آج اِس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ اِن دونوں مُلک ِ
پاکستان کو پانامالیکس کے جِن نے اپنے پنچے میں جکڑرکھاہے، ساری پاکستانی
قوم پانامالیکس کے جِن کے انجام کی جانب دیکھ رہی ہے، اَب جیسے جیسے وقت
آگے کی جانب سرکتاجارہاہے پانامالیکس کا تنازعہ روزبروزکسی نئے موڑپر پہنچ
رہاہے اور ہر لمحہ ایک نئے انداز سے کہیں کا کہیں نکلتاجارہاہے،گزشتہ دِنوں
اِس میں اُس وقت اور زیادہ شدت آگئی جب سُپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے
جوڈیشنل کمیشن بنانے کے لئے لکھے گئے خط کو قانونی تحفظات کے ساتھ مسترد
کردیاتھااَب اِس کے بعد سے پانامالیکس پر حکومتی گرفت ضرور ڈھیلی ہوتی
محسوس ہورہی ہے اور ایسالگتاہے کہ اَب جیسے حکومت کو اپنی اکڑختم کرنی پڑے
گی اور اپوزیشن کے ساتھ مل کر پانامالیکس کے معاملے کو افہام وتفہیم سے حل
کرنے میں دوقدم آگے بڑھ کراپنا کوئی مثبت کردار ضروراداکرناپڑے گا۔
اگر اِس تناظر میں دیکھاجائے تو ابھی تک ہمارے وزیراعظم حزبِ مخالف کے
پانامالیکس پر اُٹھائے جانے والے اعتراضات اوراپوزیشن کے ٹی اوآرز/ٹرمزآف
ریفرنسز سمیت وزیراعظم کے پارلیمنٹ آنے پر اپوزیشن کے پوچھے جانے والے
سوالات پر یہ کہتے آئے ہیں کہ ’’ یہ منہ اور مسور کی دال‘‘ اسمبلی میں
اسمبلی کی باتیں اور کمیشن میں کمیشن سے متعلق سوالات اور باتیں ہوگیں ،کوئی
سیاستدان کمیشن بننے کی کو شش نہ کرے اور وغیرہ وغیرہ ‘‘ وزیراعظم نوازشریف
کی پانامالیکس پر اپوزیشن سے متعلق کہی ہوئیں ایسی باتیں ہیں جن سے ابھی تک
وزیراعظم حزبِ مخالف کو بہلاتے رہے ہیں اور اپنی اِنہی سیاسی اور غیرسیاسی
باتوں اور جملوں سے اپوزیشن کے جذبات کو کئی سو فیصد فارن ہائٹ تک گرماتے
رہے ہیں جن سے اِن دِنوں اپوزیشن کی جماعتوں کا پارہ اُبلنے لگاہے اوراَب
وہ اتنااُبل چکاہے کہ اپوزیشن والے اپنے جامے سے باہر آنے کو ہیں۔
مگر اَب جبکہ صدرِمملکت محترم المقام عزت مآب جناب ممنون حسین صاحب نے بھی
ایک موقع پر اپنے بڑے منصب اور بڑے منہ سے پانامالیکس کے حوالے سے یہ بڑی
بات کہہ دی ہے کہ’’ پانامالیکس قدرت کی لاٹھی ہے ، بدعنوان پکڑمیں آنے والے
ہیں،کچھ ابھی کچھ ایک سال کے دوران پکڑے جائیں گے،مجرموں کو سزاملنے تک
مُلک درست نہیں ہوگااور ایسی بہت سی چونکا دینے والی باتیں کہیں ہیں۔
یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ اَب وزیراعظم نوازشریف صدر کی اِن باتوں پر کیا
کہیں گے؟آج قوم وزیراعظم نوازشریف سے پوچھناچاہتی ہے کہ اَب کیا وزیراعظم
نوازشریف صدرممنون حُسین کے لئے بھی ’’ یہ منہ اور مسور کی دال‘‘والی بات
کہیں گے ؟؟ یا اِن کا منصب دیکھتے ہوئے اِس سے بھی کوئی بڑی بات کہیں گے؟؟
بہرحال، اَب تو یہ وزیراعظم صدرممنون حُسین سے ہی پوچھیں کہ اُنہوں نے ایسی
باتیں کن پیرائے میں کہی ہیں اور اِن کا اشارہ کس کی جانب تھا؟؟
بہرکیف، خبرہے کہ پچھلے دِنوں کوٹری میں چیمبرآف کامرس کی تقریب سے خطاب
کرتے ہوئے صدرممنون حُسین نے (اپنے نرم و ملائم لہجے والے روائتی خطاب سے
ہٹ کر ضرورت سے کہیں زیادہ بلنداور جذباتی انداز سے ) کہاکہ ’’ پانامالیکس
قدرت کی لاٹھی ہے،بدعنوان پکڑمیں آنے والے ہیں،آنے والے ہفتوں ،مہینوں اور
کچھ ابھی اور کچھ ایک سال بعدپکڑے جائیں گے،لوگ دیکھیں گے کہ کیسے کیسے لوگ
گرفت میں آتے ہیں،کرپشن کامیدان مارنے والے (خواہ کوئی بھی ہو)نہیں بچ سکیں
گے،اِن کا یہ بھی کہناتھاکہ’’کرپشن کرنے والوں کے چہرے منحوس ہوجاتے ہیں،یہ
لوگ اپنے چہروں کی وجہ سے جلد پہچان میں آئیں گے اور پکڑے جائیں
گے‘‘(گویاکہ صدرممنون حُسین نے کرپشن کرنے والوں کا پیمانہ بھی بتادیاہے
اور ساتھ ہی یہ بھی سمجھادیاہے کہ کرپٹ اور کرپشن کرنے والوں کی پہچان اِن
کے چہروں پر برستی نحوست سے لگایا جاسکتاہے اور اِنہیں پکڑکر قانون کے
مطابق سزادی جاسکتی ہے تو ایسے میں قوم اِن کے مشاہدے اور تجربے کی روشنی
میں صدر ممنون حُسین سے یہ بھی پوچھناچاہتی ہے کہ کیا وہ اپنے اِس تجربے
اور مشاہدے کی مدد سے یہ بتاسکتے ہیں کہ آج پانامالیکس میں آف شورکمپنیوں
کے حوالے سے وزیراعظم اور اِن کے خاندان والوں کے نام آرہے ہیں اِن کے چہرے
مبارک کے حوالے سے صدرِمحترم کوکیا لگتاہے؟اورکیا محسوس ہوتاہے؟؟اورذرایہ
بھی تو قوم کو بتادیں کہ پانامالیکس میں وزیراعظم اور اِن کی فیملی ممبران
کی آف شورکمپنیاں عیاں ہونے سے پہلے اِن کے چہرے کیسے تھے اور اَب کیسے
ہیں؟)تاہم صدرِمملکت نے اپنے خطاب میں مزید کہاکہ ’’پانامالیکس کی وجہ سے
پتہ نہیں کون کون سے معاملات اُٹھیں گے؟لوگ دیکھیں گے کہ بہت سے لوگ جو
اطمینان سے بیٹھے ہیں کہ ہم نے یہ کچھ کرلیاوہ کرلیاہے اِن کا کچھ نہیں
ہوسکتا سب پکڑمیں جلد آئیں گے،یہ کہنے کے بعد اُنہوں نے بڑے وثوق سے اِس
بات کا یقین دِلاتے ہوئے یہ بھی کہاکہ ’’یہ میری بات یاد رکھئے گاکہ کوئی
واقعہ دوماہ بعدہوگاکوئی چارہ ماہ بعد اور کوئی ایک سال بعدہوگا،اﷲ تعالیٰ
کا ایک نظام ہے، کرپٹ لوگوں میں بھی مختلف درجات ہیں کوئی بہت زیادہ کرپٹ
ہے اور کوئی درمیانہ کرپٹ ہے، لوگ اِسے دیکھیں یہ منحوس چہرے ہوتے ہیں چہرے
سے نحوست ٹپک رہی ہوتی ہے‘‘۔
ہاں البتہ ! اِس موقع پر اِنہوں نے اِس بات کو کھلے دل اور دماغ سے ضرور
تسلیم کیاکہ ’’ 1970ء کی دہائی تک قومی ترقی کا سفر اطمینان بخش تھااِ س کے
بعدبدعنوانی نے ترقی کی رفتار روک دی،ساتھ ہی اِن کا یہ بھی کہناتھاکہ
پاکستان میں قابلِ اور اہل لوگوں کی کوئی کمی نہیں ، لیکن کرپشن اور سفارش
کلچرنے کارکردگی کو متاثرکردیاہے،پاکستان ایک عظیم مُلک ہے،اِس مُلک کی
خرابیاں اَب ختم ہوں گی کرپشن اور بدعنوانی کو جڑسے اُکھاڑپھینکناچاہئے اِس
کے بغیر مُلک ترقی نہ کرسکے گا‘‘آج اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معصوم
اور سادہ سوچ وفکرکے حامل صدرِ مملکت ممنون حُسین نے جتنی بھی باتیں کہیں
ہیں متاثرکن نہیں ہیں مگراَب کیا ہی یہ اچھاہو کہ صدروزیراعظم ہاؤس سمیت
اپنے اردگر نظریں دوڑائیں اور پانامالیکس میں نام آنے والے افراد کو اِن کے
چہروں سے پہنچان کرقانون کے کٹہرے میں لائیں اور اِن سے صاف وشفاف تحقیقات
کے بعد اصل حقائق قوم کے سامنے پیش کریں اور قومی مجرموں کو سزادلائیں۔ختم
شُد۔ |