مطیع الرحمٰن نظامی کی شہادت-دوسرا پہلوجماعتَ اسلامی کی خدمت میں

مطیع الرحمٰن نظامی کی شہادت کا وہ پہلو جو بظاہر غیر معروف ہے

راقم کوئی بڑا لکھاری نہیں ہے اور نہ ہی کوئی نامی گرامی ہستی۔ ایک ہمہ وقت کارگاہَ ہستی میں اپنا کردار ادا کرنے والا عامی سا شخص۔ہاں مگر چند معاملات پر خدائی حکمت سے ایسی سوچ ضرور پائی ہے کہ سننے اور پڑہنے والوں کے مطابق کُچھ خاص ہی ہوتی ہے۔

یوں تو مطیع نظامی کی شہادت کا معاملہ کوئی ایسا معاملہ نہیں کہ جسکا تجزیہ کرنے کیلئے بات تحتہَ دار ہی سے شروع کی جائے۔بلکہ اس وقوعے کا تجزیہ کرنے کیلئے ہمیں تاریخِ انسانی کی ابتداہ ہی سے بات شروع کرنی ہوتی،مگر وقت کی تنگیِ داماں کی گھنٹی اختصار کا پیغام سُنا رہی ہے۔

چلیئے بات ذرا قریب سے شروع کرتے ہیں۔کہتے ہیں کہ پاکستان بننے سے پہلے پٹھانکوٹ میں ایک مودودی ہوا کرتے تھے۔اللہ کی اُن پر بڑی عنایات تھیں۔ میں نے مودودی کو نہ تو کبھی براہَ راست دیکھا اور نہ ہی سُنا۔ہاں مگر اُنکی کتابیں چند ایک پڑہیں۔لگتا ہے کہ بڑے آدمی تھے۔قیامَ پاکستان کے وق مودودی نے پاکستان کے حوالے سے فرمایا تھا۔ناقدین، کہ جو اپنی روایتی کم ضرفی سے کام لیتے ہوئے مودودی کے اُس موئقف کو پاکستان کی مخالفت قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے مودودی کے کہے وہ جملے آج حقیقت بن کر ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔قیام کے بعد مودودی نامی بندہِ خدا نے پاکستان کو مسکن بنایا تو ہمیشہ پاکستان کو اللہ کا پسندیدہ علاقہ اور پاکستانیوں کو اللہ کے پسندیدہ بندے بنان میں مصروفِ عمل رہے۔یکے بعد دیگرے میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد کے بعد، بات سید منور حسن سے ہوتی ہوئی سراج الحق تک آن پہنچی۔مانا کہ وقت بدلتا ہے تو تقاضے اور چیلنجز بھی بدلتے ہیں لیکن بندہَ خدا،ایسی بھی کیا قیامت کے آپ ضعیفی کی حدوں کو چھونے لگے؟
پیرِ مشرق نے بجا فرمایا تھا کہ:
یا وسعتَ افلاک میں تکبیرَ مسلسل
یا خاک کی آغوش میں سبیح و مناجات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمَ ضعیفی کی سزا،مرگَ مفاجات

ارے پیارو!
یہ کب سے آپ نے مشیت کا قاعدہ سمجھ لیا کہ بس روتے رہنا اور غم منانا اور غائبانہ جنازے پڑہنا ہی قربَ الٰہی کی سند ہوا کرتے ہیں؟ جنابَ امیر حمزہ جب دائرہِ اسلام میں داخل ہوئے تو قریش کے ٹٹ پونجیئے لرز اُٹھے تھے۔اگر ایک جانب شعبَ ابی طالب کی دشواریوں پر استقلال ہمارا راہنمائ ہے تو دوسری طرف فتحَ مکہ کا جاہ و جلال بھی تو ہماری ہی تاریخ کا حصہ ہے۔اگر ایک جانب طائف کی گلیوں میں خون اآلود صبر ہمارا پیغام ہے تو دوسری جانب فتحِ خیبر کا غرور بھی ہمارا ہی اثاثہ ہے۔ِ
شجاعت و فکر کا توازن
ہے سیرتَ مصطفٰے کا جوہر

جماعتیو! ایسی سیاست پہ تف ہے کہ تم اپنے دیرینہ ساتھیوں کو سولیوں پر لٹکنے کیلئے تنہا چھوڑ دو اور خود محض بیانات س دل بشوری کر لو۔ میرا سوال یہ نہیں کہ حکومت نے کیا کیا؟ یہ بھی نہیں کہ حسینہ چڑیل نے کیا کیا؟سوال یہ بھی نہیں کہ کس کس نے عیادت کی اور کس نے نہیں؟

میرا سوال دراصل وہی ہے کہ جسکی جانب میں نے نشاندہی کی کہ وہی دوسرا پہلو ہے۔ سوال یہ ہے کی جماعتَ اسلامی سیاسی میدان اور کارہائے ریاست میں اس قدر کمزور کیوں ہے کہ رونے کے سوا کُچھ کر نہ پائی۔قوتَ نافظہ حکومت سے حاصل ہوتی ہے اور حکومت سیاست سے۔سیاست میں فتح معروف پالیسیوں سے حاصل ہوتی ہے اور معروف پالیسیاں تب بنتی ہیں کہ جب معروف لوگ فیصلے کریں۔ معروف لوگ فیصلے تب کر پائیں گے کہ جب مدتوں سے بیتھی کائی نما قیادت اہل لوگوں کو جماعت کا ہر اول دستہ بننے دےگی۔

آغاز تو ہوا چاہتا ہے کہ سراج الحق اسی رواج کی کڑی ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ ہم بہت جلد اس پوزیشن پہ ہونگے کہ کسی نظامی کیلئے ہیش ٹیگ اور غائبانہ جناز اور سیمینار سے بڑھ کر بھی کُچھ کر پائیں گے۔
ہے حق بیانی شعار میرا
نہ دانت تُم اپنے کچکچائو

Muhammad Bilal Azfar Abbasi
About the Author: Muhammad Bilal Azfar Abbasi Read More Articles by Muhammad Bilal Azfar Abbasi: 2 Articles with 1322 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.