ڈاکٹر مسیحا یا قصائی

زندگی انسان کو صرف ایک بار ملتی ہے اس میں اتار چڑھاؤ ، نشیب و فراز آتے رہتے ہیں انسان کو اچھے بُرے ہر قسم کے لوگ بھی ملتے ہیں زندگی ریل گاڑی کی طرح ایک پٹڑی پر چلتی رہتی ہے مختلف اسٹیشن آتے ہیں لوگ سوار ہوتے ہیں اور اتر جاتے ہیں کبھی کوئی ہمیشہ کے لئے آپ کا ساتھ نہیں دیتا ،بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنکو اچھے اور ہمیشہ ساتھ نبھانے والے دوست یا خیرخواہ ملتے ہیں زندگی دن بدن تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے (یعنی آخرت کیطرف)گھڑی کی سوئیاں ہر لمحے باور کروا رہی ہیں کہ مزید ایک پل کم ہو گیا ہے ، کسی نے کیا خوب کہا ہے گھڑی کی ٹِک ٹِک مسلسل ایک کڑی ضرب ہے زندگی کی سانسوں پر ، جو ایک ایک سانس کاٹ رہی ہے اور انسان کتنا نادان ہے جو زندگی کم ہونے کی خوشی مناتا ہے ۔

انسان فنا ہے اور ایک دن اپنے خالقِ حقیقی سے واپس جا کر ملنے والا ہے لیکن پھر بھی دنیا کی حرص اس قدر ہے کہ انسانیت تک بھول جاتا ہے ایک زمانہ تھا جب ہم لوگ سنتے تھے کہ ڈاکٹر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے لیئے مسیحا ہوتا ہے وہ دکھی انسانیت کی خدمت کرتا ہے ، ڈوبتے کو تنکے کا سہارہ ہوتا ہے ، جہا ں عام انسا ن بیماری کے خلاف نا اُمید ہو جاتا ہے وہا ں ڈاکٹر روشنی کی کرن ہوتا ہے اور لوگ اس پیشے سے وابستہ لوگوں کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے جیسامیں نے پہلے کہا اچھے اور بُرے انسان ہر معاشرے اور ہر دور میں پائے جاتے ہیں ایسے ہی ڈاکٹرز میں بھی اچھے اور برے لوگ موجود ہیں کچھ لوگ محبت اور صرف خدمتِ خلق کے جذبے سے سر شار ہوتے ہیں تب نہ صرف لوگ ان کی عزت کرتے ہیں بلکہ ان کو اپنا مسیحا مانتے ہیں لیکن جب سے ڈاکٹر اور مریض کے رشتے نے گاہک کا رشتہ اپنایا ہے تب سے انسانیت تو جیسے فوت ہی ہو گئی ہو۔

ایک دوست کو اﷲ جلہ شانہ نے بیٹی کی رحمت سے نوازہ ، ایک سال ہو گیا تھا مبارکباد دینے نہیں گیا تھا، اتفاق سے چھٹی تھی سوچا مبارکباد بھی دے آؤں اور اس کے گلے شکوے بھی دور کر آؤں، جب میں اس کے گھر پہنچا تو وہ خوشی سے پھولا نا سمایا ، مبارکباد دی وہ خوش بھی ہوا اوراسکے آنسو بھی آنکھوں سے ٹپکنے لگے ۔میں نے آنسوں کی وجہ پوچھی تو خاموش ہو گیا اور چائے کی طرف اشارہ کیا، میرے بے حد اصرار پر اس نے بتایا۔

میں ایک غریب انسان بارہ (12000)تیرہ ہزار روپے کماتا ہوں کرائے کا گھر ہے بتا ؤ ایسے میں پرائیویٹ ہسپتا ل کیسے برداشت کر سکتا ہے ، میں نے کہا آپ سرکا ری ہسپتا ل سے اپنا کیس کروا لیتے جس پر اس نے کہا چھ ماہ میں اپنے بیوی کو سرکار ی ہسپتا ل سے باقاعدہ چیک اپ کرواتا رہا ہوں ۔ رجسٹریشن کا رد بھی میرے پا س موجو د ہے ، لیڈی ڈاکٹر نے کہا تھا جب حالت نازک ہو گی تو فورا ہمارے پاس لے آنا ڈیلیوری کر دیں گے میں نے حسب ضرورت پانچ چھ ہزا ر پکڑے اور اسی سرکار ی ہسپتال لے گیا جہاں سے رجسٹریشن کروائی تھی اور ہر مہینے دو بار چیک کروانے جایا کرتا تھا ، جب ہم لوگ ہسپتا ل پہنچے توہمارے ساتھ بھیکاریوں جیسا سلوک کرنے لگے کبھی اس طرف لے جاؤ کبھی اُس طرف پھر جا کر میری بیوی کو اندر لے گئے اور 3 تین گھنٹون بعد واپس لے جانے کو کہہ دیا، ہم لوگ بہت پریشان تھے ایسا کیوں کر رہے ہیں انہوں نے کہا ہمارے پاس ڈاکٹر کم ہیں اور آپریشن کرنا پڑے گا نارمل ڈیلیوری نہیں ہوسکتی ہم آپریشن بھی ما ن گئے پھر کہنے لگے آپریشن تھیٹر ایک ہی ہے او ر مریض زیادہ لہذا آپ اپنے مریض کو لے جایں ہم نے فورا اپنے مریض کو ایک اور بڑے سرکاری ہسپتا ل میں لے گئے انہوں نے تو حد ہی کر دی ایک گھنٹے بعد کہنے لگے ہمارے پاس ان کا کوئی ریکارڈ نہیں لہذا جہا ں سے چیک اپ کرواتے تھے وہیں لے جایں ، بہت پریشان حال مریض کی طبیعت مزید بگڑتی جا رہی تھی وہ نازک سے نازک حالت میں ہوتی جا رہی تھی مگر ان قصائیوں پر غصہ آرہا تھا حکومت ان کو کتنی تنخواہیں دیتی ہے کتنی مرعات دیتی ہے اور یہ ایسا رویہ اخیتار کیے ہوئے ہیں بہت سے افسردہ حا لت میں ایک پرائیویٹ ہسپتا ل کا رخ کیا جہا ں جاتے ہیں انہوں نے 150000ایک لاکھ پچاس ہزار پہلے جمع کرانے کا کہا باقی ٹیسٹ وغیرہ لیں گے پھر بتایں گے مریض کے ساتھ کیا کرنا ہے اتنے زیادہ پیسے سنتے ہی میرے تو پاؤں تلے سے زمین جیسے نکل گئی ہو میں ایک غریب آدمی اتنی بڑی رقم کا بندوبست کہا ں سے کرتا ، اپنے مریض کو وہاں سے لیا اور باہر آکر بے بس رونا شروع کر دیا ایک دوست کو فون کیا اور ساری صورت حال سے آگاہ کیا رات نو 9 بجے سے صبح 6 بج گئے تھے مگر میری پریشانی بڑھ رہی تھی ، میرا دوست کچھ دیر بعد میر ے پاس آگیا اور ہم نے مزنگ کے قریب ایک نجی ہسپتال کارخ کیا ، وہا ں پر دو لیڈی ڈاکٹرز ہیں دونوں ماں بیٹی ہیں اور ان کے ہاتھ میں بھی چھر ی جس کے دو منہ ہوتے ہیں ان سے بات کی توکہنے لگی میرے پاس ٹائم نہیں جو انتظار کرتی رہوں آپریشن کروانا ہے تو بتایں میں نے پیسوں کی بات کی کو کہتی آپ کو معلوم نہیں پرائیویٹ ہسپتال میں سستا نہیں ہوتا چلو آپ پچاس ہزار جمع کراویں ۔میرے پاس تو اتنے پیسے نہیں تو کہتی جلد بتایں میں نے اور بھی کوئی کام کرنا ہے بڑی منتوں سماجتوں سے 45 ہزارروپے پے بات مان گئی ۔ یوں میرے دوست نے میری مدد کی اور میری بیٹی پیدا ہوئی۔

یہ صرف ایک واقع ہے ایسے بے شمار واقعات ہیں جو بیان سے بھی باہر ہیں دل خون کے آنسو روتا ہے کیا غریب آدمی اولا د پیدا کرنے سے پہلے ایک لاکھ روپے جمع کرے پھر اس نعمت کا سوچے ؟ ایک ڈاکٹر حکومت سے ایک اچھی تنخواہ لیتا ہے مرعات لیتا ہے ۔ ایک نرس جو کہ 16 و یں سکیل میں کام کرتی ہے جو سارے کام کرتی ہے وارڈ دیکھتی ہے ، ایمرجنسی میں کام کرتی ہے میڈ وائف ایک مخصوص کا م کے سوا کوئی کام نہیں کرتی جب کہ LHV صرف فون سننے میں مست رہتی ہے ڈاکٹر زصاحبان سیاسی بنیادوں پر آئے روز ہڑتا ل کرتے ہیں اور اپنے مطالبات منوانے کی خاطر ہسپتالوں میں کام نہیں کرتے، کبھی سوچااس وقت کتنے مریض اذیت کا شکار ہوتے ہیں کتنے مریضوں کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے اور آپ کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے فوت بھی ہو جاتے ہیں اور آپ صرف چند ٹکوں کی خا طر یا سیاسی مفاد کو پورا کرنے کے لیئے انسانیت کا خون کر دیتے ہیں۔ حکومیتں بلند و باگ دعوے کرتی ہے ، ہر طر ف پانامہ لیکس ، آف شور کمپنیاں ، کرپشن کا ذکر ہے ، ایک دوسرے پر الزامات کی بارش ہو رہی ہے ایک جماعت اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیئے دوسری جماعت پر کیچڑ پھینک رہی ہے سب کے سب ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہیں مگر کسی میں اتنی ہمت ہے کہ عام آدمی کے مسائل کے حل کے لیئے اسمبلی میں کوئی بل پاس کروائے۔ کسی کو میٹرو پر اعتراض ہے تو کوئی اورنج ٹرین کے پیچھے اپنی سیاست چمکا رہا ہے ، کیا اس درندگی سے بچنے کے لیئے بھی کوئی حکمت عملی بنائی ؟ ڈاکٹرز اپنی مرضی اور پیسووں کے لالچ میں ایک تندرست حاملہ خاتوں کا آپریشن کر دیتے ہیں
کیا یہ کرپشن نہیں ؟
کیا یہ جرم نہیں؟

2015ء میں پنجاب اسمبلی میں عورتوں کے حقو ق اور ان کے تحفظ پر ایک قانون پاس کیا گیا جس کی رو سے عورتوں پر تشدد اور ان کی عزت کی خلاف ورزی جرم ہو گا تو جناب سرکار ی ہسپتالوں کے ڈاکٹرز جان بو جھ کر کیس نہیں لیتے کیوں کہ ہر ڈاکٹر نجی ہسپتا ل میں کام کرتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ سرکاری ہسپتالوں میں مریضو ں کا علا ج معالجہ کیا جائے پھر وہ اپنی کمیشن کہاں سے وصول کریں گے۔ حکومت ِ وقت کو چاہیے جب بھی کو ئی ڈاکٹر سرکاری ملازمت اختیار کر ے اس کے لیئے لازم ہو کہ وہ کسی پرائیویٹ ہسپتا ل میں کام نہیں کرے گا ۔

سرکاری ہسپتالوں کے عملہ کی تربیت کی جائے کہ مریض اور لواحقین کے ساتھ نرمی سے پیش آیں ڈاکٹرز کو چاہیے کہ وہ خدمت خلق اور انسانیت کے جذبے سے کام کریں تاکہ لوگ انہیں اپنا مسیحا مانیں نا کہ قصائی۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

M Tahir Tabassum Durrani
About the Author: M Tahir Tabassum Durrani Read More Articles by M Tahir Tabassum Durrani: 53 Articles with 54890 views Freelance Column Writer
Columnist, Author of وعدوں سے تکمیل تک
Spokes Person .All Pakistan Writer Welfare Association (APWWA)
Editor @ http://paigh
.. View More