جلال لدین رومی کا کہنا تھا کہ” اپنی آ واز
کی بجائے اپنے دلائل کو بلند کریں ، پھو ل بادل کے گرجنے سے نہیں برسنے سے
اگتے ہیں” ۔
میا ں نواز شریف پہلے دو بار بھی وزیر اعظم رہ چکے ہیں لیکن وہ کبھی بھی
اپنی مدت حکومت پوری نہ کر سکے اور تیسری بار بھی ان کے ساتھ وہی کچھ ہو نے
جا رہا ہے کیوں کہ میاں صاحب تدبیر سے زیادہ تذلیل سے کام لینے کی سوچتے
ہیں انکو محسوس ہوتا تھا کہ پہلے انھوں نے اپنے ساتھیوں کی باتوں میں آ کر
غلط اقدام اٹھائے جس کے نتیجے میں انھیں وزیر اعظم ہاوٗ س سے جیل کی کال کو
ٹھڈی میں جا نا پڑا اس لئے شریف فیملی ( نواز ) نے اس بار فیصلہ کیا ہے کہ
جو بھی کرے گے اب صرف اپنے خاندان کے چند لوگوں سے ہی مشورہ کرے گے جس میں
سب سے اہم کردار آج کل مریم نواز کا ہے اس کے بعد اسحاق ڈار ، کلثوم نواز
کے علاوہ کچھ مزید دوست احباب ہیں جو کہ اسی نوعیت کے قریبی رشتہ دار ہیں۔
قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس میں شہباز شریف یا ان کے بچے شامل نہیں ہیں
کیونکہ حمزہ اور مریم کی چپکلش کسی سے چھپی نہیں ہے اور یہ معاملہ حد سے
زیادہ بڑھ چکا ہے کیو نکہ پاناما لیکس کے بعد حمزہ شہباز اور مریم نواز کا
آمنا سامنا ہوا اور مریم نواز نے کافی برہمی کا اظہار کیا جس پر حمزہ نے
بھی کافی نازیبا الفاظ استعمال کئے اور بات وزیر اعظم تک پہنچی تو شہباز
شریف سے کہا گیا کہ حمزہ کو کہیں کہ معذرت کریں لیکن حمزہ اسے خاطر خواہ نہ
لائےجس پر شہباز شریف نے معاملہ ٹھنڈا کیا۔
مٰدے پر واپس آتے ہیں کیونکہ اس نا چیز کے پاس تفصیلات تو اور بھی بہت ہیں
لیکن بات دور تک نکل جائے گی اب مریم بی بی جسے وزیر اعظم صاحب اپنی جا
نشین قرار دے چکے ہیں اور شہر اقتدار میں سانس لینے والا ہر شخص اس بات کا
ادراک رکھتا ہے اور انکی سیاسی تربیت بھی کی جا رہی ہے لیکن انھوں نے
سیکھنے کی بجائے فیصلہ کرنا اور بشمول وزیراعظم دوسروں کو تربیت دینا شروع
کر دی ہے۔میاں صاحب کی عوام رابطہ مہم ہو یا قوم سے خطاب اس میں سب سے
زیادہ کردار انھی کا تھا اور اب جو فیصلہ مریم بی بی نے کیا ہے سیاست کے
طالب علم کی حثیت سے میرے لئے بڑا تشویش ناک ہے جس سے ملک کو بڑے خونی
طوفان کا سا منا کرنے کا اندیشہ شدید ہے اور وہ یہ ہے کہ اب حکومت اینٹ کا
جواب پتھر سے دے گی کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ اب حالات و واقعات نوے کی
دہائی والے نہیں رہے پاکستان میں میڈیا بہت آزاد ہو چکا ہے سوشل میڈیا ایک
بہت بڑا ستون ہے ایسے حالات میں وہ کسی بھی حد تک جا رحیت کرے گے تو کم از
کم مارشل لاہ تو کسی صورت نہیں لگے گا۔
شریف فیملی کو اس بات کا ادراک ہے کہ پہلے تو احتساب کے نام پر سودے بازی
ہوتی رہی ہے لیکن اگر اس بار احتساب ہوا تو انکا بچنا نا ممکن ہے اور پھر
یقینا ان کے بچے جو دنیا کے سب سے محنتی اور ذہین دیکھائی دیتے ہیں جو دنوں
میں شاہی سلطنت کھڑی کر دیتے ہیں انکا مقدر در بدر کی ٹھوکرے ہو گا جسے
برداشت کرنے کی ان میں ہمت اور سکت نہی ہے چیف جسٹس کے انکار نے مشکلات میں
اور بھی اضافہ کر دیا ہے اور فیصلہ اس سے پہلے ہو چکا تھا کہ اگر ایسی صورت
حال پیدا ہو گئی تو ہم اپنی جارحیت کی پالیسی کو عروج پر لے جائے گے اور
تحریک کا جواب تحریک سے سڑکوں پر دے گے جس میں بڑے پیمانے پر خون خرابہ ہو
سکتا ہے شریف فیملی کو اپنے بچاوٗ کا یہی ایک راستہ دیکھائی دیتا ہے کچھ
سمجھدار لوگو ں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ اس سے آپ کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی
نقصان ہو گا لیکن مریم نواز اپنے فیصلے پر قائم ہیں اور اس کے لئے مکمل
منصوبہ بندی شروع ہو چکی ہے اور میری اطلاعات کے مطابق رمضان کے بعد اسکا
باقاعدہ آغاز کیا جائے گا اور اس سال کے اختتام پر میاں صاحب نئے انتخابات
کا اعلان کرے گے اور نعرہ لاگایا جائے گا کہ جب ہم نے احتساب کرنے کی کوشش
کی تو سارے کرپٹ عناصر اکٹھے ہو گئے۔اور قوی امکان ہے کہ اسی سال دسمبر میں
میں مسلم لیگ نواز حکومت میں رہتے ہوئے اپنا آخری جلسہ مینار پاکستان لاہور
میں کرے گی۔اور یہ سب بڑے پر سکون ماحول میں نہیں ہو سکتا اس میں بہت سے
لوگوں کے گھر اجڑے گے لیکن طاقت کا نشہ ہی ایسا ہے جس میں ہمدردی اور دکھ
تکلیف کا احساس تو دور کی بات مرہوم ذولفقار علی بھٹو نے وزیر اعظم بننے کے
لئے ملک کے دو ٹکڑے کرنا گوارا سمجھا کیو نکہ انکو بھی اقتدار کا تاج اپنے
سر پر سجانا تھا حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بھٹو کے پاس حکومت بنانے کے لئے
اکثریت بھی نہیں دی مشرقی پاکستان سے انھو ں نے ایک بھی امیدوار کھڑا نہیں
کیا اور مجیب الرحمان شامی کے پاس واضح اکثریت تھی اور وزیر اعظم بننا انکا
حق تھا لیکن بھٹو نے بھی دلائل کی بجائے آواز بلند کی جس کا نتیجہ بنگلہ
دیش نکلا بھٹو کا کہنا تھا کہ پنجاب اور سندھ طاقت کا سر چشمہ ہے جس طرح آج
شریف خاندان سمجھتا ہے کہ طاقت کا سر چشمہ صرف پنجاب ہے۔
اب کی بار نتیجہ ماضی کی طرح بیانک تو نہیں ہو گا لیکن پھر بھی بڑے پیمانے
پر خون خرابہ ہونے کا اندیشہ بہت شدید ہے میاں صاحب سے گزارش ہے کہ بچی کی
باتوں میں نہ آیئں جسے وزیر اعظم کی کرسی نظر آ رہی ہے ، معقول اور معتبر
لوگوں سے مشورہ کرے اور معملا ت کو بات چیت اور خوش اسلوبی سے نمٹانے کی
کوشش کریں اسی میں ملک و قوم کی بہتری ہے۔کیونکہ پھول بادل کے گرجنے سے
نہیں برسنے سے ہی اگتے ہیں۔
آخر میں امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش مطیع الرحمان نظامی کی پھانسی پر
حکومت پاکستان کا ردعمل قابل مذمت اور افسوس ناک ہے ترکی نے نہ صرف کھل کر
اسکی مذمت کی ہے بلکہ اپنا سفیر بھی بنگلہ دیش سے واپس بلا لیا ہے۔ |