کشادہ فٹپاتھ کو ترستی نگاہیں۰۰۰

کچھ علاقوں میں بھیڑ بھاڑ اور ٹرافک کے سبب پیدل چلنا بھی اب مشکل ہوگیا ہے ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں اس کے لئے بھی ٹریننگ سینٹر کھولنے پڑیں گے جہاں بھیڑ بھاڑ اور ٹریفک کے ہجوم میں جان بچاتے ہوئے نکل جانے کی ٹریننگ دی جائے گی۔

فٹ پاتھ پر غریب تو سوتا ہے چین سے
لیکن حویلیوں میں تونگر اداس ہے
کسی مشاعرے میں راہی بستوی نے یہ شعرپڑھا تھا ،اور اب اسی موضوع کی مناسبت سے کچھ اور اشعار ذہن میں منعکس ہورہے ہیں مثلاً
فٹپاتھ ہر سڑک کی ہے آ شیاں ہمارا
رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمار ا
یا پھر ’’ جب رات آتی ہے تو ہم اخبار بچھا کے فٹپاتھ پر سو جاتے ہیں‘‘، یا پھر سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کا غریبی ہٹاؤ کا وہ مشہور نعرہ جسے اپوزیشن جماعتوں نے غریبی نہیں غریب ہٹاؤ میں تبدیل کردیا تھا ،وغیرہ ۔ہوسکتا ہے اس طرح کے جملے یا اشعار آپ کے بھی ذہنوں میں محفوظ ہوں ۔خیر جب ہم ان اشعار اور جملوں کے معانی و مفاہیم پر غور کرتے ہیںتو یہ بات ذہن میں ابھرتی ہے کہ اب تو وہ فٹپاتھ ہی ختم ہوتے جارہے ہیںجو کم از کم غریبوں کی پناہ گاہ بن جاتے تھے ۔آج زیادہ تر شہروں میں یہی صورتحال درپیش ہے ۔ سردست ہم اس ضمن میں ممبئی شہر کی بات کریں گے، جہاں دو تین دہائیوں قبل فٹپاتھ بڑے کشادہ اور صاف ستھرے ہوا کرتے تھے اور شام ڈھلے ہی بے گھر غریبوں ، مفلوک الحالوں اور پردیسیوں کی ایک دنیا آباد ہو جاتی تھی ، کچھ لوگ تو بستروں پر، ( بستروں کے ذکر سے آپ ان آرام دہ اور نرم گدوں کے تصور میں نہ کھو جائیں ، وہ بستر اخبار کے ہوتے تھے ) آرام کرتے اور کچھ لوگ اینٹ پتھر جوڑکے چولہے بنالیتے اور کچھ کچی پکی روٹیاں سینک کر پاپی پیٹ میں ایندھن بھرنے کاانتظام کرتے دکھائی دیتے لیکن اب نہ وہ ماحول باقی رہا نہ ہی وہ فٹپاتھ رہ گئے ۔ آبادیوں میں بے پناہ اضافے اور ٹرافک کی بہتات کے سبب شہر کی سڑکوں کا حلیہ ہی تبدیل ہوکر رہ گیا ہے ، اکثر سڑکوں پر جام لگا رہتا ہے سب سے بڑی مصیبت تو ان پیدل چلنے والوں کیلئے کھڑی ہوگئی ہے وہ بے چارے اس کیفیت کا شکار نظر آتے ہیں کہ جائیں تو جائیں کہاں ، سڑکوں پر ٹرافک ، فوروھیلر اور ٹو وھیلر کی ریس اور ڈرائیوروں کی بدمستی الگ بس ہر وقت جان کا خطرہ بنا رہتا ہے یہ سوچ کر وہ بچتا بچاتا جب فٹپاتھ پر پہنچتا ہے کہ کم از کم یہاں تو جان کی کچھ ضمانت مل سکتی ہے لیکن وہاں تو چلنے کی جگہ ہی نہیں ، بیشتر فٹپاتھ ٹوٹے ہوئے بے مرمت اور اوبڑ کھابڑہیں ، ٹرافک کا خطرہ نہیں تو کیا ہوا بڑے بڑے گڑھے تو موجود ہیں جان لینے کیلئے ، ذرا بھی اوسان خطا ہوئے کہ وہیں چاروں خانے چت، اٹھے بھی تو بس اسپتال ہی ٹھکانہ ۔

خوش بختی سے اگر کہیں فٹپاتھ کشادہ اور ہمواررہ گیا تو اس پر دوکانداروں اور باکڑے والوں کا قبضہ اور اب تو ایک اور صورت نکل آئی ہے کہ دوکاندار اپنی دکانوں کے سامنے باکڑے لگوالیتے ہیں اور اس کے عوض منھ مانگی رقمیں وصول کرتے ہیں ، یعنی آم کے آم اور گٹھلیوں کے بھی دام ، جگہ بی ایم سی کی ،کرایہ دوکاندار کی جیب میں اور پریشانی راہگیروں کے حصے میں ۔کہیں کہیں تو ان فٹپاتھوں پر چرسیوں ، نشیڑیوں اور اٹھائی گیروں کے بھی دربار لگے رہتے ہیں اور کچھ ان فٹپاتھوں پر بنے بی ایس ٹی اسٹالوں کے پیچھے ڈیرا جمائے رہتے ہیں ان میں کچھ عادی مجرم اور جرائم پیشہ بھی ہوتے ہیں جو انہی گوشوں میں چھوٹی موٹی وارداتیں بھی کرلیتے ہیںاورپیٹ کی آگ بجھالیتے ہیں ۔ کچھ ایسے بھی راستے ہیں جہاں برسات کا پانی مستقل جمع رہتا ہے اور برساتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن بی ایم سی یا انتظامیہ کی آنکھیںبند رہتی ہیںوہ نہیں دیکھتے کہ اس روڈ سے گزرنے والوں پر کیا گذرتی ہے ہاں کبھی کبھی کچھ لیڈران کے قدموں کی جگمگاہٹ سے وہ راستے ضرور روشن ہوجاتے ہیں خاص طور سے اس وقت جب الیکشن قریب آتا ہے ۔

ہاں تو ہم کہہ رہے تھے کہ جب روڈ پر پانی بھر جاتا ہے تو کچھ لوگ شارٹ کٹ راستے کی تلاش میں کسی گلی میں داخل ہو جاتے ہیں کہ آگے چل کر صاف روڈ مل جائے گا انہیں کیا معلوم کہ وہاں شکاری ملک الموت بن کر پہلے ہی سے جال ڈالے بیٹھے ہیں ، اندھیری اور سنسان گلیوں میں بلیٹ باز پاکٹ مار بیٹھے ہیں جنہیں لگان اور ٹیکس دیئے بغیر آپ آگے نہیں جاسکتے۔

عجیب بات یہ بھی کہ ایسے کرشماتی علاقے زیادہ تر مسلم بستیوں میں ہی پائے جاتے ہیں جیسے بھنڈی بازار پائیدھونی ، محمد علی روڈ ، مدنپورہ ، ماہم اور باندرہ ایسٹ وغیرہ جہاں دونوںطرف کے فٹپاتھ مکمل طور پر بھرے ہوتے ہیں بلکہ کہیں کہیں سڑک کا بھی اچھا خاصا حصہ فٹپاتھ میں شامل کرلیا گیا ہے بس یہ پتہ چلتا ہے کہ کبھی یہاں سڑک ہوا کرتی تھی سو اب نہیں ہے ، کچھ علاقوں سے بسوں کے روٹ بھی بدل جاتے ہیںاور کہیں کہیں تو بسیں مسترد بھی ہو جاتی ہیں کبھی عارضی تو کبھی مستقل جس میں مولانا آزاد روڈ سر فہرست ہے اور اس میںبھی خاص طو ر پر مدنپورہ روڈ جہاں ایک عرصہ ہوا بسیں چلنا بند ہو گئی ہیں ۔

کچھ علاقوں میں بھیڑ بھاڑ اور ٹرافک کے سبب پیدل چلنا بھی اب مشکل ہوگیا ہے ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں اس کے لئے بھی ٹریننگ سینٹر کھولنے پڑیں گے جہاں بھیڑ بھاڑ اور ٹریفک کے ہجوم میں جان بچاتے ہوئے نکل جانے کی ٹریننگ دی جائے گی ۔ مشہور شاعر جان نثار اختر نے یہ اشعار حالانکہ کسی اور موقع اور موضوع کی تفہیم کیلئے کہے تھے مگر اب یہ اشعار سڑک پر چلنے والوں کی موجودہ صورتحال اور کیفیت کی بڑی اچھی ترجمانی کررہے ہیں جن کی معنویت آپ کو متاثر بھی کرے گی اور فکر مند بھی کہ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ، لیجئے وہ اشعار آپ بھی سن لیں ۔
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے ایسی ہواکوئی نہ سر اٹھاکے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر جھکاکے چلے جسم و جاں بچاکے چلے

پورے شہر کا کچھ استثناء کے ساتھ غالبا ً یہی حال ہے کہ اس کے فٹپاتھوں پر قبضے جمالئے گئے ہیں اور نہ جانے کہا ںکہاں سے لوگ آکر آکر وہاں بس گئے ہیں ۔بارہا ایسا ہوا کہ حکومت نے انہیں رحم کھاکے متبادل مکان الاٹ کئے تاکہ وہ آرام سے بس جائیں اور فٹپاتھ صاف ستھرا ہو جائے مگر وہ کچھ ہی دنوں میں ان جگہوں کا اچھاخاصا سودا کرکے پھر انہی جگہوں پر قابض ہو جاتے ہیں اور پھر سارا معاملہ جوں کا تو ں پہلے جیسا ہی ہو جاتا ہے ، یعنی جہاں سے چلے تھے وہیں پھر آگئے ۔حکومت کو نہ تو پہلے فکر ہوتی ہے نہ بعد میں ، شہری مسائل کیا اسے تو کسی بھی مسئلے سے دلچسپی نہیںاس کی محبت تو عوام کے تئیں بس پانچ سال میں ایک مرتبہ سر اٹھاتی ہے اور بغیر کئے ہوئے کاموں کی فہرست گنواتی ہے اور لمبے چوڑے وعدے کرکے ووٹروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ان کے دوٹ چھین لیتی ہے اور جیسے ہی حکومت سازی ہوتی ہے ، نہ حکومت نظر آتی ہے نہ ہی وہ فرشتہ صورت لیڈران ۔

پتہ نہیں ایسا کب تک چلے گا اور عوام کے ساتھ یہ مذاق جاری رہے گا خدا جانے ، لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ حرکت میں برکت ہوتی ہے ، عوام جس دن اپنی طاقت کا اندازہ لگالیںگے اور اپنی قوت پہچان لیں گے تو یہ سارے معاملات درست ہو جائیں گے اور برسراقتدار پارٹی اور اپوزیشن جو صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف رہتے ہیں وہ عوامی فائدے کے کاموں میں جٹ جائیں گے ، مگر یہ تبھی ممکن ہے جب عوام اپنی آنکھیں کھول لے اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرلے ، ورنہ موجودہ صورتحال تو بس یہی کہہ رہی ہے
سب قیامت کے ہیں آثار چناجور گرم

vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 95260 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.