موسم کا درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ ہی سیاسی درجہ حرارت
بھی بڑھنا شروع ہوگیا ہے ایسے میں شعلہ بیانیاں اور موشگافیاں عروج پر ہیں
کہیں پی پی قائدین گرج رہے ہیں تو کہیں تحریک انصا ف کے قائدین سراپا
احتجاج ہیں اورکہیں جماعت اسلامی اپنے اجتماع اور دھرنے کی روایات کو زندہ
کر چکی ہے ،دوسری طرف الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا نے اپنی اپنی
وابستگیوں کے مطابق ثبوتوں کا بازار لگا رکھا ہے جبکہ اس نازک موقع پر
سیاسی ایوان یقینا لرز رہے ہیں اورـ’’ امراجاتی‘‘ خوف میں گھرا ہوا ہے ایسے
میں اک طرف تو برسر اقتدار جماعت کے وزر ا‘ مشیران اورہم خیال جواباً
بیانات کے گولے داغنے میں مصروف ہیں تودوسری طرف اسی بحران سے نکلنے کی
کوشش میں وزیر اعظم تین مرتبہ قوم سے خطاب کر چکے ہیں مزید برآں اسی
جھنجلاہٹ میں ایک ہی منصوبے کا چوتھی بار افتتاح بھی کر چکے ہیں اورمسلم
لیگ (ن) کی طرف سے ہنگامی سیاسی تحریک کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے اسی سلسلے
میں میاں صاحب نے گورنر ہاؤس میں پریس کانفرنس بلائی تاکہ اپنی پوزیشن کو
واضح کر سکیں جس کی شہ سرخی روزنامہ ایکسپریس نے کچھ یوں لگائی کہ نواز
شریف کی نواز دوست میڈیا سے ملاقات : وزیراعظم پاکستان نے گورنر ہاؤس میں
اپنے من پسند صحافیوں کو مدعو کیا اور اپنی پوزیشن کو واضح کیا اطلاعات کے
مطابق کل 25 صحافیوں کو اس پریس کانفرنس میں مدعو کیا گیا جن میں اکثریت
جنگ ،جیو اور پی ٹی وی سے منسلک صحافیوں کی تھی یہ فیصلہ نا پسندیدہ اور
تعمیری سوالوں سے بچنے کے لیے کیا گیا تھا بلا شبہ اس میں موجود اکثر صحافی
میاں صاحب سے دوستی اور وفاداری کا ایک ماضی رکھتے ہیں جو کہ کسی سے بھی
پوشیدہ نہیں ہے مگر اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ میاں صاحب اپنے قصیدہ
گو مشیروں کے غیر سیاسی ادراک اور خوشامدی مشوروں کا شکار ہو کر ہمیشہ سے
زیر عتاب آتے رہے ہیں ایسے میں اس وقت جبکہ اقتدار کی ناؤ بظاہر ہچکولے کھا
رہی ہے حکومت کی طرف سے ایسے سطحی سے فیصلے ہونا کسی صورت بھی دانشمندانہ
عمل نہیں ہے ویسے بھی پاکستان کے عام اور خاص طبقات میں سے صرف مراعات
یافتہ افرادتک محدود رہنا آشکار کرتا ہے کہ ناکام بادشاہوں کا وطیرہ رہا ہے
کہ وہ اپنے دربار میں صرف خوشامدیوں کو ہی بٹھاتے تھے جو ان کی ہر جائز و
ناجائز کارکردگی پر واہ واہ کرتے تھے کیونکہ ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ تمام
دوسرے میڈیا گروپس اور صحافی جمہوریت کے مخالف ہوں اس لیے اس خبر کو پڑھتے
ہی سعید اقبال سعدی کا ایک شعر یاد آگیا کہ ۔۔ جو آگے کا سفر بھولا ہو ا ہے
۔۔میں ایسے راہبر کی قید میں ہوں !
اس نام نہاد اکٹھ کے فوراً بعد سے آج تک ان تمام خیر خواہان نے میاں صاحب
کا مقدمہ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئیـ’’ اقتدار بچاؤ ‘‘مہم کا آغاز کر دیا ہے
ویسے توجمہوریت کے تسلسل کا نام دیکر وہ سب پہلے ہی سے اپنی خدمات سرانجام
دیتے ہوئے تما م حکومتی افعال اور منصوبوں کا دفاع بھی دل جمعی سے کر رہے
تھے جبکہ ملکی حالات کی سنگینی کسی سے بھی چھپی ہوئی نہ ہے ویسے بھی کسی
دانا کا قول ہے کہ ’’مخلص لوگ اپنے کاموں کی تشہیر نہیں کرتے ‘‘ جبکہ میں
نے لکھا تھا کہ پاکستان کو جس دیمک نے چاٹ لیا ہے اس کا نام ہے ’’منصوبے
تشہیری ۔۔وعدے تعمیری‘‘ اس کا اعتراف چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف آف
پاکستان نے بارہا اپنے بیانات میں کیا مگر مسلم لیگ (ن) گویا ہٹ دھرمی کے
سب ریکارڈ توڑنے کا فیصلہ کر چکی ہے اور اس پر طرہ یہ کہ ڈٹے رہنے اور اپنی
وضع کو بدلنے کیلئے کبھی جھکاؤ اختیار نہ کرنے کا اعلان کر رہی ہے تو اس
طرح یقینا مقابلہ تو بڑھ جائے گاجو کہ حالیہ منظر نامے سے عیاں ہے بلاول
بھٹو نے میاں صاحب کے لیے جیسے سخت گیر الفاظ استعمال کئے ہیں اور شیخ رشید
نے تھپکی دیتے ہوئے اس کو دلیری اور حقیقت پسندی سے تعبیر کیا ہے کچھ ایسا
ہی رد عمل دوسروں کی طرف سے بھی دکھائی دے رہا ہے ۔
آج میاں صاحب کو جس قدرمخالفت کا سامنا ہے اور وہ سینہ سپر ہیں اس کی بھی
مثال نہیں ملتی جبکہ تاریخ بتاتی ہے کہ جب حکمرانوں کو اس درجہ انتہائی
تضحیک کا سامنا ہوا تو انھوں نے اپنی ساکھ اور وقار کو بچایا مگر یہاں ضبط
اور ثابت قدمی کی داد تو بنتی ہے اس پر طرہ یہ کہ کہا جا رہا ہے کہ پانامہ
میں میاں صاحب کے بچوں کا نام ہے ہم نے تو پہلے لکھ دیا تھا کہ میاں صاحب
لندن سے وقت خرید لائے ہیں اورسب دیکھتے رہ جائیں گے کہ وقت کیسے بدلا اور
بازی کیسے پلٹی جہاں تک عوام کا سوال ہے تو ایک تہائی اکثریت سے کامیاب
ہونے والی جمہوری حکومت نے ان کا حال اس عاشق جیسے کر دیا ہے جسے ہجر یوں
راس آجائے کہ وہ کہتا پھرے کہ دکھائی کچھ نہیں دیتا ۔۔۔۔سنائی کچھ نہیں
دیتا
یہاں مجھے ایک کہانی یاد آگئی میرے ملک کے حالات ہی ایسے ہیں کہ ماضی کے
سبق آموز واقعات سے مل جاتے ہیں جو کہ نصیحت دینے کے لیے دانشوروں نے لکھے
کہتے ہیں کہ ایک جنگل میں سر سبز پہاڑ وں کا ایک سلسلہ تھا جس پر کبوتروں
کے خاندان آباد تھے جو کہ نیچے موجود وادی سے دانہ دنکا چن لیتے اور واپس
یہیں آکر سکون سے رہتے تھے بے فکری کی وجہ سے وہ خوبصورتی میں بھی بے مثل
تھے ایک دن وہاں سے ایک عقاب کا گزر ہوا اس نے جونہی اتنے موٹے تازے کبوتر
دیکھے تو منہ میں پانی بھر آیا اور ان کے گرد منڈلانے لگا اس ارادے سے کہ
جھپٹا مارے اورلے اڑے مگر کبوتر بھی بہت پھرتیلے اور تیز اڑان والے تھے جب
عقاب کسی کو پکڑنے کی کوشش کرتا کبوتر تیزی سے بچ نکلتاعقاب نے بہت کوشش کی
مگر کامیاب نہ ہوسکا اس نے سوچا اب کیا کیا جائے کہ کبوتر بہت پھرتیلے اور
چالاک ہیں اسے ایک ترکیب سوجھی اور وہ کبوتروں کے پاس گیا اور کہا کہ اے
میرے بھائیو اور بہنو ں! تم مجھ سے ڈر کیوں رہے ہو جبکہ میں تمہاری طرح دو
پیروں اور پروں والا پرندہ ہوں ہم سب آسمان پر اڑتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ
میں بڑا ہوں جبکہ تم قدرے چھوٹے ہو میں خود شکار کرتا ہوں جبکہ تم شکار کی
زد میں رہتے ہو تم اپنی حفاظت نہیں کر سکتے ہو یہاں تک کہ اگر میرا خاندان
اکٹھا ہو کر آجائے تو وہ تمہیں آسانی سے شکار کر سکتا ہے مگر مجھے تم سب سے
ایک انسیت ہوگئی ہے میں چاہتا ہوں کہ تمہاری حفاظت کروں تاکہ تم یونہی ہنسی
خوشی باقی زندگی بھی گزار سکو ،میں انصاف اور بھائی چارے کا حامی ہوں اور
جو ظلم تم سب پر صدیوں سے ہو رہا ہے میں اس کے خلاف ہوں میں تمہیں ایک
خوشحال زندگی دینا چاہتا ہوں میرا دل چاہتا ہے کہ تم یہ جو ڈرے سہمے رہتے
ہو آزادانہ گھوم پھر سکو آزاد فضاؤں میں سانس لے سکو مگر یہ تبھی ممکن ہے
کہ تم سب مجھے دل سے اپنا مان کر اپنا بادشاہ بنا لو اور سب اختیار مجھے دے
دو تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ پھر تم کس قدر سکون اور سہولت سے زندگی گزاروگے
مگر کبوتروں نے اظہار رضامندی نہ کیا اسی طرح وہ مسلسل ان کے پاس آتا رہا
اور ایسی ہی باتوں سے انھیں مائل کرتا رہا یہاں تک کہ ایک دن کبوتر اس کی
چکنی چپڑی اور سیاسی باتوں میں آگئے اور آپس میں فیصلہ کرنے کے بعد اسے
بادشاہ بنانے کا فیصلہ کر لیا عقاب نے حلفاً کہا کہ وہ ان کی حفاظت دل و
جان سے کرے گا اور بنیادی ضروریات کا خیال بھی رکھے گا لہذا اب تمام کبوتر
اس کے وفادار رہیں گے اور اس کی ہر بات مانیں گے کبوتروں نے بھی حلف اٹھا
لیا اور یوں عقاب نے کبوتروں کی حفاظت شروع کر دی کچھ دن تو اس نے اپنی ذمہ
داری بہت عمدگی سے نبھائی یہاں تک کہ ایک جنگلی بلے کو جب ان کے آس پاس
گھومتے دیکھا تو اپنے ساتھیوں سمیت حملہ کیا کر کے مار بھگایا اب کبوتر بھی
عقاب سے اب کبوتربھی اپنے فیصلے پر بے پناہ خوش تھے مگر ایک دن عقاب نے
دربار لگایا اور کہا کہ میرے بھائیواور بہنو ! تم جانتے ہو میں نے تمہاری
حفاظت میں کبھی اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کی اور مسلسل تمہارے لیے آزادی
اور سکون کا ماحول فراہم کیا ہے مگر میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں اور میں
کھائے پیئے بغیر اپنے فرائض سرانجام نہیں دے سکتا اور یہ ویسے بھی میرا
شاہی اختیار بھی ہے کہ تم سب میری ضرورتوں کا خیال رکھو اور تم سب پر میرا
پورا حق ہے بلکہ میرے پورے خاندان کا حق ہے کیونکہ اگر وہ میرے ساتھ مل کر
حملہ نہ کرتے تو بلّا تمہیں کھاجاتا ،عقاب نے یہ کہا اور ایک کبوتر کو
دبوچا اور کھا گیا اور سب چپ چاپ دیکھتے رہ گئے اب ہر روز ایسا ہوتا کہ
عقاب اور اس کے خاندان والے آتے کبوتر پکڑتے اور لے جاتے ان کا چین سکون سب
ختم ہو گیا ان کی زندگی موت سے بد تر ہوگئی مگر وہ اپنے بیوقوفانہ فیصلے کے
آگے مجبور تھے اور عقاب اور اس کے خاندان والے جب آتے وہ آنکھیں بند کر
لیتے اور دل میں کہتے کہ یہی ہماری سزا ہے ۔جی! غلط فیصلوں کا انجام بلاشبہ
برا ہوتا ہے مگر ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے! یہ غم کے بادل بھی
چھٹ جائیں گے اور طوطاچشمی کی سزا بھی ملے گی کیونکہ موجودہ منظر نامہ کہہ
رہا ہے کہ بساط بچھ چکی ہے اور کاریگروں نے پتے پھینک دئیے ہیں اور اب
ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ مگر عوام کو کسی کو کچھ ملے گا اس کی
کوئی ضمانت نہیں ہے کیونکہ یہ طے ہے کہ موجودہ نظام مکمل طور پر کرپٹ نظام
ہے ساری جماعتوں میں کالی بھیڑیں موجود ہیں خان صاحب نے کامیاب جلسہ کیا
مگر ہمیشہ کی طرح وہ اس بار بھی لگتا ہے کہ دھڑے بندیوں کا شکار ہو جائیں
گے کیونکہ ان کے اپنے بعض عہدے داران کے مخالف بیانات دیتے سنائی دے رہے
ہیں اس لیے وقت اور موقع سب کو نہیں ملتا جنھیں ملتا ہے انھیں اکثر اس کا
استعمال نہیں آتا اور خان صاحب کے ساتھ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے اس لیے
آنے والے دنوں میں کچھ بھی متوقع ہے -
دکھ تو یہ ہے کہ پانامہ لیکس ہو یا کرپشن کے مقدمات ہوں ،کمیشن بنے یا نہ
بنے ،انہی ثبوتوں پر دوسرے ممالک کے وزرائے اعظم اخلاقی طور پر مستعفی ہو
گئے تھے اور ہم اکڑ گئے ہیں کہ آخری سانس تک اقتدار بچاؤ کے لیے لڑیں
گے۔۔ضرور لڑیں اور حکومت بھی کریں مگر کوئی وعدہ کوئی نعرہ عام آدمی کی
فلاح کے لیے پورا توکریں ،اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ سڑکیں ،پل اور
بسیں غریب کی زندگی میں حقیقی خوشی نہیں لا سکتیں ۔ملک کے قرضوں کو اتاریں
۔مزید لینے بند کریں ۔استحصال کردہ کا حساب کریں آپ یہ اعلان کریں کہ تمام
پیسہ پاکستان لا کر اس سے عام آدمی کی ضروریات کو پورا کیا جائے گا ،جا بجا
ہسپتال بنائے جائیں گے، جو تمام سہولیات سے آراستہ ہونگے اور پسماندہ
علاقوں میں سکول اور علاج کی فراہمی کو آسان بنایا جائے گا ،قانون اور
انصاف کے نظام کو ٹرانسپرنٹ کریں ،ہر سطح پر کرپشن اور نا انصافی کو ختم
کریں ،انتقامی کاروائیاں بند کریں ،بااخلاق اور با صلاحیت لوگوں کو وزارتیں
دیں ، اختیارات کی لوٹ کھسوٹ ختم کریں، اگر ایسا ہو جائے تو اب کہ مؤرخ آپ
کا نام ان حکمرانوں میں لکھے گا ،جو ان اینٹوں کی مانند تھے جو زمین میں
دھنس گئیں تاکہ وطن کی عمارت کو استقامت اور عوام کو سکون و اطمینان حاصل
ہو ،ذرا سوچئیے! کہ دھرتی ماں کا ذرہ ذرہ کہہ رہا ہے کہ
بوئے گل لے اڑی راز چمن‘ بیرون چمن
کیا قیامت ہے ‘کہ خود پھول ہیں غماز چمن |