1978 اور79 ء میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت
طلبہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے گئے ۔ شیخ مجیب الرحمان نے اپنی فورس بنا
لی جس کا ٹاسک متحدہ پاکستان کی بات کرنے والوں کو چن چن کر مار نا تھا ۔
لاکھوں لوگ شیخ مجیب الرحمان کی اس شدت پسندی اور تنازعات (Volilance) کا
شکار ہوئے۔ان دنوں مولانا مودودی کو بھی ایک کالج میں طلبہ تنظیم کی جانب
سے دی گئی دعوت پر خطاب کرنا تھا لیکن اس وقت کے مجیبی کارندوں نے ایسا نہ
ہونا دیا بلکہ وہاں پر موجود لوگوں کو گرفتار کرکے قتل وغارت گری کی گئی ۔
شیخ مجیب الرحمان کی عوامی پارٹی 7 دسمبر 1970 کے الیکشن جیت گئی اور سوائے
ایک سیٹ کے پورے صوبہ میں مکمل حمایت حاصل کرلی ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس
وقت کے جنرل یحییٰ اور بھٹو صاحب ادھر ہم ادھر تم جیسے نعروں کے بجائے
حکومت کا قلمدان اور اختیارات کی بھاگ دوڑ جیتنے والے صوبے کے سربراہ کے
حوالے کر دیتے، لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا ۔ حکومت اور کرسی کی
لالچ میں عوامی پارٹی کی جمہوری کامیابی کو نہیں مانا گیا اور اسکا خمیازہ
ہم آج بھگت رہے ہیں ۔ پیپلز پارٹی، جنرل یحی کے ڈھاکہ والے اجلاس کا بائیکا
ٹ نہ کرتی ،اجلاس میں شرکت کر کے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرتی اور
حکومت کی کمان شیخ مجیب الرحمان کو تفویض کردیتی تو نہ فوجی طاقت کا
استعمال ہو تا ، نہ لوگ مرتے ، نہ حب الوطنی پر حرف آتا اور نہ ہی مشرقی
پاکستان جیسا پشتاوا اٹھا نا پڑھتا۔ چنانچہ 1970 اور 71ء کی دہائی میں
مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوتا دکھائی دیا ۔اقتدارِ انتقال میں روڑوں کی وجہ
سے علیحدگی کی تحاریک نے جنم لینا شروع کردیا۔ شیخ مجیب الرحمان نے جگہ جگہ
جلسوں اور تقریروں کے ذریعے لوگوں کو سول نافرمانی کے لیے اکسایااس نتیجے
میں لمبے بوٹو ں والے آگئے اور شیخ مجیب الرحمان جیل کی سلاخوں کے پیچھے
چلا گیا ۔ہمیشہ سے طاق میں بیٹھے سازشی بھارت نے اپنے لوگو ں کو ٹرینڈ کر
کے بنگالیوں کے ہاں بھیجا اور اپنے کمانڈروں کو مسلح کر کے بنگال کی لڑائی
میں شریک کرا کر مکتی باہنی کی قیادت میں علیحدگی کی تحریک کو مزید مضبو ط
بنادیا اس وقت کے جماعت اسلامی کے لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ یہاں تو سوال حب
الوطنی کا ہے او ہماری فوج کے خلاف دوسرے ملک کی فوج اور سازشیں سرگرم ہیں
تو جماعت اسلامی اوراسلامی جمعیت طلبہ کی البدر اور الشمس نے نہ صرف پاک
فوج کے شانہ بشانہ ہو کر مکتی باہنی کا مقابلے کرنے کے لیے اپنی فوج کا
ساتھ دیا بلکہ اپنے کارکنان کی بھی بے پناہ قربانیاں دیں ۔ مکتی باہنی کے
غیر بنگالیوں پر انتہائی مظالم اور بھارتی فوج کی مشرقی پاکستان پر برائے
راست یلغار اورپھر ہمارے ٹائیگر و سپہ سالار جنرل نیازی کا پاکستانی فوج کو
جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈلوانا ،اپنی ٹوپی بیلٹ اور پستول جنرل اروڑا
کے سامنے رکھ کر اپنے نوے ہزار سے زائد فوجیوں کو انڈیا کے جیلون میں
رکھوانا ایسی ذلت امیز کہانی ہے جو چاہے نہیں بھلا سکتی۔ بعد ازاں شیخ مجیب
الرحمان کو بھارت کے پریشر پر چھوڑ دیا گیا اور ہمارا صوبہ مشرقی پاکستان
نہ رہا ، بلکہ بنگلہ دیش بن گیا ۔
شیخ مجیب الرحمان نے دو قسم کے تنازعات کھڑے کیے ، پہلے تنازعے میں الیکشن
کے بعد مکتی باہنی کو استعمال کر کے وفاداران متحدہ پاکستان پر ہر قسم کا
ظلم روا رکھا گیا ۔ دوسرے تنازعے میں بنگلہ دیش حاصل کرنے کے بعد نام نہاد
غیر قانونی ٹریبونل بنا کر جنگی قیدیوں کو جس میں فوجی اور سویلین دونوں
شامل تھے ، پر جنگی جرائم کے کیس بنا کر ٹرائل کے لیے پیش کیا ۔ تاریخ گواہ
ہے کہ ایک لاکھ سے زائد لوگ گرفتار کیے گئے ، 34 ہزار سے زیادہ پر کیس چلے
اورپھر آخر میں سات آٹھ سو لوگوں کواسکا نشانہ بنا کر عمر قید اور پھانسیوں
کی سزائیں سنائی گئیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ یہ ایک لاکھ سے زائد لوگ سب کے
سب بنگالی تھے اور ان میں ایک بھی جماعت اسلامی کا کارکن نہیں تھا۔ لیکن اب
خونی حسینہ جماعت اسلامی کے لوگوں کو حب الوطنی کے پاداش میں مطلق العنان
بن کر صرف اور صرف اپنے اقتدار کی حوس پورا کرنے کے لیے یہ موت کا کھیل ،
کھیل رہی ہے اور محض جماعت اسلامی کا عوام میں موجود سیاسی اثر ورسوخ اور
بنگالی فوج کے اندر گہری جڑیں ہونے کیوجہ سے خوف کا شکار ہے کہ کہیں وہ
اقتدار میں نہ آجائے اس لیے وہ غیرقانونی پھانسیوں کا سہار ا لے رہی ہے جو
کہ سراسر حقوقِ انسانی کے خلاف ہے ۔یہ سب کچھ صفحہِ قرطاس پر لانے کا صرف
ایک مقصد ہے کہ بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی ابترہے شیخ
مجیب الرحمان کی لاڈلی قاتل حسینہ نے اس وقت ساری دنیا کے قواتین، ضابطوں
اور بنیادوں کو روند ڈالا ہے حالانکہ پاکستان نے تمام تر تلخیاں بھلا کر
اسے تسلیم کیا اور شیخ مجیب الرحمان پاکستان آئے اور پاکستان بنگلہ دیش کے
درمیان معائد ہ طہ پایا جسکی روح سے پچھلے تمام واقعات کو بھلا کر کسی قسم
کی کوئی کاروائی نہیں ہو گی۔ جنرل مشرف جب بنگلہ دیش گئے تو شہدا ء کے مزار
پر پھول بھی چڑھائے اور70ء والے واقعے پر معافی بھی مانگی۔پاکستان کا ان
تمام چیزوں کو بھولنے کا مدعا پاکستان اور بنگالی عوام کو ایک دوسرے کے
قریب لانااور اخوت و محبت کو فروغ دینا تھا۔ لیکن آج بنگالی حسینہ اس وقت
مکمل طور پر بھارت کی کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے اور مبصرین کی رائے کے مطابق
پورا بنگال بھارتی کالونی کا منظرنامہ پیش کر رہا ہے اور بنگالی حسینہ کے
ہر شیطانی کام کو بھارتی اشیرباد حاصل ہے اور عالمی سطح پر بھی بھارت تمام
تر انسانی و اخلاقی حقوق کے ضابطوں، قانونی وعدالتی تقاضوں سے مستثنٰی ہو
کر اسے غیر قانونی شیلٹرفراہم کر رہا ہے۔اس موقع پر ترکی کے صدر طیب رجب
اوردگا ن کا بنگال سے اپنا سفیر بلا نا، انسان دوست ہونے کیساتھ ساتھ
پاکستان سے والہانہ محبت کا اعادہ بھی ہے۔ شاید اسی وجہ سے ہماری حکومت نے
بھی اس پھانسی پر تھوڑا سخت لہجے میں عالمی سطح پر بات اٹھانے کا فیصلہ کیا
ہے اور اس معاملے کو سنجیدگی سے اٹھا یا ہے ۔حکومت نے پی ٹی وی پر مولانا
مطیع الرحمان نظامی مرحوم کا پروگرام چلوا کر جماعت اسلامی کے حب الوطن
ہونے کا تائید کی ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پراحتجاج کر کے کسی حد
تک اپنا حق بھی ادا کیا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش
کی بڑھتی ہوئی اناء کو ختم کرنے کیلئے اپنے سفارتی تعلقات پر نظر ثانی کرے
، اب تو نیپالیوں نے بھی بنگلہ دیش سے جانی چھوڑانے کی ٹھان لی ہے ۔ ہم
جماعت اسلامی کو جتنا بھی طالبان کیساتھ جوڑیں،شدت پسند کہیں اور اسلامسٹ
کہیں ، جب بھی ہمارے ملک پر خدانخواستہ آنچ آئی اس نے پاکستان اور جمہوریت
کا ساتھ دیا ہے اس لیے جماعت اسلامی کے مزید تین بزرگ رہنماؤں کی پھانسی کو
رکوانا اور تمام مقدمات کو ختم کرواکر ان معاملات پر بنگالی حسینہ کو
شرمندگی کا احساس دلانااب ہماری سول و ملٹری حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ |