اوہ‘ خدایا!۔۔۔ہم نے کیاکردیا!!!؟

 ’’ baby is born‘‘یہ وہ خفیہ الفاظ تھے جن کے ذریعے پوٹسڈم میں موجو د امریکی صدرٹرومین کو پہلے ایٹم بم کی کامیاب تکمیل کی اطلاع دی گئی ۔پھر’’انولاگے‘‘اوربی۔ 29 طیاروں نے نہ صرف دوسری جنگ عظیم کے نتائج کاپانسہ پلٹ دیابلکہ ’’اولادِ آدم‘‘میں سے دولاکھ کے قریب لوگ بھی پل بھر میں تڑپتے‘سسکتے‘ بلکتے لقمہ اجل بن گئے۔

انسان اپنی ابتداء ہی سے دوسروں پراپنی دھونس جمانے‘اپنی برتری منوانے اورطاقت کے نشے میں اپنے محل کی خاطردوسروں کی ’’کٹیا‘‘گرانے میں جانداروں میں سب سے آگے تصورکیاجاتاہے۔ایساہی حالات کاسامنا سرزمینِ پاکستان کو رہاہے۔جنم دن سے لیکرآج تلک ہمسایہ ملک کی ریشہ دوانیاں‘سازشیں‘سمجھوتہ ایکسپریس وبابری مسجد کی شہادت جیسی کریہیہ صورت وبھیانک منصوبہ بندی اورانسانیت سوز اقدامات سہتاپاکستان محدود وسائل سے بہ امرمجبوری دفاع پر رقم خرچ کررہاہے۔حیدرآباد دکن ‘جوناگڑھ اورمنادرتک بات نہ ٹھہری بلکہ کشمیری عوام کے حقوق غضب کرنے کے ساتھ ساتھ وہ ارضِ وطن کوٹکڑے ٹکڑے کرنے کیلئے 1965 میں حملہ آورہوااورمنہ کی کھائی۔پھربین الاقوامی سازش کے آسرے 1971میں پاکستان کو دولخت کردیاگیا اوراندراگاندھی نے ہرزہ سرائی کی کہ ہم نے ’’نظریہ ء پاکستان‘‘کو خلیج بنگال میں ڈبودیاحالانکہ اگرایساہوتاتومشرقی پاکستان بھارت میں ضم ہوتالیکن ایک اورآزادمسلم ریاست قائم ہوئی اوروہ بھی چانکیائی چال بازیوں سے۔بھائی بھائی سے الگ ضرور ہوا‘مگرنہ تو اس نے شناخت بدلی‘نہ مذہب بدلانہ ہی کسی مخلوط نظریہ کاغلام بنا۔ 18 مئی 1974 کوبھارت نے پاکستان کی سرحد سے محض 93 میل کی مسافت پر راجھستان میں پہلاایٹمی تجربہ کیا توایسے حالات میں اپنے سے کئی گنابڑے اورمکاروعیاردشمن سے محفوظ رہنے کی خاطرپاکستان نے بھی ’’ایٹم بم‘‘کے حصول کیلئے دن رات ایک کردیا۔

اسوقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقارعلی بھٹونے منیراحمد خان کو یہ فریضہ سونپا۔بعدازاں ڈاکٹرعبدالقدیرخان کی سربراہی میں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کاقیام عمل میں لایاگیا۔ذوالفقارعلی بھٹوکے بعداقتدارجنرل ضیاء کے ہاتھوں میں آیامگرایٹمی پروگرام پرکوئی اثرنہ پڑا۔بالاآخردس دسمبر 1984کو ڈاکٹرعبدالقدیرخان نے جنرل ضیاء الحق کو تحریری طورپرمطلع کیاکہ ہم بفضلِ خدااس قابل ہوگئے ہیں کہ ایک ہفتے کہ نوٹس پر ایٹمی دھماکے کرسکیں۔قوت حاصل کرنے کے باوجود پاکستان نے اس کااظہارنہ کیاکیونکہ پاکستان ’’شوآف‘‘کاقائل نہیں اورایک پرامن ملک ہے۔

گیارہ مئی 1998 کوبھارت نے پوکھران کے مقام پر تین ایٹمی دھماکے کیئے ۔دوروزبعدیعنی 13مئی کو بھارت کی جانب سے دواورایٹمی دھماکے کردیئے گئے۔عددی حساب سے بھارت کے پاس تیسری بڑی فوج‘چوتھی بڑی فضائیہ اورپانچویں بڑی بحریہ ہے مگر توسیع پسندانہ عزائم اوراحساسِ برتری جیسے سفا ک ومکروہ احساسات اورخطے میں سیاہ وسفید کامالک بننے کاخواہش مندبھارت ‘حاصل شدہ قوت کے اظہارکے بناء کیسے اپنی بے چین روح کوتسکین دیتا؟دھماکوں کے وقت بھارت میں بنیاد پرست جماعت بھارتی جنتاپارٹی کی حکومت تھی اوراٹل بہاری واجپائی وزیراعظم تھے۔دنیاکی چھٹی بڑی ایٹمی قوت بننے کے بعد بھارتی حکمرانوں کالب ولہجہ رعونت سے بھرپور‘شقاوت قلبی کامظہراورآدم خورہوگیا۔پاکستان کودھمکیاں دی جانے لگیں‘لائن آف کنڑول پربڑے پیمانے پر کاروائی کی بازگشت سنائی دینے لگی اورپاکستان کو کشمیرکاز یکسربھلادینے کی متکبرانہ نصیحتوں کاتانتابندھ گیا۔

پاکستان میں اسوقت جناب میاں نوازشریف کی حکومت تھی ۔مغربی ممالک کاضمیرجاگ اُٹھاتھا اور پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی دلفریب پیشکش کی جانے لگی ۔کبھی بیرونی امدادکی ہنڈیاکواُبالادیاجاتا اورکبھی بین الاقوامی پابندیوں سے ڈرایادھمکایاجاتا۔ایسے حالات میں عوام میں جوش وجذبہ عروج پرتھااوروہ ہمیشہ کی طرح اپنی افواج اورحکومت ِ پاکستان کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔رقبہ کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے ضلع چاغی کے پینتیس کلومیٹرطویل راس کوہ ہل کاانتخاب ہوا۔زلزلہ کوماپنے والے تمام آلات کابیرونی دنیاسے رابطہ منقطع ہوا۔چیف سائنٹفک آفیسرمحمدارشدکودھماکہ کرنے کانظام وضع کرنے کا فریضہ سونپاگیااوراسی آفیسرنے یکم صفر‘28مئی 1998کوصبح کاذب سے قبل ۳بج کر سولہ منٹ پر ’’نعرہ تکبیر‘‘بلندکرتے ہوئے ’’بٹن ‘‘دبادیا اوریوں تیس سیکنڈ کے مختصر وقفہ میں سیاہ گرینائٹ کی چٹانیں دودھیارنگ کی ہوگئیں ۔دعاکرتے لب اورنم آنکھیں شاداں وفرحاں ہوئیں ‘فضانعرہ تکبیرکے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی ۔اب پاکستان دنیاکی ساتویں بڑی ایٹمی قوت بن چکاتھا۔30مئی 1998 کوپاکستان نے بلوچستان ہی کی وسیع صحرائی وادی خاران میں چھٹاایٹمی دھماکہ کرکے دنیاکی ’’چھٹی بڑی ایٹمی قوت‘‘بھارت کو ’’چھٹی ‘‘کادودھ یاددلاکراپنی برتری واضح کردی۔ چنددن پہلے پاکستانیوں کو’’گردن جھکا‘‘کرچلنے کامشورہ دینے والے سورمایک لخت گنگ ہوگئے‘ خشم ناک نگاہوں سے تاکنے والے نظریں چرانے لگے اوراٹل بہاری واجپائی کو کہناپڑا کہ ہم پاکستان کے ساتھ تمام معاملات بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے خواہشمند ہیں۔

اس دن کوپاکستانی عوام نے ’’یوم ِتکبیر ‘‘کے نام سے موسوم کیا۔تکبیرعربی زبان کالفظ ہے۔جس کے معنی بڑائی وعظمت کے ہیں۔مسلمان اﷲ کی ذات کو سب سے برترواعلی سمجھتے ہیں اوریہی انکی ایسی اساس ہے جو انکو بدرسے لیکرباٹاپورتک کامیابی وکامرانی کے جوہرعطا کرتی آئی ہے‘۔قرآن حکیم میں 750 سے زائد مقامات پر خدائے بزرگ وبرترنے مسلمانوں کی توجہ سائنس وعلم کی جانب دلوائی ہے ‘یہی وجہ ہے کہ مسلم امہ کے ہوش مندطبقات نے ہمیشہ مطالعہ کائنات کواہمیت دی ۔یوم آزادی کے بعد پاکستان کی دفاعی تاریخ میں یہ دن سب سے بڑاہے جس کی وساطت سے پاکستانی سرحدیں ناقابل ِ تسخیر ٹھہریں ۔یہ سب کچھ رب تعالی کی کرم نوازیوں ‘ڈاکٹرقدیر‘ڈاکٹرثمرمبارک مندودیگرعملہ کی انتھک محنتوں اورذوالفقارعلی بھٹوکے عزم اورجنرل ضیاء کی توجہ سے نصیب ہوا۔

قیامِ پاکستان سے ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی میں امن کاپرچار‘مظلموم و محکوم قوموں کی آزادی اورہمسایوں کے ساتھ برابری کی سطح پر بہترین تعلقات جیسے عوامل بنیادی ماخذکی حیثیت سے شامل رہے ہیں۔پاکستان اپنے محدودوسائل کے باوجوددفاعی بجٹ پر اپنی بقاء کی خاطرخرچ کرتاہے۔دوسری جانب بھارت پرجنگی جنون سوارہے اوراسکے توسیع پسندانہ عزائم میں لکھاریوں کی فلسفہ سازیاں بھی اپنے عروج پر ہیں۔بھارتی لکھاری پی این اوک اپنی کتاب some blunders of indian historical research میں رقمطراز ہیں کہ’’کسی زمانے میں ہندومہاراجہ بکرماجیت کی سلطنت جزیرہ نمائے عرب تک پھیلی ہوئی تھی۔مہاراجہ نے اٹھاون برس قبل مسیح مکہ میں رام مندرتعمیرکیا(استغفراﷲ)جسے بعد میں مسلمانوں کے نبی محمد(ﷺ)نے خانہ کعبہ میں تبدیل کردیا۔ہندؤوں کویہ فراموش نہیں کرناچاہیئے کہ مکہ انکاشہرہے۔جس میں انکے دیوتاکامندرتھا۔لہذاضروری ہے کہ ہندواس مندرکودوبارہ حاصل کرنے کی سعی کریں۔ُُ‘‘یہی وجہ ہے کہ بھارتی سرکاراپنے ملک کے غریب عوام کاپیٹ باربار’’کندآلہ‘‘ سے کاٹ رہی ہے ۔ 2006سے 2010اور 2011سے 15کے درمیان بھارت کی اسلحہ خریداری میں کم وبیش نوے فیصداضافہ ہوا۔سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطا بق بھارت دنیامیں بکنے والے اسلحہ میں سے 14فیصد خریدتاہے۔2016-17کے بھار تی دفاعی بجٹ میں گزشتہ برس کے مقابلے میں نواعشاریہ سات فیصد اضافہ ہواہے جوکہ 2.58 لاکھ کروڑہے اوراگراس میں ملٹری پنشنز کوشامل کیاجائے تویہ رقم 3.41 لاکھ کروڑ جابنتی ہے۔یہ ہیں وہ حقائق جو اس بات سے پردہ اُٹھارہے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کامقصدتوانائی کاحصول اوراپنی سرحدوں کی حفاظت ہے جبکہ بھارت کانصب العین حقوق غضب کرنا‘بین الاقوامی حدودکی خلاف ورزیاں اوربنگلہ دیش ‘مالدیپ ‘ بھوٹان‘چین ‘پاکستان اورنیپال پردست درازیاں کرناہے۔

قابلِ استعجاب وقابلِ افسوس بات یہ ہے کہ دفاعی اخراجات میں اس قدراضافے کے باوجود بھارت اپنے ایٹمی پروگرام وآلات کو محفوظ نہیں بناپایا۔بھارت جیسے متنوع ملک میں جہاں ایک سو زائد انتہاپسندی کی تنظیمیں اوربیسیوں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں ‘سکھ ‘مسلم ‘عیسائی ‘پارسی کو تنگ نظر ی وبربریت کاسامناہے ‘ہاشم پورہ وگجرات فسادات میں آدم خور شہر کاشہرہڑپ کرجاتے ہیں‘جہاں نسلی ‘علاقائی ‘ لسانی ‘طبقاتی اورمعاشی اونچ نیچ نفرت انگیز حدوں کو چھورہی ہے وہاں ایٹمی پروگرام کی حفاظت اشدضروری ہے مگرحالات اسکے برعکس ہیں۔

پاکستان ایٹمی سیکورٹی کے قوانین کو بہتراورجدیدتربنانے کیلئے عمل درآمدکررہاہے جس کے خاطرخواہ نتائج سامنے آرہے ہیں۔دنیاکے کل نو ایٹمی ممالک میں سے پاکستان نے ایٹمی سکیورٹی کے قوانین اوران پر فوری عمل درآمد کو اسقدرسبک رفتاری سے بہتربنایاہے کہ پاکستان کے درجہ میں ۳پوائنٹس کی بہتری آئی ہے اوریوں پاکستان ایٹمی موادکی حفاظت کی فہرست میں ہندوستان سے بہتردرجے پرفائزہواہے۔اس بات کااظہار 2014امریکہ کے ادارے کے مطالعاتی جائزہ میں کیاگیا۔این ٹی آئی اندیکس میں زیادہ ترممالک اپنی جگہ پر قائم رہتے ہیں اوربسااوقات محض ایک پوائنٹ کی بہتری ممکن ہوتی ہے مگرپاکستان نے 2012کے مقا بلے میں تین پوائنٹس کی بہتری کے ساتھ کسی بھی ملک کے حفاظتی اقدامات سے برترہونے کادرجہ حاصل کرلیاہے۔ایٹمی موادکے قابل استعمال ہتھیاروں کی سیکورٹی کے حوالے سے پاکستان کومجموعی طورپر بائیسواں نمبرحاصل ہے جبکہ ہندوستان کاتئیسواں نمبرہے۔این ٹی آئی اندیکس نے پاکستان کی اس قابل قدربہتری کو تسلیم بھی کیاہے۔

’’کاؤنٹ ڈاؤن ٹوزیرو‘‘جیسی پالیسیاں بھی بھارت کوگراں گزرتی ہیں جبکہ پاکستان نے سی ٹی بی ٹی پر کمال دانشمندی‘وہوشمندی کامظاہرہ کرتے ہوئے اس پر دستخط کو اس بات سے مشروط کردیاکہ اگرمسئلہ کشمیرحل ہوجائے توہم دستخط کردیں گے ۔یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ پاکستان وبھارت کی تین جنگیں اس وجہ سے ہوئیں کہ پاکستان مظلوم کشمیریوں کی اخلاقی وسفارتی مددکرتاہے۔ انکے حقوق کیلئے ہرپرامن پلیٹ فارم پرلڑتاہے اوریہی سب کچھ ’’اکھنڈبھارت‘‘کاخواب دیکھنے والوں پرغم کاکوہِ گراں بن کرگرتاہے۔

2012 میں بین الاقوامی فزیشن برائے ا متناع ایٹمی جنگ اورفزیشن برائے معاشرتی ذمہ داری نے ایک نظرثانی شدہ مطالعاتی جائزہ کی رپورٹ پیش کی تھی جس کے مطابق اگرپاکستان وبھارت کے مابین جنگ چھٹرتی ہے تو عالمی سطح پر قحط سالی پیداہوگی ۔دوارب کے قریب انسان موت کے منہ میں چلے جائیں گے ۔ساتھ ہی انسانی تہذیب اپنے انجام کوپہنچے گی۔رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیاکہ پاک بھارت ایٹمی جنگ سے فضامیں سیاہ کاربن ایروسول کے ذرات شامل ہوجائیں گے۔ جوامریکی مکئی اورسویابین کی پیداوارکم کردیں گے۔اس ایٹمی جنگ کے پہلے سال چین کی گندم پچاس فیصدکم ہوگی اورآتے عشرے میں بنیادی ہدف سے اکتیس فیصدنیچے رہنے کی توقع ہے۔اس رپورٹ میں یہ بھی کہاگیاکہ جوایٹمی ہتھیارجاپان پرگرائے گئے وہ موجودہ بموں سے بہت کم قوت رکھتے تھے ۔اس لیئے انکے حقیقی نقصان کا اندازہ لگانا دشوارعمل ہے ۔اس جنگ سے اس قدرتباہی ہوگی کہ اس سے بچاؤ کی کوئی صورت باقی نہ بچے گی۔رپورٹ کے مصنف ہیلفنڈکاکہناتھاکہ چین کے 1.3 ارب لوگ بھی رسک پرہوں گے ۔ادارے نے تجویز پیش کی کہ پوری دنیامیں موجودایٹمی ہتھیاروں کوتلف کرانسانی تہذہب کے بقاء کی جانب قدم اُٹھایاجائے۔

مندرجہ بالاتلخ حقائق واضح کرتے ہیں کہ پاک بھارت مخاصمت نہ صرف جنوبی ایشیابلکہ عالمی امن کیلئے بھی تباہی کاپیش خیمہ ثابت ہوگی۔ایسے حالات میں اہل مغرب کوچاہیئے کہ بھارت کودی ہوئی موجودہ ڈھیل ختم کریں اورمسئلہ کشمیرسمیت ہندووپاک کے پانی سمیت ہرمسئلہ کاحل مذاکرات کے ذریعے نکالنے کیلئے بھارت پر عالمی دباؤ بڑھائیں ۔دنیاکاہرملک امن کی جانب بڑھ رہاہے اورایک ہماراہمسایہ ہے کہ اسکاحاضرسروس ملٹری آفیسررنگے ہاتھوں جاسوسی کرتاہوابلوچستان میں پکڑاگیاہے۔عالمی ادارے ‘اہل یورپ ‘اور لبرل طبقہ نجانے اب کیوں پتھرکی مورت بنابیٹھاہے؟حالات نے پھر پلٹاکھایاہے اوراب پھر پاکستان میں میاں نواز شریف کی حکومت ہے اورانڈیامیں بی جے پی کی ۔بھارت کوچاہیئے کہ روایتی ہٹ دھرمی چھوڑ کرمذاکرات کی میز پر آئے تاکہ امن قائم ہوسکے اوردونوں ممالک کے دفاعی اخراجات میں کمی لاکرعوام کی فلاح وبہبودپررقم خرچ کی جاسکے۔

اب ہم جاپان پر گرائے پہلے بم کی کہانی کی جانب لوٹتے ہیں۔پہلے ایٹمی حملے کاکپتان colonel paul tibbetsتھا۔لٹل بوائے یعنی ایٹم بم کو بی ۔ 29 میں لوڈکیاگیا۔جہازکانام ’’انولاگے‘‘رکھاگیا۔اس سے آگے دوجہاز پروازکررہے تھے جوکہ ٹارگٹ پرموسمی کیفیات کاپتہ بتلارہے تھے۔ٹارگٹ سے محض ایک گھنٹہ پہلے عملہ کوایٹمی حملے کے متعلق آگاہ کیاگیا۔پھراچانک کرنل تبتیس کی آواز گونجی’’this is heroshema ‘‘اورپھرانسانی تہذیب کے ایسے المناک واقعہ کاجنم ہواکہ چنگیزیت بھی شرماگئی۔آن کی آن میں سترہزارلوگ جل بھن کرخاک ہوگئے‘پناہ گاہیں ڈھونڈتے لوگوں کے ڈھانچے بھی پگھل گئے۔ہنستا بستاشہرایسااجڑاکہ بلندوبالاعمارات‘ نقشے پر لگائے گئے سروئیرکے نشانات جیسی ہوگئیں‘بہتربرس بیت گئے مگر ہیروشیماوناگاساکی کی نسلیں ابتک ناکردہ جرم کے اثرات سہہ رہی ہیں۔بعض مقامات آج تک بنجرہیں۔

انولاگے مشن مکمل کرکے لوٹ رہاتھاتوساتھ موجودپائلٹ نے نیچے نگاہ ڈالی اوراپنی ڈائری میں بے ساختہ یہ الفاظ درج کیئے ’’My God !what have we done?۔ترجمہ:’’اوہ ‘خدایا! ۔۔۔۔ہم نے کیاکردیا!!!؟‘‘ اورپھریہ الفاظ امرہوگئے۔ استعماری قوتوں کواس بات کا ادراک ہوناچاہیئے کہ اب اگرجنگ چھڑی توممکن ہے ’’مائی گاڈ‘‘کے الفاظ کہنے کیلئے بھی کوئی بشرنہ بچے‘اس لیئے بہترہوگاکہ وہ بھارت کو پرامن پالیسی اپنانے پرمجبورکریں ۔اسی میں پاکستان وبھارت کی بھلائی ہے اورامنِ عالم کی بھی۔

sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174083 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.