بعد یہ چوٹی کا سیاستداںخود گمنامی کی نذر ہوکر رہ گیا تھا ۔

ادھر کچھ برسوں سے لوگ بغرض تفریح بھی اس سواری سے کترانے لگے ہیں ،اس کے برعکس جدید ٹیکنالوجی سے تیارشدہ انتہائی خوبصورت ، آرام دہ اور پرسکون موٹر گاڑیوں اور بائیکوں پر سفر کو زیادہ ترجیح دینے لگے ہیں اب تو یہ حال ہے کہ لوگ گھوڑا گاڑی پر بیٹھنے کو کسر شان بھی سمجھنے لگے ہیں ، ظاہر ہے اس صورتحال کا براہ راست اثر اس پیشے سے منسلک افراد پر پڑنا تھا سو پڑا اور ان کی روزی روٹی کا شدید مسئلہ پیدا ہوگیا تو فوری طور پر اس کا نعم البدل متاثرین نے یہ تلاش کیا کہ ان لوگوں نے اپنی گاڑیاں ساحل سمندر اور دیگر تفریحی مقامات پر چلانی شروع کردیںجس سے بڑی حد تک ان کے آنسو خشک ہوئے ، لیکن بھلا ہو’’ اینمل برڈ چیری ٹیبل ٹرسٹ ‘‘ نامی غیر سرکاری تنظیم کا ، اس نے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی اور اس کاروبارسے منسلک لوگوں کی لاپروائی ، گھوڑوں اور اصطبل کو گندا رکھنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس غلاظت سے بیماریاں پھیل سکتی ہیں جو عوامی سطح پر نقصان کا باعث ہوسکتا ہے ۔اس تنظیم نے ڈونگری اور پلے ہاؤس پر موجود کچھ اصطبلوں کی تصاویر بھی پیش کیں جہاں بہ مشکل چند گھوڑا گاڑیاں کھڑی ہوتی تھیں ۔سماعت کے دوران عدالت نے وکٹوریہ مالکان کے وکیل کے بھی دلائل سنے پھر بھی یہ فیصلہ کیا کہ اب ان گاڑیوں کی شہر میں ضرورت نہیں لیکن وکٹوریہ مالکان کو ایک سال کا وقت دیا ساتھ ہی حکومت کو یہ ہدایت بھی دی کہ وہ سال بھر میں اس کاروبار سے متعلق سبھی افراد کو متبادل کاروبار اور حسب ضرورت سہولیات فراہم کرے ۔

اس ضمن میں سماجی خدمت گار سید ظفر اور اسلم قریشی سے جب بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ یہ گاڑی ( وکٹوریہ) ممبئی کی شان تھی اور ابھی بھی غیر ملکی سیاح اس وکٹوریہ میں بڑے شوق سے سفر کرنا پسند کرتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں ، اسے بند کرنا انتہائی افسوسناک ہے ، اس سے تقریبا ً سات سو خاندان متاثر ہوئے ہیں جن کی روٹی روزی کا بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ انہیں جلد از جلد متبادل روزگار مہیا کیا جائے ساتھ ہی انہیں مالی تعاون بھی دیا جائے ،اور یہ مشورہ بھی دیا کہ ان کے حق میں زیادہ بہتر ہوگا کہ انہیں ٹیکسیوں اور آٹو رکشاؤں کے پرمٹ جاری کئے جائیںتاکہ وہ آسانی کے ساتھ اپنا روزگار شروع کرسکیں اور وقت کے دھارے میں شامل ہوکر دوسرو ں کے شانہ بشانہ ہم قدم ہوسکیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاستی حکومت اس ضمن میں کتنی بالغ نظری کا ثبوت دیتی ہے ۔
vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 106185 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.