داغدارچہرے ہی چھپانے کی ضرورت ہوتی ہے،جس چہرے پرداغ ہی
نہ ہوں اسے لوگوں سے چھپنے چھپانے کی فکرہی نہیں ہوتی۔ بھارت کاچہرہ چونکہ
داغدارہے اسلیے وہ اپنے آپ کوبےنقاب نہیں کرتابلکہ خودکو’’چمکدار‘‘شائننگ
انڈیاکہتاہے لیکن سب جاننے والے بجاطور پر اس رویے کوایک خندۂ استہزاء سے
زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات کے دعوے تسلسل کے ساتھ
جاری ہیں لیکن دوسری طرف پچھلے دنوں مجبوراًپاکستان کی کرکٹ ٹیم کوآنے کی
اجازت تودی لیکن بھارتی انتہاء پسندوں نے پہلے سے طے شدہ اسٹیڈیم پرپاکستان
کوکھیلنے پر ہنگامہ اوراودھم مچاکروہاں کی صوبائی حکومت کو میچ کروانے پر
معذرت کرنے پرمجبورکردیاجس کی بناء پرباقی ماندہ تمام میچ کاشیڈول تبدیل
کرنا پڑا اورمزیدبرآں پاکستانی سفار ت کاروں پربھی میچ دیکھنے کی پابندی
عائدکردی اورصرف چندافرادکو بمشکل اجازت دی گئی جس پر پاکستان میں قدرتی
طور پر بھارت کے ساتھ موجودہ حکومت پر بھی شدید تنقیدہوئی جومودی سرکاراور
بھارتیوں کے استقبال کیلئے ہردم فرشِ راہ رہتی ہے۔اب معاملہ صرف یہاں تک ہی
محدودنہیں بلکہ اہل پاکستان کویہ سوچناچاہئے کہ جوملک اپنے مربی امریکا
بہادرکے آزادی کمیشن کوویزہ دینے کی ''جرأت''نہیں کرسکاوہ پاکستان کے
سفارت کاروں سے کیوں خوفزدہ نہیں ہوگا۔
امریکامیں مذہبی آزادی کی چھان بین کرنے والاادارہ پولیس کمیشن آف
انٹرنیشنل ویجیلنس فریڈم کمیشن'' ایک بااختیارآزادادارہ ہے جودنیاکے مختلف
ممالک میں مذہبی آزادی کے مؤقف کی چھان بینکرتاہے۔اس کمیشن کے ایک وفد نے
جو صرف دوارکان پرمشتمل تھا،بھارت میں مذہبی آزادی کی صورتحال کا جائزہ
لینے کیلئے اس ملک کودورۂ کرنے کیلئے حسب قاعدہ بھارتی ویزہ کیلئے درخواست
دی تھی لیکن بھارتی وزارتِ خارجہ نے امریکی وفدکوویزہ دینے سے انکارکر
دیااورطرفہ تماشہ یہ کہ پوچھنے کے باوجوداس کی کوئی معقول وجہ بھی نہیں
بتائی گئی۔وجہ صرف یہ ہے کہ پچھلے دوسال سے مذہبی آزادی کو دستوری حق نہ
سمجھنے والے حکمران اوران کے ہمنوابھارت میں ہندوراشٹرقائم اور اکثریت کو
ہندوتواکی یک رنگی بنانے کے خواہاں ہیں۔وہاں کے انتہاء پسندوں کے خیال میں
اس ملک کی قریباً٨٠٪آبادی ہندوؤں پرمشتمل ہے( بھارتی مبصرین کے مطابق درست
نہیں) لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس بڑی آبادی کے باوجود بھارت کسی ایک
مذہب کاعلمبردارنہیں بن سکتا۔یہاں مختلف عقائد، مذاہب، زبانوں اورتہذیبوں
کاغلبہ ہے اورہرہندوستانی باشندے کویہ آزادی(صرف دستورکی حد تک)حاصل ہے کہ
وہ اپنے مذہبی عقیدے پرقائم رہے،یعنی کوئی دوسراسماجی گروہ خواہ اس کو عددی
برتری حاصل کیوں نہ ہو،کسی حوالے سے اپناعقیدہ مسلط نہیں کرسکتا۔
بھارت کے سرکردہ دانشورصحافی ظفرعلی خان لکھتے ہیں:امریکی وفدکودورۂ
ہندوستان کی اجازت نہ دینے میں حکومت ہندکی یہی مصلحت رہی کہ کہیں بھانڈا
نہ پھوٹ جائے۔آج جوفرقہ پرست طاقتیں ،قانون اورحکومت کے خوف سے کلیتاً
آزادہوکرمذہبی تعصب کاپرچارکررہی ہیں ،ملک کی مذہبی اقلیتوں، مسلمانوں اور
عیسائیوں پراپناعقیدہ تھوپ رہے ہیں توبھلاامریکی وفدکوہندوستان کادورۂ
کرنے کی اجازت کیسے دی جاسکتی تھی لیکن امریکابھی کوئی دودھ کادھلاہوانہیں
ہے ،وہاں بھی گورے کالے کاامتیازاب بھی جاری ہے۔امریکا میں رہنے والے
مسلمان آج بھی امتیازکاشکاربنائے جارہے ہیں،ہندوؤں کے منادر ،سکھوں کے
گردواروں پرآئے دن وحشیانہ حملے ہوتے ہیں۔کہنے کوتوامریکامیں مذہبی آزادی
ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ یہاں بھی عیسائیت کے علاوہ دیگرعقائدکوکئی مشکلات
کا سامنا کرناپڑتاہے،فرق یہ ہے کہ امریکی حکومت مذہبی آزادی چھیننے والوں
کی پشت پناہی نہیں کرتی جبکہ ہندوستان میں مذہبی آزادی کوختم کرنے کی
ہرکوشش کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ہرواقعہ کے حقائق کوتوڑمروڑکر
دیکھا اورسمجھاجاتاہے۔ہرمذہبی آزادی کو متاثر کرنے کے معاملے کی مختلف
بہانوں کی آڑمیں تشریح کی جاتی ہے۔ان حالات میں امریکاکے کمیشن کے وفدکو
اگر ہندوستان کادورۂ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے توکئی تلخ حقائق بین
الاقوامی کینوس پرآجاتے۔
پچھلے ماہ قبل رائے پورکے ایک گرجاگھرپربجرنگ دل کے کارکنوں نے اتوار کے
مذہبی اجتماع کے موقع پرحملہ کیا۔وہاں موجود خواتین اورلڑکیوں کے ساتھ
انتہائی بے رحمانہ اوربیہودہ سلوک کیاگیاتھا۔اس سلسلےمیں شکائت کے بعدمقامی
پولیس نے انیس افرادکو گرفتار کیا،ان میں سے سات نابالغ ثابت ہوئے،اب بھلا
نابالغوں کے خلاف کیاکاروائی کی جاسکتی ہے۔ایساتوممکن نہیں کہ گرجاگھر پر
حملہ کرنے والے تمام بچے تھے ،ان میں بڑے بھی شامل تھے توگرفتارمحض بچے ہی
کیوں کئے گئے۔یہ اس لئے کہ ملزموں کے نابالغ ہونے کی بنیاد پران کے خلاف
سخت کاروائی نہ کی جاسکے۔ایک رائے پورکے گرجاگھرکی بات نہیں،کئی اورواقعات
بھی ہورہے ہیں جن سے ثابت ہوتاہے کہ بھارت میں مذہبی آزادی سلب کرنے کی
کوشش جاری ہے،مسلمانوں پرافتادتواوربھی دردناک ہے۔ سیکڑوں کی تعدادمیں
مسلمانوں کوہندودھرم اپنانے پرمجبورکیاگیاحالانکہ یہ تمام توبہ کرکے دوبارہ
اسلام میں داخل ہوگئے لیکن اس واقعے سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ ایک مخصوص مذہب
کے ماننے والے دوسروں کی مذہبی آزادی کوقطعی برداشت نہیں کرتے۔یہ انتہاء
پسندابھی کم تعدادمیں ہیں لیکن جس طرح بی جے پی حکومت دیدہ دانستہ ان
انتہاء پسندوں اورمتعصب فرقہ پرستوں کونظراندازکررہی ہے بہت جلدان کی تعداد
اور حوصلے بڑھ جائیں گے۔
اس خام خیالی کے تحت امریکی وفدکوویزہ نہیں دیاگیاکہ بھارت کاامیج
مزیدمتاثر ہوگا۔چند سال قبل امریکا نے خودبھارتی وزیراعظم نریندرمودی کو(جب
کہ وہ اس عہدے پرفائزنہیں تھے) مسلم کش فسادات کی سرپرستی کرنے کے الزام
میں ویزہ دینے سے صاف انکارکردیاتھا۔ان فسادات میں مذہبی آزادی اور انسانی
حقوق کی جس طرح خلاف ورزی ہوئی تھی اس کوکبھی فراموش نہیں کیاجاسکتالیکن
بعد میں عالمی کارپوریٹ نے ایک سازش کے تحت اپنے مفادات کیلئے مودی کو
وزیراعظم بنادیاجس سے حالات بدل گئے۔انہیں نہ صرف امریکی ویزہ دیاگیا بلکہ
ان کی شاندارپذیرائی کی گئی۔مودی حکومت کویہ یادرکھناچاہئے کہ اوباماکواپنے
بھارتی دورۂ کے موقع پراندازہ ہوگیاتھاکہ یہاں مذہبی آزادی،رواداری،تحمل
پسندی تیزی سے ختم ہورہی ہے جس پراوباما کو کہناپڑا:''ہندوستان کی طاقت
کاسرچشمہ یہاں بسنے والے مختلف مذاہب کے ماننے والے ہیں، ہندوستان میں جب
تک مذہبی رواداری ہے،تکثیریت ہے،ہندوستان کی اس طاقت کے خلاف کوئی کچھ نہیں
کر سکتا''۔اب تو مذہبی آزادی کے سلب ہونے کے کئی واقعات ہو رہے ہیں۔کوئی
بیرونی کمیشن اگردورہ کرے تو سارے حقائق طشت ازبام ہوجائیں گے کہ ملک میں
مذہبی آزادی اوررواداری اب صرف کتابوں ہی میں محفوظ رہ گئی ہے۔
روزمرہ زندگی میں مذہبی آزادی ہرطرف خطرات میں گھری ہوئی ہے۔جب تک بھارت
میں مذہبی آزادی کامکمل طورپرتحفظ نہیں ہوتا تب تک مذہبی اقلیتیں خود
کوپوری طرح آزاد نہیں سمجھتیں ۔اس وقت سیکولر جمہوری ہندوستان کی کوئی خوش
کن تصویرنہیں بن سکتی۔امریکاکامشن یااس کاوفداگریہاں کادورۂ کرتاہے تو اس
کوسارے حقائق معلوم ہوجائیں گے لیکن یہ بھی دکھائی نہیں دیتاکہ ملک کی
قیادت اس مذہبی آزادی اوررواداری کافی الواقع تحفظ چاہتی ہے۔ صورتحال
انتہائی ابتر ہے۔ عدم تحمل پسندی کی مثال یہ بھی ہے کہ جواہر لعل یونیورسٹی
طلباء یونین کے صدر کنہیاکمارکوگولی مارنے،انہیں ہلاک کرنے والے کو بی جے
پی لیڈرنے گیارہ لاکھ روپے کے انعام کااعلان کیاہے۔حدہوگئی نہ صرف مذہبی
آزادی مفقود بلکہ اب توہندو،ہندوکوبھی اختلاف رائے کے سبب واجب القتل
قراراورقتل پرانعام بھی رکھتاہے۔
حکومتی پارٹی کے منتخب لیڈرارکانِ پارلیمان یہ کہتے ہیں کہ ہم انہیں ملک
میں نہیں رہنے دیں گے جوہمارے افکارکی حمائت نہیں کرتے۔اختلاف رائے کو
دشمنی کی حدتک پہنچانے والے ان انتہاء پسند لیڈروں کومودی حکومت نے بھی
لگام دینے کی کوشش نہیں کی بلکہ ان کی دہشتگردانہ روش پرہمیشہ خاموشی
اختیارکرکے درپردہ ان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ان حالات میں بھارتی اکابراور
مقتدرین کویہ خدشہ لاحق ہوگیاہے کہ اگربیرونی وفدملک کادورۂ کرے گاتواس کے
اثرات بین الاقوامی سطح پرمرتب ہوں گے اورملک کی مزیدرسوائی ہوگی۔ یہ حقیقت
پوری دنیاپرکھل چکی ہے کہ بھارتی انتہاء پسند عناصرجن کے پاس زمامِ
اقتداربھی ہے،ہندوستان کی جمہوری اوردستوری حیثیت ختم کرنے کے درپے ہیں
اورطرفہ تماشہ یہ ہے کہ وہ پرامیدہیں کہ وہ اپنے ان ناپاک عزائم میں کامیاب
ہوجائیں گے ۔
جہالت اورتعصب کایہ عالم کہ جھاڑکھنڈکے علاقے میں انتہاء پسندہندوؤں نے دو
مسلمانوں٣٥سالہ محمد مظلوم اورپندرہ سالہ ابراہیم کوبھینس چرانے کے الزام
میں پہلے بدترین تشددکانشانہ بنایااورپھران دونوں کودرخت کے ساتھ
لٹکاکربیدردی سے قتل کردیا۔ سرکاری تحقیق کے بعد یہ الزام غلط ثابت بھی ہو
گیالیکن ابھی تک کسی کے خلاف کوئی مقدمہ قائم ہوااورنہ ہی کوئی گرفتاری عمل
میں لائی گئی۔اس دردناک واقعے پرعلاقے میں احتجاج کی نئی لہراٹھی ہے
۔مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔لگتایہ ہے کہ مودی
سرکارکے انتہاء پسندبرخورداربھارت کے داغدارچہرے کوچمکانے کا کاروباراس وقت
تک جاری رکھیں گے جب تک یہ چہرہ مسخ شدہ حالت میں دنیاپر پوری طرح بے نقاب
نہیں ہوجاتا۔ان کی آنکھوں پرایسی پٹی بندھی ہے کہ انہیں جواہرلعل یونیورسٹی
کے ہندوطلباءاوراساتذہ کے تیوردیکھ کربھی ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت محسوس
نہیں ہوئی جنہوں نے واضح کردیا کہ اب بھارتی عوام میں حق گوئی کا جذبہ
بیدارہورہاہے اوروہ اپنے حکمرانوں کے مظالم بے نقاب کرنے لگے ہیں۔ |